Home تجزیہ صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے نیوزچینلز- مسعود جاوید

صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے نیوزچینلز- مسعود جاوید

by قندیل

 

ہم توٹھہرے پرانے خیالات کے لوگ۔ اب نئے ہندوستان میں ہر مقدس پیشے کی اخلاقیات بدل گئی ہیں۔ پرانی اخلاقیات کے تحت:

١- ڈاکٹر حلفیہ عہد کرتا ہے کو وہ مریض کی صحت بحال کرنے کے لئے اپنے علم اور تجربہ مکمل پیشہ ورانہ انداز میں استعمال کرے گا۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ یا اللہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ تو کسی کو مریض بنا دے میں تو صرف اپنا رزق مانگتا ہوں اب میرے رزق کسی کے مریض ہونے میں ہے اس لئے مجھے توفیق دے کہ میں دیانت داری سے رزق حاصل کر سکوں۔ ۔مگر جدید دور میں ہسپتال اور نرسنگ ہوم کے مالک ڈاکٹر سے پوچھتا ہے کہ کتنی تنخواہ لوگے ڈاکٹر کہتا ہے ٥٠٠٠٠ پچاس ہزار تو مالک کہتا ہے کہ کیا اتنی تنخواہ میں تمہارے بچے اچھے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھ پاۓ گا ماڈرن لائف سٹائل کے لۓ گھر میں آسائش کے تمام سامان مہیا کر پاؤ گے ظاہر ہے نہیں ۔۔۔ اس لئے میں تمہاری تنخواہ ٨٠٠٠٠ اسی ہزار مقرر کرتا ہوں بس تمہیں ماہانہ ٹارگٹ پورا کرنا ہوگا وہ اس طرح کہ ضرورت ہو یا نہ ہو سونوگرافی سی ٹی اسکین کلچرڈ ٹیسٹ ہر مریض کے لئے تجویز کرنا ہوگا اور وہ بھی اسی ہسپتال کا معتبر ہوگا۔

٢- انگلش میڈیم پبلک اسکول ( یہ مکمل طور پر پرائیویٹ ہوتے ہیں لیکن پبلک اسکول کہلاتے ہیں) اس میں مہنگی فیس کی ادائیگی کے باوجود داخلہ آسانی سے نہیں ملتا۔ ٹیوشن کوچنگ اور نیٹ کی مدد سے پروجیکٹ اور پرنٹ آؤٹ ۔۔۔۔۔ ٹیچر کی ذمہ داری ہلکی پھلکی رہنمائی تک محدود ہوتی ہے۔ طالبعلم کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب طلباء بھی اساتذہ کی عزت نہیں کرتے۔ وہ قدریں زمانہ ہوا ختم ہو گئیں جب استاد کا درجہ باپ کے مساوی ہوتا تھا اور ہونہار طلبہ پر اساتذہ کو فخر ہوتا تھا کہ اس نے پتھر کو تراش کر ہیرا بنایا جس کا ثمرہ فراغت کے بعد اس کا کیریئر اور حصولیابی ہے۔

یہ دونوں پیشے بہت مقدس مانے جاتے تھے ڈاکٹر کو مسیحا اور ٹیچر کو بھگوان سوروپ مانا جاتا تھا مگر جب سے کارپوریٹ نے اسکولوں اور ہسپتالوں کو گود لیا اخلاقیات کی گود ہی اجڑ گئی۔

٣- صحافت سماج کا ایماندار آئینہ ہے۔ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اس کی مصداقیت کی ضمانت ہوتی ہے حق کی تلاش investigative journalism اس کی روح ہے اور حکومت کی عوام دوست پالیسیوں اور کاموں کو اجاگر کرنا اور عوام مخالف قوانین اور پالیسیوں کی مخالفت اور اس سے عوام کو باخبر کرنا اس کے فرائض منصبی ہیں۔

ان ہی اصولوں کے تحت صحافیوں کے لئے ضابطہ اخلاق بناۓ گۓ جن کے تحت مثال کے طور پر فسادات کے دوران ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی مذہبی شناخت پوشیدہ رکھنا ہے مبادا جس فرقے کا زیادہ نقصان ہوگا وہ انتقامی حملے کی تیاری کرے گا۔ فرقوں پر مبنی فہرست بتانے سے احتراز کرنا۔ مذہبی علامات جس سے فرقے کی نشاندہی ہو اسے دیکھانے میں احتیاط کرنا۔ افسوس ان دنوں ان تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ایسی فہرست اور مناظر بار بار دیکھاۓ جا رہے ہیں جن سے لوگوں میں غم و غصہ کا اضافہ ہونا لازمی ہے۔ سارا زور کسی ایک ، دو یا تین کی دردناک ہلاکت پر ہی کیوں ؟ کیا پولیس والوں کی جان جان تھی اور شہریوں کی جان غیر اہم ؟

مرنے والوں کی فہرست دیکھ کر مریض ذہنیت کے لوگ تخمینہ لگا رہے ہیں کہ پلڑا کس کا بھاری رہا۔ چینلز کو اپنی ٹی آر پی کی پڑی ہے انہیں مصیبت کی اس گھڑی میں چینلز کے توسط سے متعلقہ محکموں تک یہ باتیں پہنچانے کی ذمہ داری ہے کہ ہسپتالوں میں وافر مقدار میں دوائیاں ہیں یا نہیں چھوٹے ہسپتالوں سے بڑے ہسپتالوں تک لے جانے کے لئے ایمبولینس مہیا ہیں یا نہیں مرنے والوں کے ورثا کو ہسپتالوں میں کیا دقتیں پیش آرہی ہیں اور کیوں ؟ کہیں کچھ اور زخمی یا مہلوک تو پڑے نہیں ہیں ؟ اپنے بنیادی کاموں کو ترجیح دینے کے بجائے سیاسی ایجنڈوں کو محور بنائےہوئے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment