نئی دہلی:ساحرداؤد نگری کی تنقیدی کتاب ”درخشاں ستارے“ کا اجرا ء عمل میں آیا۔مشتاق احمد نوری کی رہائش ’نورستان‘ عظیم آباد کے ادبا اور شعرا سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ خورشید اکبر کی صدارت میں اس کتاب کا اجرا اسلم حسن ایڈیشنل کمشنر ایکسایز مشتاق احمد نوری، قاسم خورشید، ناشاد اورنگ آبادی، فخرالدین عارفی،حسن نواب، ظفر صدیقی اور جنوں اشرفی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ سب سے پہلے مشتاق احمد نوری نے مہمانوں کا استقبال کیا اور ساحر داؤد نگری کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ ساحر بنیادی طور پر صحافی ہیں او ر انصار ی اطہر حسین کی حیثیت سے دہلی ”صداے انصاری“ نکالتے ہیں جس کے شمارے صحافتی اور ادبی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں لیکن ساحر داؤد نگری کے قلمی نام سے وہ شاعری کرتے ہیں اور ادبی مضامین لکھتے ہیں۔ان کی شاعری میں عصر کا عکس دیکھا جاسکتا ہے وہ دھیمے لہجے میں بڑی بات کہنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ان کا شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے جس پر بہار اردو اکادمی کا انعام بھی ملا ہے۔اچانک تنقیدی مضامین کا مجموعہ درخشاں ستارے لاکر انہوں نے سب کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ اس کتاب میں 23 مضامین شامل ہیں جو شاعروں افسانہ نگاروں اور صحافیوں کا جائزہ پیش کرتے ہیں اور ساحر کے قلم کو تسلیم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس میں تبصرے بھی شامل ہیں جو مختصر سہی لیکن کتابوں کا بہتر تعارف پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ساحر کو اس کتاب کے لیے مبارک باد پیش کی۔اس موقع پر خورشید اکبر نے کہا کہ ساحر کو شاعر کی حیثیت سے تو جانتا تھا لیکن ان کے تنقیدی وژن نے بہت متاثر کیا۔انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ یہ کتاب بڑے بھائی مشتاق احمد نوری کے نام منسوب کی گئی ہے اور سب سے طویل مقالہ مشتاق احمد نوری کے افسانوں پر ہے اس کے تیرہ صفحات میں نوری کے فن کا بھر پور جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اکبر نے پورے یقین سے کہا کہ صرف یہ ایک مضمون ساحر داد نگری کو ناقد کی حیثیت سے اسٹیبلش کرنے کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے کلام حیدری، زبیر الحسن غافل اور عتیق مظفرپوری پر لکھے مضمون کی بھی تعریف کی۔خورشید اکبر نے ساحر کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تنقید کی جانب توجہ مبذول کرتے رہنا چاہیے۔ اسلم حسن نے ساحر داؤد نگری کی تنقیدی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ واقعی مشتاق احمد نوری کے افسانوں کا بھرپور مطالعہ پیش کیا گیا ہے جس سے نوری کے فن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔انہوں نے کہا کہ والدِ محترم زبیر الحسن غافل کے شعری مجموعہ اجنبی شہر کا بھی بہترین جائزہ پیش کیا گیا اور خاندانی پس منظر میں بھی اسے سراہنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسلم نے احمد سجاداور ناشاد اورنگ آبادی پر لکھے گئے مضامین کی بھی تعریف کی۔ اس موقع پر قاسم خورشید نے بھی ساحر کے تنقیدی صلاحیت کو سراہتے ہوئے کہا کہ جب کوئی صحافی فکشن کا جائزہ پیش کرتا ہے تو اس میں صحافتی رنگ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ فنکار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ درمیانی راہ اختیار کرے اور فن کی باریکیوں کو پیش کرے۔انہوں نے کہا کہ نوری بھائی کی فکشن کا جائزہ جس طرح ساحر نے پیش کیا ہے اس کی داد نہ دینا بے ایمانی ہوگی۔ انہوں نے عتیق مظفرپوری پر لکھے گئے مضمون کو سراہتے ہوئے کہا کہ عتیق مظفرپوری پر بہت نہیں لکھا گیا ان پر کام آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ناشاد اورنگ آبادی نے ساحر سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تنقیدی کاوش کو سراہا اور مشورہ دیا کہ ساحر کو اب تنقید کی جانب بھی توجہ دیتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ قلم کی دھار برقرار رہے۔ حسن نواب نے بھی اپنے خیالات سے نوازتے ہوئے کہا کہ ساحر کی تنقیدی صلاحیت نے اس حیرت بھری خوشی سے دوچار کیا ہے وہ ان شاء اللہ اس کتاب پر منظوم تبصرہ پیش کریں گے (عجب اتفاق کہ یہ ان کی آخری ادبی محفل ثابت ہوئی)فخرالدین عارفی نے اپنے مخصوص لہجہ میں بہترین نظامت کرتے ہوے ساحر داؤدنگری کے کام کو سراہا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ نے مشتاق احمد نوری کو ان کے فکشن میں دریافت کیا ہے تو ان کا یہ حق بھی بنتا تھا کہ یہ کتاب انہیں ہی معنون کی جائے۔نثری مباحثے کے بعد خورشید اکبر کی صدارت میں مشاعرے کا آغاز ہوا۔ اسلم حسن نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ درج بالا حضرات کے علاوہ ظفر صدیقی، جنوں اشرفی،میم اشرف،شکیل سہسرامی، شعلہ وارث وغیرہ نے اپنے کلام سے نوازا۔فخرالدین عارفی کی نظامت نے محفل کو جاندار بنادیا۔آخر میں ساحر دادئد نگری نے سبھی شرکا کا شکریہ ادا کیا خصوصی طور پر انہوں نے پروفیسر شائستہ انجم نوری کی ضیافت کا بھی شکریہ ادا کیا۔
ساحرداؤد نگری کی کتاب’درخشاں ستارے‘ کا اجرا
previous post