Home ستاروں کےدرمیاں صحافی پرویز احمد کی یاد میں- معصوم مرادآبادی

صحافی پرویز احمد کی یاد میں- معصوم مرادآبادی

by قندیل

میں ابھی ابھی اپنے سینئر صحافی دوست پرویز احمد کی تدفین میں شرکت کرکے واپس ہوا ہوں۔ انھیں دہلی گیٹ قبرستان میں دفن کیا گیا ہے، جو پریس ایریا میں ’انڈین ایکسپریس‘ بلڈنگ کے پیچھے واقع ہے۔ اسی قطار میں تمام اخبارات کے دفاتر کے ساتھ اس ’نوبھارت ٹائمز‘ کا بھی دفتر ہے جہاں پرویزاحمد نے کوئی بارہ سال کام کیا۔انھوں نے کبھی سوچابھی نہیں ہوگا کہ جس بلڈنگ میں وہ کام کرتے ہیں، اس کے پیچھے ان کی آخری آرام گاہ بھی بنے گی۔ دہلی گیٹ قبرستان میں ان کی تدفین ہی نہیں ہوئی بلکہ یہاں ان کے جسد خاکی کو غسل بھی دیا گیا اور یہیں ان کی نماز جنازہ بھی ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز جنازہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ان کی تدفین میں شرکت کے لیے آنے والے بیشتر ان کے غیرمسلم صحافی دوست اور خواتین تھیں۔خواتین کو شکایت یہ تھی کہ انھیں قبرستان میں داخل ہونے سے روکا گیا۔

پرویز احمد میوروہار کے جس سماچار اپارٹمنٹ میں رہتے تھے، وہاں تجہیز وتکفین کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ اس لیے ان کا جسد خاکی اپولو اسپتال سے سیدھے دہلی گیٹ قبرستان لایا گیا اور یہیں ان کی تجہیز وتکفین ہوئی۔

نماز جنازہ سے پہلے جب ان کا چہرہ کھولا گیا تو مجھے یہ دیکھ کر زیادہ افسوس ہوا کہ وینٹی لیٹر نے ان کے چہرے کے بائیں حصے کو بگاڑ دیا تھا۔وہ کئی روز سے دہلی کے اپولو اسپتال میں داخل تھے اور ڈاکٹر ان کی جان بچانے کی انتھک کوشش کررہے تھے، مگر جب انسان کی سانسیں پوری ہوجاتی ہیں تو ڈاکٹروں کے سارے حربے ناکام ہوتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کا یہ پہلو مجھے بہت ظالمانہ لگتا ہے جس میں وہ جسم میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور براہ راست قدرت سے متصادم ہوتے ہیں۔

پرویز احمد بہترین صحافی تھے یا بہترین انسان، میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔وہ بہت خوبیوں کے انسان تھے۔صحافت کی دنیا میں جن لوگوں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ نیوز چینلوں کے کئی بڑے چہرے ان کے شاگردوں میں شامل رہے ہیں۔

ان سے میری پہلی ملاقات تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ پہلے ’نوبھارت ٹائمز‘ کے دفتر میں میرے مخلص دوست ڈاکٹر مہرالدین خاں مرحوم نے کرائی تھی۔بعد کو کبھی کبھی پریس کلب میں، جس کے وہ صدر بھی رہ چکے تھے، آتے جاتے مل جاتے تو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ’وش‘ کرتے تھے۔ لیکن ان سے رشتہ اس وقت مضبوط ہوا جب وہ فیس بک پر میرے دوست بنے۔کئی برس سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ وہ میری ہر پوسٹ پر ردعمل ظاہر کرتے تھے اور کبھی کوئی پوسٹ زیادہ پسند آتی تو حوصلہ افزائی کے لیے مجھے فون بھی کرتے تھے۔کوئی نئی کتاب آتی تو اسے پڑھنے کی خواہش ظاہر کرتے اور حسب عادت اس کے مندرجات پر گفتگو بھی کرتے تھے۔

پرویز احمد نے اپنی صحافتی زندگی کا بیشتر حصہ ہندی صحافت اور ٹی وی جرنلزم میں گزارا۔ وہ کچھ عرصے اردو روزنامہ ’قومی آواز‘ سے بھی وابستہ رہے،لیکن جلد ہی انھیں ’نوبھارت ٹائمز‘ میں ملازمت مل گئی۔ یہ وہ دور تھا جب’ایس پی‘(سریندر پرتاپ سنگھ)اس کے ایڈیٹر تھے۔یہ’نوبھارت ٹائمز‘ کا سنہرا دور تھا اور ہندی کے تمام بڑے صحافی اس سے وابستہ تھے۔ بعد کو وہ ’نوبھارت ٹائمز‘ کے سنڈے ایڈیشن ’رویواریہ‘ کے انچارج بھی بنے۔ اسی دور میں جب اردو کی مایہ ناز ناول نگار قرۃ العین حیدر کو گیان پیٹھ ایوارڈ ملا تو پرویز احمد نے ’رویواریہ‘ کے صفحہ اوّل پر ان کا انٹرویو اور کہانی شائع کی۔

پرویز احمد کی پیدائش مدھیہ پردیش کے اجین ضلع میں ہوئی تھی۔انھوں نے اجین کی وکرم یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایل ایل بی کیا۔اس کے بعد وہ دہلی آگئے اور یہاں انھوں نے جے این یو سے اردو میں ایم اے اور ایم فل کیا۔ یہیں سے انھوں نے اردو میں ماس میڈیا ڈپلوما کورس بھی کیا تھا۔ جے این یو میں ان کے ہم جماعتوں میں علی جاوید، فرحت رضوی اور شاہد پرویز بھی تھے۔ ایم فل کرنے کے بعد وہ ہندی اخبار’ساندھیہ سماچار‘ سے وابستہ ہوگئے۔ پھر وہ اردو روزنامہ ’قومی آواز‘ میں آگئے اور یہاں سے ’نوبھارت ٹائمز‘ میں گئے جہاں انھوں نے بارہ سال کام کیا۔بعدازاں انھوں نے ملک کے پہلے ٹی وی چینل ’ٹی وی آئی‘ کے سینئر پرڈیوسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں۔وہ چار سال تک’زی نیوز‘ میں ایسوسی ایٹ ایڈیٹر رہے اور یہیں دہلی کے سابق وزیراعلیٰ منیش سسودیا نے ان کے ماتحت کے طورپر کام کیا۔ منیش سسودیا پرویزاحمد سے بہت متاثر تھے اور ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔زی نیوز سے علیحدگی کے بعدانھوں نے پاکستان کے’اے آر وائی نیوز‘کے’ایڈیٹر انڈیا‘ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ صحافت کے ساتھ ساتھ وہ ادب سے بھی وابستہ تھے۔ان کے لکھے ہوئے تین ہندی ڈرامے’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘،’چھوٹی ڈیوڑی والیاں‘، اور ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘کے شائع ہوئے۔ان کے ڈراموں کااردو ترجمہ بھی ہوا۔وہ ہندی ادب میں خاص عمل دخل رکھتے تھے۔ ان کی شادی مشہور ہندی ادیب گلشیر شانی کی بیٹی صوفیہ شانی سے ہوئی تھی۔ ان کی دوبیٹیاں روحی اور صبوحی بھی میڈیا سے وابستہ ہیں۔جبکہ ان کی اہلیہ بی بی سی لندن سے وابستہ رہ چکی ہیں۔میڈیا کی دنیا میں ان کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے جنازے میں میڈیا جگت کی کئی اہم ہستیاں موجود تھیں۔ ان میں پروفیسر رام سرن جوشی، ہندوستان ٹائمز کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما، اے بی پی نیوز کے سابق سربراہ شاذی زماں، ٹائمزآف انڈیا کے سینئر صحافی مہندر وید،یواین آئی اردو کے سابق مدیر شیخ منظوراحمد، پی ٹی آئی کے منیجنگ ایڈیٹر شکیل احمد، بی بی سی کے اقبال احمد، پربھات شنگلو، جے شنکرگپتا، منورنجن بھارتی سمیت الیکٹرانک میڈیا کے کئی نامی چہرے شامل تھے۔

پرویز احمد کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی تمام تر مصروفیت کے باوجود ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں میں شامل ہوتے تھے۔ وہ ایک معاملہ فہم اور صالح انسان تھے۔ بہت دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے تھے اوراپنے مخاطب کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ انھیں اپنے خیالات دوسروں پر تھوپنے کی عادت نہیں تھی۔ وہ صحافیوں کی اس نسل کے نمائندے تھے جس نے اس پروفیشن کو پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ اختیار کیا تھا اور جو سچ کو سچ کہنے کا ہنر جانتی تھی۔ پرویز احمد کے انتقال سے دہلی کی صحافتی، ادبی اور تہذیبی فضا سونی ہوگئی ہے۔

You may also like