Home نقدوتبصرہ سہارنپور کا ادبی نگارخانہ-حقانی القاسمی

سہارنپور کا ادبی نگارخانہ-حقانی القاسمی

by قندیل

شہر صرف انسانی آبادی نہیں بلکہ آداب اور اسالیب سے بھی عبارت ہے۔ہر شہر کی ایک سائیکی ہوتی ہے، اور خلقیہEthosبھی۔ شہر کا چہر ہ بھی ہوتاہے، سانسیں اوردھڑکنیں بھی۔ ہر شہر کی شناخت کے دومرکزی حوالے ہیں، ایک صارفیت اوردوسری تخلیقیت۔ صارفیت حاوی ہوجائے تو شہر تخلیقی طور پر ویران اور بنجر ہوجاتے ہیں اور تخلیقیت زندہ رہے تو شہر کو ایک تہذیبی شناخت مل جاتی ہے۔
دنیامیں دوطرح کے شہرہوتے ہیں ایک Orthogenetic اوردوسراheterogenetic۔ شہر کے مزاج، رویے، ادا اور اسلوب کی وجہ سے اس کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے، اوراسی سے شہر کے کردار، ثقافتی تنوع اور تجانس کا بھی تعین ہوتاہے۔ آج دنیاکے بہت سے شہر کھنڈرمیں تبدیل ہوچکے ہیں۔مگروہ مابعد الطبیعاتی حوالوں میں زندہ اورآباد ہیں۔ ہندوستان میں بھی بہت سے شہرایسے ہیں، وقت اورحالات کے اعتبار سے جن کے کرداربدلتے رہیں گے مگر جن شہروں کا مابعدالطبیعاتی مزاج اور رویہ ہے وہ جغرافیائی نقشے سے معدوم بھی ہوجائیں تو لوح حافظے پر محفوظ رہیں گے۔ خوش قسمتی سے سہارنپور بھی ایک ایسا شہر ہے جس کے دامن میں دیوبند،گنگوہ،نانوتہ،انبیٹھہ جیسے علاقے ہیں جو عظمتوں کے روشن حوالے ہیں۔ اس لیے اگر اس شہر کا مادی وجود معدوم بھی ہوجائے تو تاریخ وثقافت میں یہ شہر ہمیشہ زندہ رہے گا،کیونکہ تہذیب وتمدن اورعلوم و ادبیات کے باب میں اس شہر کی ایک زریں تاریخ رہی ہے۔ اس کا جڑاؤ شاہ ہارون چشتی جیسی عظیم صوفی شخصیت سے ہے جن کے فیوض و کرامات نے اس شہر کی تقدیر و تصویر بدل دی ہے۔ یہ شہر مشائخ و صوفیا،علمااورادباکا مولد و مسکن رہاہے،اس سر زمین سے ایسے علمااورمشائخ کی نسبت رہی ہے جن کی علمی ضوفشانیوں سے ایک جہان منور ہے،اورایسے ادباکا بھی رشتہ رہا ہے جو عالمی سطح پر شہرت اورشناخت کے حامل ہیں۔ علمی اورروحانی مرکزیت کا یہ شہر ادبی اعتبار سے بھی نہایت زرخیز ہے کہ یہیں سے آرزو سہارنپوری کا تعلق ہے۔ ادیب سہارنپوری اور روش صدیقی بھی اسی شہر کے تھے۔ظ انصاری کا وطن مالوف بھی یہی شہر ہے۔اس شہر کے قصبات وقریات میں بھی علم و ادب کی مایہ ناز ہستیاں رہی ہیں۔ یہ شہر واقعی علم وادب کا ایک گہوارہ ہے اوراس شہر نے علمی اورادبی وراثت کو حتی الامکان محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی قدیم کے آثار وادبیات کو چھوڑ بھی دیجیے تو عصر حاضر میں بھی شہر سہارنپور میں باکمال شخصیتیں موجود ہیں ۔ شعر وسخن کی تواناآوازوں کی موجودگی نے اسے ابھی تک تخلیقی طورپرزندہ اورتابندہ بنائے رکھاہے، مگرہر شہر کی طرح اس شہر کا بھی المیہ یہ ہے کہ اس کی ادبی تاریخ مرتب اورمنظم طورپر ترتیب نہیں دی گئی اس لیے یہاں کے بہت سے جوہر قابل ہنوز نگاہوں سے اوجھل ہیں، اوراس کا احساس یہاں کے حساس اورباشعور مکینوں کو بھی ہے۔ ادب کی شاید ہی کوئی صنف ہو جس میں اس شہر کی نمائندگی نہ ہو پھر بھی بہت سی ایسی ادبی شخصیتیں ہیںجن کی شہرت اورشناخت کا دائرہ سہارنپور اوراس کے اطراف و اکناف تک ہی محدود ہے،اس لیے ان ادیبوں اورتخلیق کاروں کو محدودیت کے اس حصار سے باہر نکالنے کی شدید ضرورت تھی اور اس کا احساس نگینہ بجنور کی بیٹی اورسہارنپور کی بہو ڈاکٹر قدسیہ انجم کو ہوا کہ انہوں نے سہارنپور کو اپنی تحقیقی تلاش و جستجو کا مرکز بنایا جس کے نتیجے میں بہت سے خورشید و قمر،نجوم و جواہر ان کی نگا ہ میں آئے اورانہوں نے دبستان سہارنپور کے عنوان سے ایک کتاب کی ترتیب و اشاعت کا بیرہ اٹھالیا۔
’دبستان سہارنپور‘ میں ان ادبی شخصیات کے تخلیقی کمالات سے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے جن میں سے کچھ افراد سے ادبی دنیاتو مکمل طور پر واقف ہے مگربہت سے ایسے بھی ہیں جو ادبی دنیا سے مکمل طورپر روبرو نہیں ہوسکے تھے۔ قدسیہ انجم نے جن فنکارو ںکے حوالے سے اس کتاب میں مضامین شامل کیے ہیں ان میں منشی ثناا حمدصبر و عصر، آرزو سہارنپوری، زاہد سہارنپوری،آزاد انصاری،حنیف سیمابی،شوق سہارنپور ی،واصف عابدی،شوق مانوی، حافظ اسحاق سہارنپوری ، جمیل مانوی،ضمیر درویش،اکمل امام،عاصم پیر زادہ ،ساحل فریدی،بدھ پرکاش جوہر،فیاض ندیم اور ان کے علاوہ بہت سی ممتاز اورمقتدر شخصیتیں ہیں۔ ان شخصیات کے فنی اور فکری کمالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس شہر میں شعر و سخن کے آفتاب و ماہتاب موجود ہیں جن کی تخلیقی کرنوں سے جہان اظہار و احساس میں روشنی اور تابندگی ہے، اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسامعاشرہ جس کے بارے میں یہ تصور عام ہو کہ یہاں کی خواتین چادراورچہار دیواری میں قید رہتی ہیں، مگر قدسیہ انجم سہارنپور کی ایسی خواتین کی تلاش میں بھی کامیاب ہوگئیں جن کا شعر و سخن سے گہراسروکار ہے۔ ان میںظہیرالنسانگار، صفیہ سلطانہ، تنظیم معین،فرحت بیگم،نرجس زیدی،حسن ناز،افشاں شمسی، نورجہاں نوری ،شگفتہ مزاج،طلعت سروہا، ترنم صبا، نصرت پروین،الیشاخان قابل ذکر ہیں جو شعر و ادب کو تازگی اورتابندگی عطاکر رہی ہیں۔
علاقائی ادبی تاریخ کی ترتیب و تشکیل کے باب میں ڈاکٹر قدسیہ انجم کا یہ کام قابل صد ستائش ہے کہ ایسی ہی تاریخوں سے اردو ادب کی تاریخ مکمل ہوتی ہے۔ اگر ایسی تاریخیں مرتب نہ کی جائیں توتاریخ ادب اردو ادھوری اورناقص قرار پائے گی۔ میں دبستانِ سہارنپور کے لیے ڈاکٹر قدسیہ انجم کو صمیمِ قلب سے مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد سہارنپور کے ادبی منظرنامے کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں مزید تجسس اور تحرک پیدا ہوگا اور سہارنپور کی ایک مکمل اور جامع ادبی تاریخ قارئین کے روبرو ہوگی۔

You may also like