میری ہمیشہ سے ایک خواہش تھی کہ اپنے تمام پڑوسی ممالک کی زیارت کروں تاکہ وہاں کی ہواؤں میں پرواز کر سکوں اور پڑوسی ممالک جو کبھی اپنے ہی تھے وہاں کی فطرت کی رعنائیوں اور دلفریبیوں کو محسوس کر سکوں۔ گذشتہ ماہ میری خواہش کی تکمیل ہوئی، مگر یہ تکمیل بھی ناقص ہے کہ ابھی متعدد پڑوسی ممالک کی سیر باقی ہے. البتہ خوش نصیبی ہے کہ بنگلہ دیش کی زیارت کرنے اور وہاں کی تہذیب وثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
بنگلہ دیش(سابق مشرقی پاکستان) جنوبی ایشیا کا ایک گھنی آبادی والا ملک ہے۔ میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ یہ تین اطراف سے ہندوستان سے ملا ہوا ہے ۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اور اب جنوب میں اس کی سرحدیں خلیج بنگال سے ملتی ہیں۔ بھارت کی ریاست پچھم بنگال کو ملاکر بنگالی اسے اپنا نسلی وطن تصور کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا مطلب ہے "بنگالیوں کا ملک” . بنگلہ دیش آبادی کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے، لیکن رقبہ کے اعتبار سے چھوٹے ہونے کی وجہ دنیا کی گنجان ترین آبادی والا ملک تصور کیا جاتا ہے.
یوں تو بنگلہ دیش اور بنگال ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ بنگلہ دیش اور ہمارے ملک کے درمیان گہرے ثقافتی تعلقات ہیں۔ ہم آرٹ ، موسیقی اور ادب سمیت کئی چیزیں آپس میں ساجھا کرتے ہیں لیکن ان دنوں بنگلہ دیش سے اپنے ملک کے تعلقات کچھ زیادہ ہی خوشگوار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے دونوں ملک کے حکمرانوں کی حکمرانی کے طریقے تقریباً یکساں ہیں۔ کرسی کی حفاظت کے لیے ہر وہ طریقہ اپناۓ جارہے ہیں جنکو اپنانا چند سال پہلے تک معیوب بلکہ قابل گرفت سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ معمول سا ہو گیا ہے۔ ویسے بھی بنگلہ دیش کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم رکھنا انکی مجبوری اور ضرورت دونوں ہے۔ یہ سیاسی معاملات ہیں جن سیاسی مبصرین گفتگو کریں گے.
بنگلہ دیش میں ویسے تو دیکھنے کے لیے عجائبات میں سے کچھ نہیں ہے لیکن اس ملک کی قدیم روایت اپنی تہذیب و تمدن کا بہترین عکاس ہے۔ ندی نالے، پوکھر تالاب، پھل پھول، فصل کھیتی، کھان پان، آب و ہوا اور قدرتی مناظر ، میلے ہاٹ، دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ فطری طور پر بنگالی بہت جذباتی اور محنت کش ہوتے ہیں۔ تجارت و ملازمت کے لیے بھی بنگالی ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
بہت ساری چیزوں میں بھارتی بنگالی اور وہاں کے لوگوں میں کافی مماثلت ہے مثلاً محنت و جفاکشی دونوں کی رگوں میں پیوست ہے، بنجر سے بنجر زمین کے سینہ کو چاک کرکے لہلہاتے فصل اگانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کھان پان تقریباً یکساں ہیں۔ لیکن بنگلہ دیشی تجارت میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور بڑی دلجمعی کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انکی معاشی حالت ہم سے بہت بہتر ہے۔
ہم کلی طور پر بنگلہ دیش کو معیشت کے معاملے میں آییڈیل نہیں بنا سکتے ہیں تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ ہندوستانی معیشتی تناظر میں بنگلہ دیش کو سامنے رکھ سکتے ہیں.
