Home قومی خبریں شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے کا انعقاد

شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے کا انعقاد

by قندیل

نئی دہلی : ہمارے نقادوں کا ایک بڑا حلقہ فروعی مسائل میں زیادہ الجھا ہوا ہے۔ تنقید میں گہری سنجیدگی، مطالعے کو ایک ڈسپلن کے ساتھ رقم کرنے کا طور، ادب کے بنیادی اور تنازعاتی مسائل کی اہمیت اور کلاسیک کو ایک نیا نام دینے کی مساعی کا فقدان ہے۔ ہماری تنقید میں اس فلسفیانہ تفکر کی بھی زبردست کمی ہے جس سے معنی کی نئی راہیں وا ہوتی ہیں۔ فلسفیانہ ذہن خالص ادبی ذہن سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے اور معنی نہیں، معنی کے جھرمٹ اس پر منکشف ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام بین العلومی تنقید کے موضوع پر سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے میں پروفیسر عتیق اللہ نے کیا۔ انھوں نے بین العلومی تنقید کی ناگزیریت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بین العلومی عمل کے تحت سماجیاتی تصورات اور مشتملات و مواد کا اطلاق اہم ہے۔ ادب کی تفہیم سماجیاتی معنی کے ساتھ مشروط ہے۔ ادب بنیادی طور پر لسانی، ساختی اور جمالیاتی حسیت کی تنظیم کا عمل ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے اس بلیغ اور پرمغز خطبے میں کہا کہ زبان اور ادب اپنی سرشت کے اعتبار سے بین العلومی آمیزہ ہے۔ مختلف علوم و نظریات کو مخلوط اور ہم آمیز کر کے ہی تنقید ایک بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ چوں کہ تخلیقی ادب کا کردار بھی بین العلومی ہوتا ہے، اس لیے محض کوئی ایک نظریہ، محض کوئی ایک تصور، محض کوئی ایک علم، کسی بھی تخلیقی فن پارے کے تقاضوں سے بخیر و خوبی عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
شعبۂ تاریخ و ثقافت کے سیمینار ہال میں منعقدہ سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے کے صدارتی کلمات میں صدرِ شعبہ پروفیسر احمدمحفوظ نے کہا کہ تنقید اور تخلیق کی زبان ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہونی چاہیے۔ تخلیق کی زبان میں ابہام، پیچیدگی اور کثیر معنوی جہات اس کی خوبیاں تسلیم کی جاتی ہیں، جب کہ تنقید میں یہی عناصر خامی تصور کیے جاتے ہیں۔ تنقید کی زبان کا معروضی، صریح اور قطعی ہونا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں حالی، کلیم الدین احمد اور شمس الرحمان فاروقی کی زبان تنقید میں آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بین العلومی مطالعے کا انطباق لازمی صورت میں ہر فن پارے پر نہیں کیا جاسکتا۔
سولہویں سجادظہیر یادگاری خطبے کے کنوینر پروفیسر کوثر مظہری نے سجاد ظہیر کا مفصل تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سجاد ظہیر ایک طرف ترقی پسند تحریک کے بانی ہیں تو دوسری طرف کلاسیکی ادب کے باذوق قاری بھی ہیں۔ ان کی انقلابیت، تجربہ پسندی اور تخلیقی ہمہ جہتی انھیں ادبی تاریخ میں ممتاز کرتی ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے پروفیسر عتیق اللہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادبی سفر نہایت فعال اور متنوع رہا ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کی آٹھویں دہائی کی دہلیز پر بھی نئے سے نئے ادبی رجحانات و میلانات کا گہرا شعور اور آگہی رکھتے ہیں۔
پروگرام کا اختتام پروفیسر شہزاد انجم کے اظہارِ تشکر اور آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت سے ہوا۔ جلسے میں پروفیسر شہپر رسول، ڈاکٹر اے نصیب خان،ڈاکٹر عادل حیات، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمدمقیم، ڈاکٹر جاویدحسن، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ،ڈاکٹر خوشتر زریں ملک اور ڈاکٹر راحین شمع کے علاوہ شعبے کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

You may also like