فلمی و ادبی دنیا کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔اپنے گیتوں سے اردو زبان کو مقبول عام بنانے میں جو کردار ساحر نے اداکیا ہے، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔ ساحر کے انتقال کو 43 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کے چاہنے والے آج بھی انھیں اسی طرح یاد کرتے ہیں، جیسا کہ ان کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ان دنوں ہر طرف ساحر کے چرچے ہیں اور کیوں نہ ہوں، ان کی پیدائش کی صدی تقریبات جومنائی جارہی ہیں۔ساحر یارباش قسم کے شاعر تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی، ا س لیے نہ تو ان کے آل اولاد تھی اور نہ کوئی دوسرا جھنجٹ۔ہاں وہ ناکام عاشق ضرور تھے۔ناکام اس لیے کہ جن سے انھیں عشق تھا، ان سے شادی نہیں ہوئی، لہٰذا انھوں نے مجرد زندگی گزاری۔اس غم کو غلط کرنے کے لیے وہ اکثر اپنے دوستوں میں مگن رہا کرتے تھے اور خوش گپیاں کرتے تھے۔ ساحر لدھیانوی کو قریب سے جاننے والے بھی اب دنیا چھوڑ چکے ہیں، صرف ایک شخص زندہ ہیں اور وہ ہیں امرناتھ ورما، جن کا شمار ہندستان کے سرکردہ پبلشروں میں ہوتا ہے۔
اسٹار پبلی کیشن کے بانی اور مالک امرناتھ ورما اس وقت عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں، لیکن انھیں کریدئیے تو وہ ساحر کی ایسی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ انھیں سننے اور سمجھنے کو جی چاہتا ہے۔گزشتہ ہفتہ میں نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، اور ان کے دامن میں ساحر کی یادو ں کے جو موتی ہیں،وہ آپ کے لیے چن کر لا لایا ہوں۔
امرناتھ ورما کو ادبی دنیا میں امر ورما کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب سے کوئی چالیس برس پہلے انھوں نے ایک فلمی وادبی ماہنامہ ”مووی اسٹار“ جاری کیا تو یہ خاکسار بھی اس کی ٹیم کا ایک حصہ تھا۔ میں اسی دور سے انھیں جانتا ہوں، تبھی یہ بھی جانا کہ ساحر کے ساتھ ان کا کتنا قریبی تعلق تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسٹار پبلی کیشنز نے اسٹارپاکٹ بکس کے نام سے شاعری کی جیبی کتابوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ صرف ایک روپے میں دستیاب یہ پاکٹ بکس لاکھوں میں فروخت ہوئیں اور ان کے ذریعہ ہی امرناتھ ورما کی ساحر سے شناسائی ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ساحر سے ان کی پہلی ملاقات 1958 میں اس وقت ہوئی جب وہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاں نثار اختر اور کچھ دیگر دوست بھی تھے۔امر ورما ان سے ملنے جامع مسجد علاقہ میں واقع فلورا ہوٹل پہنچے۔ اسی دور میں انھوں نے پاکٹ بکس کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس کا آغاز وہ ساحر کی کسی کتاب سے کریں۔ جب انھوں نے ساحر کے روبرو اپنا مدعا بیان کیا تو ساحر نے کہا کہ ”دوسرے پبلشر میری کتابوں کو مجھ سے پوچھے بغیر شائع کررہے تو آپ کو کیا قباحت ہے۔“
ساحر نے امر ورما کو اپنے گیتوں کا مجموعہ ”گاتا جائے بنجارا“ شائع کرنے کے لیے دیا۔امرورما بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کی ایک ہزار جلدیں شائع کیں اور بہت ہچکچاتے ہوئے بطور رائلٹی ساڑھے باسٹھ روپے کا چیک انھیں بھیج دیا۔ وہ ڈررہے تھے کہ کہیں اتنی معمولی رقم کا چیک دیکھ کر ساحر ناراض نہ ہوجائیں، لیکن چند ہی روز بعد امر ورما کو ساحرکا ایک خط موصول ہوا،جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ”آپ پہلے اردو پبلشر ہیں، جو مصنف کو رائلٹی دینا بھی جانتے ہیں۔“ امر ورما کہتے ہیں کہ ”یہ طنزتھا یا تعریف، میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ کچھ عرصے بعد میں بمبئی گیا تو وہاں کے اردو ادیبوں نے مجھے بتایا کہ ساحر لدھیانوی آپ کے ادارے کی بہت تعریف کرتے ہیں، کیونکہ آپ رائلٹی بھی دیتے ہیں جو آج اردو پبلشروں کے ہاں عنقا ہے۔اس کے بعد جب ان کی ملاقات ساحر سے ہوئی تو انھوں نے ان کی بہت خاطر مدارات کی۔وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی مہمان نوازی کو میں آج تک نہیں بھول پایا ہوں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ساحر نے ساڑھے باسٹھ روپے کا وہ چیک کیش نہیں کرایا بلکہ ایک یادگار کے طورپر اپنے پاس رکھا۔