صنعتی علاقے ہوں یا شہری علاقے کھان پان تقریباً ایک ہے لیکن شہری تہذیب دیہات سے قدرے مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صنعتی علاقے اور شہروں میں مختلف علاقوں کے لوگ بستے ہیں، اس لیے انکے درمیان خالص بنگلہ تہذیب وتمدن کی جھلک قدرے کم نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ بنگلہ دیشی تہذیب وثقافت کا صحیح اندازہ گاؤں دیہات سے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مناظر، ندی تالاب، چرند پرند، دھان اور پاٹ کے کھیت کھلیان، ناوں میں سفر اور مانجھی کی زندگی اور انکے پرسوز نغموں اور گانوں کا ذکر صرف دیہات کی صبح وشام میں ہی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے تالاب اور پوکھر، ندی نالے بنگلہ دیشیوں کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ وہاں کے باشندوں کے رہن سہن اور کھان پان کا تصور ندی و تالاب کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ وہاں کے باشندوں کا اصل کھان پان مچھلی اور بھات (چاول) ہے اور مچھلی اور چاول کا دارومدار ندی نالے پر ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے یہاں ندی تالاب اور پوکھر کی بڑی اہمیت ہے۔ تقریباً ہر علاقے میں مکانات کے اگے پیچھے، دائیں بائیں ایک چھوٹا سا تالاب ضرور ہوتا ہے جس میں مچھلیاں پالی جاتی ہیں۔ اور مہمانوں کی ضیافت مختلف قسم کے تازہ مچھلیوں سے کیا جاتاہے. اسی طرح تالاب کے ارد گرد درخت پیڑ پودے ضرور لگاتے ہیں جس سے تالاب محفوظ بھی رہتا ہے اور ماحولیات و آب و ہوا کو صاف شفاف رکھنے میں مدد ملتی ہے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہیں۔ ہر طرف کیلے ، آم ، ناریل اور سپاری اور مختلف قسم کے درخت نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں تو بانس کے درخت تو نظر آ ہی جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے بارے میں، جو تازہ اعدادوشمار آرہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش نے تمام سیاسی اور معاشی بحرانوں پر قابو پا کر خاموشی کے ساتھ آگے کی جانب ترقی کی ہے۔ مثلا گارمنٹ فیکٹریوں میں جو مال تیار ہوتا ہے، یورپ اور امریکا کی منڈیوں میں اس کی بہت زیادہ کھپت ہے، بلکہ چین کے بعد بنگلہ دیش گارمنٹس کا بڑا سپلائر ہے، اندرونی معاملات میں مذہبی انتہا پسندی کی تحریکوں کو بھی قابو میں رکھا گیا ہے۔ لہذا اقتصادی لحاظ سے بنگلہ دیش مستحکم ہے ۔ بنگلہ دیش کی سوسائٹی میں ادب، آرٹ، موسیقی اور رقص کو اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے سوسائٹی میں فنون لطیفہ سے ہم آہنگی ہے، جو عوام کو تشدد سے دور رکھ کر ان میں خوشی اور مسرت کے جذبات کو پیدا کرتی ہے۔تعلیم کے شعبے میں بھی بنگلہ دیش میں ترقی ہوئی ہے اور اس کے اسکالرز اپنی تحقیقی کاموں کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے دیہات کے علاقوں میں غربت ہونے کے باوجود اس کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔ بنگلہ دیشی پاکستانیوں (جو انکے ہم مذہب ہیں) کے مقابلے ہندستان یا ہندوستانیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اسکی وجہ ہے کہ بنگلہ دیشی آج تک 1971 کی خون ریزی کے واقعات کو بھلا نہیں سکے ہیں جن میں تقریباً تیس لاکھ لوگ مارے گئے تھے، بنگلہ دیشی اس بات سے اب تک ناراض ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کا بٹوارہ لسانی بنیاد پر ہوا اور غیر اردو داں طبقہ یعنی بنگالیوں کو سخت ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن پاکستان کو ابھی تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے۔ بنگلہ مؤرخین نے اپنی آزادی کی تاریخ کو لکھنے کے لیے تاریخی دستاویزات کو صرف محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ انکو عام بنگالیوں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی ،ان دستاویزات میں لوگوں کے قتل اور عورتوں کی عصمت دری کے واقعات کو جمع کیا گیا ہے۔ لہذا یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تاریخ میں ماضی کی تلخی آ جاتی ہے تو پرانے رشتے بحال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بنگلہ دیشی پاکستانیوں کو ہم مذہب ہونے کے باوجود پسند نہیں کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا وجود اردو کی مخالفت پر ہوا لیکن باوجود اردو سے نفرت اردو پڑھنے والوں کی ایک اچھی تعداد ہے اور با ضابطہ دو یونیورسٹی میں اردو کے شعبہ قائم ہیں اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس میں زیر تعلیم ہیں۔ بنگلہ دیش کی زیارت سے قبل دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اس خوش فہمی میں تھا کہ کم از کم ہمارا ملک اپنے پڑوسیوں سے معاشی اعتبار سے بہتر ہے لیکن وہاں کی خوشحالی اور ترقی کو دیکھ کر یہ غلط فہمی دور ہو گئی، بنگلہ دیش میں وسائل محدود ہونے کے باوجود معاشی اعتبار ہم سے بہتر ہے، بنگلہ دیشی بہت خاموشی کے ساتھ اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لے جانے کی طرف گامزن ہیں۔