Home نقدوتبصرہ صحابۂ کرام – مولانا مودودی کی نظر میں – محمد رضی الاسلام ندوی

صحابۂ کرام – مولانا مودودی کی نظر میں – محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

صحابۂ کرام کے بارے میں مولانا مودودی کے نظریات پر مشتمل ایک کتاب چند ماہ پہلے پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ امید ہے ، ان شاء اللہ یہ ہندوستان میں منشورات نئی دہلی سے شائع ہوگی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اسے معروضی انداز میں مولانا مودودی کی تحریروں کے اقتباسات کی روشنی میں مرتّب کیا گیا ہے۔ اسے درج ذیل لنک پر پی ڈی ایف اور یونی کوڈ میں فراہم کردیا گیا ہے:

صحابہ کرامؓ: مولانا مودودیؒ کے عقائد و نظریات

اس کتاب کو مولانا محمد فیصل مدنی اور مفتی محمد اویس اسماعیل نے مرتّب کیا ہے۔ مرتبین کی خواہش پر راقم نے بہ طور پیغام جو تحریر لکھی تھی اسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے :
” صحابۂ کرامؓ وہ اوّلین گروہ ہیں جنھیں اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی۔ انھوں نے دین کو براہِ راست آپ ﷺ سے اخذ کیا، پھر اسے بے کم و کاست دوسروں تک پہنچایا۔ قرآن مجید میں انھیںرَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ (المائدہ۵: ۱۱۹، التوبہ۹: ۱۰۰)’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے‘‘ کی بشارت سنائی گئی ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے بھی انھیں مطعون اورمتّہم کرنے پر سخت تنبیہ کی ہے۔
مولانامودودیؒ(م:۱۹۷۹ء) نے اپنی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ اور دوسری کتابوں میں صحابۂ کرامؓ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے، ان کی دینی خدمات کو زبردست خراج ِ تحسین پیش کیا ہے اور انھیں بُرا بھلا کہنے والوں پر سخت نکیر کی ہے۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے: ’’صحابۂ کرامؓ کو بُرا بھلا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں، بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔‘‘
(رسائل و مسائل ، ۸۵۳)

دوسری طرف مولانا مودودیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابۂ کرام ؓکے مجموعی اقوال و افعال تو دین میں حجت ہیں، لیکن ہر صحابی کی ہر بات حجت نہیں ہے۔ صحابہؓ کے درمیان مختلف امور و معاملات میں اختلافات رہے ہیں۔ دین میں حجت کا مقام صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو حاصل ہے۔ ان پر صحابۂ کرام ؓکے اقوال و افعال کو جانچا اور پرکھا جائے گا اور ان میں سے جو کتاب و سنّت سے ہم آہنگ معلوم نہ ہوں ان پر نقد کیا جا سکتا ہے۔ نقد کرنے کا مطلب ان میں خامیاں نکالنا نہیں، بلکہ ان کا جائزہ لینا ہے۔ یہی مفہوم ہے مولانا مودودیؒ کی اس بات کا کہ صحابہ ؓمعیارِ حق نہیں ہیں۔انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے:’’معیارِ حق تو صرف اللہ کا کلام اور اس کے رسول ﷺ کی سنّت ہے۔ صحابہ معیارِ حق نہیں،بلکہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ کسوٹی سونا نہیں، لیکن سونے کا سونا ہونا کسوٹی پر کسنے سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (رسائل و مسائل، ۸۵۶)

مولانا مودودیؒ صحابۂ کرامؓ کے معاملے میں نقد اور اہانت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ کسی صحابی کی کوئی بات کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہ معلوم ہوتی ہو تو اسے غلط کہا جا سکتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر اس صحابی پر زبانِ طعن دراز کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ’معوّذتین‘ (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کو قرآن مجید کی سورتیں نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:’’یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے قرآن کی دوسورتوں کے بارے میں کتنی بڑی چوک ہوگئی۔ایسی چوک اگر اتنے عظیم مرتبہ کے صحابیؓ سے ہوسکتی ہے تو دوسروں سے بھی کوئی چوک ہوجانی ممکن ہے۔ ہم علمی تحقیق کے لیے اس کی چھان بین کر سکتے ہیں اور کسی صحابی کی کوئی بات یا چند باتیں غلط ہوں تو انھیں غلط بھی کہہ سکتے ہیں، البتہ سخت ظالم ہوگا وہ شخص جو غلط کو غلط کہنے سے آگے بڑھ کر ان پر زبان ِ طعن دراز کرے۔‘‘ (تفہیم القرآن،۶/۵۵۲)