امرورما بتاتے ہیں کہ”اپریل 1974میں ہمارے ادارے ہندی پاکٹ سیریز کی دسویں سالگرہ منائی گئی تو اس میں شرکت لیے ساحر بطور خاص دہلی آئے اور اپنے دوست اندرکمار گجرال کی صدارت میں مشاعرے میں شریک ہوئے۔ وہ کئی روز دہلی میں رہے اوران کا زیادہ تروقت میرے ساتھ ہی گزرا۔ اس دوران وہ کئی بار میرے غریب خانہ پر بھی تشریف لائے اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ ایک ہفتہ تک تقریباً روز ہی ان کے اعزاز میں ایک پروگرام ہوتا تھا۔ساحر کی بدولت کئی ممتاز ہستیوں سے میری شناسائی ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں ساحر کے بے تکلف دوستوں میں شامل ہوگیا۔“
امرورما بتاتے ہیں کہ”جون 1975میں جب وہ دوبارہ دہلی آئے تو میں نے ان کے اعزاز میں اپنے گھر پر ایک نشست کا اہتمام کیا۔اس میں ساحر کے ساتھ امرتا پریتم، وزیراطلاعات اندر کمار گجرال اور کرشن موہن کے علاوہ اردو ہندی کے کئی شعراء شریک ہوئے۔اس نشست میں گجرال صاحب نے اس وقت کے سیاسی حالات پر گفتگو کی تو ان کی کئی باتوں سے ساحرنے اختلاف کیا۔ یہ کام ساحر جیسا بے باک انسان ہی کرسکتا تھا۔چند دنوں بعد ہی ملک میں ایمر جنسی لگ گئی تو ساحر نے ایمر جنسی کے خلاف بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔“
امر ورما بتاتے ہیں کہ وہ جب بھی بمبئی جاتے تو اکثر شامیں ساحر کے ساتھ ہی گزرتی تھیں۔ان کی وجہ سے انھیں ہندوپاک کی کئی مایہ ناز ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کی چاروں کتابیں ’تلخیاں‘، ’پرچھائیاں‘،’آؤکہ کوئی خواب بْنیں‘اور ’گاتاجائے بنجارا‘میرے ادارے سے شائع ہوئیں جن سے میرے ادارے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے میری جو رہنمائی کی اور مجھے آگے بڑھایا، اسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔
امر ورما بتاتے ہیں کہ ساحر جب بھی دہلی آتے تو اپنے دوستوں میں سارا وقت گزارتے تھے۔ علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، رام پرکاش اشک یا کوئی اور دوست ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنے دوستوں کی جتنی مدد کی، اتنا شاید ہی کوئی دوسرا کرسکے۔وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی نجی زندگی محض اپنی ماں اور بہن تک محدود تھی۔ ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ ساحر شادی کرلیں تاکہ ان کے گھر میں بچوں کی رونق ہو، لیکن اس سے وہ محروم ہی رہیں۔
امرورما بتاتے ہیں کہ ”میں17اکتوبر1980کو امریکہ اور جرمنی کے دوہفتے کے سفر کی تیاری کررہا تھا اور اگلی صبح مجھے دہلی سے روانہ ہونا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔یہ ٹیلیفون بمبئی سے تھا۔ ساحر کی بہن انور نے مجھ سے کہا کہ ”ساحر صاحب بات کرناچاہتے ہیں۔“دوسرے ہی لمحے ساحر مخاطب تھے”امرناتھ جی ’تلخیاں‘کا پچیسواں ایڈیشن چھاپنے کی تیاری کیجئے، کیونکہ اس کے لیے ایک تقریب کی پیشکش ہے، جس کی صدارت مرکزی وزیراطلاعات (گجرال صاحب)کریں گے۔“دراصل ’تلخیاں‘کے کئی ایڈیشن میں نے ہی شائع کئے تھے اور عرصے سے یہ ایڈیشن نایاب تھا۔انھوں نے چند روز پہلے ہی کچھ ترمیم وتنسیخ کے ساتھ نئے ایڈیشن کا مسودہ مجھے بھجوایا تھا جس کی کتابت ہورہی تھی۔ان کی تجویز میرے لیے خوشی کی بات تھی، لہٰذا میں نے اس پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ ”25/اکتوبر کو میری واپسی ہے اور تبھی اس پروگرام کی تفصیلات طے لرلیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ امریکہ سے کچھ منگاناچاہیں توبتائیں، انھوں نے ایک خاص کریم لانے کو کہا۔ انھوں نے مجھ سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ جنوری میں میرے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائیں گے۔
امرناتھ ورماکہتے ہیں کہ”25/اکتوبر کی دوپہر امریکہ سے میری واپسی ہوئی۔ سفر کی تھکن کی وجہ سے انھیں فون نہیں کرسکا۔ارادہ تھا کہ اگلے روز فون کروں گا، لیکن 25/اکتوبر کی درمیانی شب میں ہی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے نیند کی حالت میں ہی فون اٹھایا تو آواز آئی ”امرناتھ جی ایک بری خبر ہے۔ ساحر لدھیانوی رات دس بجے انتقال کرگئے۔بمبئی سے جے دیو نے یہ اطلاع آپ تک پہنچانے کے لیے مجھ سے کہا ہے۔“ان چند الفاظ نے میری نیند نچوڑ لی، میں ایک دم گم سم ہوگیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ المناک خبر صحیح ہوگی۔میرے آنسو چھلکنے لگے اور آنکھوں میں گزشتہ بیس بائیس برسوں کی رفاقت کے وہ واقعات گردش کرنے لگے جب میں نے ساحر سے جی بھر کے باتیں کی تھیں۔ بارہا ان کے ساتھ دہلی اور بمبئی میں اپنی شامیں گزاری تھیں۔“
ساحرؔلدھیانوی کے جگری دوست امرناتھ ورما سے ایک ملاقات – معصوم مرادآبادی
previous post