کہا گیا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات علمائے اہلِ سنت کے مطابق نہیں ہیں، حالاں کہ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو دونوں کے درمیان ذرا بھی فرق نہیں ہے۔ صحابۂ کرامؓ کو مولانابھی مرحوم و مغفور مانتے ہیں اور دیگر علما بھی۔ دونوں انھیں معصوم نہیں سمجھتے۔ ہر صحابیؓ کی زندگی میں خیر کا پہلو غالب ہے، دیگر علما کی طرح مولانا بھی اس کے قائل ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کا اجماع اور مجموعی طرزِ عمل دیگر علما کے نزدیک حجت ہے اور مولانا بھی اسے حجت سمجھتے تھے۔ ہر صحابیؓ کے ہر فعل کو مولانا مطلقاً واجب التقلید اور معیارِ حق نہیں مانتے اور دیگر علما کی بھی یہی رائے ہے۔ صحابۂ کرام ؓکو بُرا بھلا کہنے کو دیگر علما ناجائز کہتے ہیں اور مولانا بھی اسے صراحتا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ پھر آخر مولانا مطعون کیوں؟ ایک جگہ مولانا نے لکھا ہے: ’’رہا اہلِ سنت کا عقیدہ جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں تو وہ صرف یہ ہے کہ صحابہؓ پر طعن کرنا اور ان کی مذمّت کرنا جائز نہیں ہے اور اس فعل کا ارتکاب خدا کے فضل سے میں نے کبھی اپنی کسی تحریر میں نہیں کیا ہے۔ دیگر تاریخی واقعات کو کسی علمی بحث میں بیان کرنا اہلِ سنت کے نزدیک کبھی ناجائز نہیں رہا ہے، نہ علمائے اہلِ سنت نے کبھی اس سے اجتناب کیا ہے۔‘‘(رسائل و مسائل،۱۰۹۱)

صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات عموماً ان کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ کے حوالے سے زیر بحث آئے ہیں۔ اس میں انھوں نے تاریخ ِ اسلام میں خلافت سے ملوکیت کی تبدیلی سے بحث کرتے ہوئے بعض صحابۂ کرامؓ، خاص طور پر حضرت معاویہ ؓ کے کچھ اقدامات پر نقد کیا ہے، لیکن یہاں بھی بات نقد سے آگے بڑھ کر اہانت تک ہرگز نہیں پہنچی ہے۔ مولانا نے ایک جگہ حضرت معاویہؓ کے بارے میں لکھا ہے:’’صحابی کی تعریف میں اگرچہ سلف میں اختلاف ہے، مگر حضرت معاویہؓ کو ہر تعریف کے لحاظ سے شرفِ صحابیت حاصل ہے۔ آپؓ کے بعض انفرادی افعال محلِّ نظر ہو سکتے ہیں، مگر بہ حیثیت مجموعی اسلام کے لیے آپؓ کی خدمات مسلّم اور ناقابل ِ انکار ہیں اور آپؓ کی مغفرت اور اجر یقینی امر ہے۔‘‘(خط بنام محمد سلیمان صاحب صدیقی ، مورخہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۴ء، بحوالہ مقامِ صحابہ،فروری، ۲۰۰۲، مکتبہ الحجاز ،پاکستان، ص ۱۶)

بہت پہلے مولانا مودودیؒ کی مختلف تصنیفات سے ان کی منتخب تحریروں کا ایک مجموعہ، جسے جناب عاصم نعمانی نے مرتب کیا تھا،ہندو پاک دونوں جگہوں سے شائع ہوا تھا، لیکن وہ بہت مختصر تھا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جناب مولانا محمد فیصل مدنی اور مفتی محمد اویس اسماعیل نے ایک زیادہ تفصیلی مجموعہ مرتّب کیا ہے۔ اس میں انھوں نے تفہیم القرآن کے علاوہ مولانا کی دیگر تصانیف سے بھی استفادہ کیا ہے۔اس مجموعہ کو انھوں نے تین ابواب کے تحت مرتّب کیا ہے: باب اوّل میں صحابۂ کرامؓ کے بارے میں فضائل و مناقب جمع کیے ہیں۔ باب دوم میں اصولی مباحث ہیں، جن میں معیارِ حق کا صحیح مفہوم، صحابہ کے ’عدول‘ ہونے کا مطلب،ان پر نقد کے حدود اوردیگر موضوعات آئے ہیں۔ باب سوم میں مولانا کی چند وہ تحریریں جمع کی گئی ہیں جن میں انھوں نے بعض صحابہؓ پر کیے جانے والے اعتراضات کا دفاع کیا ہے۔

امید ہے کہ یہ مجموعہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات کی درست تفہیم میں معاون ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فاضل مرتّبین کو اس خدمت کا اچھا بدلہ عطا فرمائے اور اجر سے نوازے۔ آمین،یا ربّ العالمین۔

You may also like

Leave a Comment