نئی دہلی : اردو اکادمی دہلی کے زیراہتما م سہ روزہ قومی سمینار بعنوان ’دکنی زبان و ادب:روایت اورمعاصر صورت حال‘ کے تیسرے دن کا پہلا اجلاس قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا،اس اجلاس کی صدارت پروفیسر سجاد شاہداور پروفیسرابوبکر عبادنے کی،اس اجلاس میں پروفیسرمعین الدین جینابڑے نے’ اورنگ آباد کی دبستانی حیثیت:تعارف و توضیح‘،پروفیسرخالد علوی نے’ولی اورریختہ گوئی:ادبی و تاریخی مباحث‘،جناب خورشید اکرم نے ’مثنوی پھول بن: معاصرفکشن نگار کے تاثرات‘ اورجناب مقصود دانش نے’مثنوی قطب مشتری کی فنی انفرادیت(پلاٹ کے حوالے سے)‘ کے عناوین پر اپنے مقالات پیش کیے۔صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابوبکرعباد نے کہاکہ تنقیدکاکام یہ ہے کہ جو چیز لکھی ہوئی ہے، اس پر بات کرے اوراس پر اپنی رائے قائم کرے،اس لیے کہ جو چیز شائع ہو چکی ہے وہ اب کسی کی پراپرٹی نہیں ہے بلکہ وہ اب عوام کے درمیان ہے اورتنقید نگار جس طرح چاہے اس پر تنقید کرسکتاہے۔انھو ں نے کہاکہ ولی پہلاشاعرہے جس کے یہاں قرآنی آیات اورالفاظ کا خوب صورت اورمعنی خیز استعمال ہوتاہے،اس کے یہاں منطق،فلسفہ اوردیگرعلوم کا ذکربھی وافر مقدار میں ملتاہے،اس کے علاوہ ان کے اشعار میں ہندوکردار بہت ملتے ہیںاوران کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں تل کا استعمال جابجا ملتاہے،تل کو تشبیہ اوراستعارے کے طور پر بھی انھوں نے استعمال کیاہے،اسی طرح کالے رنگ کا استعمال بھی وہ بکثرت کرتے ہیں،گنگاکے بجائے وہ جمنا کا استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ جمناکالی ہوتی ہے۔پروفیسر سجاد شاہد نے اپنی تقریرمیں چاروں پیش کردہ مقالات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ادب بہت اہم چیز ہے،اس کے بغیر نہ تو ہم ماضی کو سمجھ سکتے ہیں اورنہ ہی مستقبل کا صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں،جب تک ذہن اورمطالعہ وسیع نہیں ہوگاتب تک ادب اورتاریخ کو صحیح طور پر نہیں سمجھاجاسکتاہے۔انھوں نے دکنی زبان کی خصوصیت اورانفرادیت پر تفصیل سے بات کی، ہاشمی بیجاپوری کے کلام پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ان کی شاعری میں عورتوں کے زیور،رسوم و روایات اورتہواروں کاذکر بخوبی ملتاہے، ان کے کلام کو پڑھ کر اس زمانے کے حالات،رہن سہن اورکھان پان کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔شعراکے یہاں زبان تھوڑی مشکل ضرورتھی لیکن اس وقت کے صوفیانے آسان اورعام فہم زبان استعمال کی جس کی وجہ سے دکنی زبان عوامی زبا ن بن گئی۔
دکنی زبان وادب:روایت اورمعاصر صورت حال کا دوسرا اجلاس لنچ کے بعد شروع ہوا،اس اجلاس کی صدارت پروفیسراحمد محفوظ اورپروفیسر خالدعلوی نے کی ،اس اجلاس میں بھی پانچ مقالات پیش کیے گئے،ڈاکٹررئوف خیر نے’دکنی کے ادبی معرکے‘،پروفیسر ابوبکر عباد نے ’ہندوستانی فکروتمدن کا پہلاترجمان شاعرـ:قلی قطب شاہ‘،ڈاکٹرامان اللہ ایم بی نے ’تمل ناڈومیں دکنی زبان وادب:روایت و صورتحال‘،ڈاکٹر معیدرشیدی نے ’اردو شعراکے ابتدائی تذکروں میں دکنی شعراکا ذکر:تنقیدجائزہ‘ اورڈاکٹر عالیہ نے ’دکنی غزل ولی سے قبل‘ کے عناوین پر مقالات پیش کیے۔صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسراحمدمحفوظ نے کہاکہ اردواکادمی دہلی کا یہ سمینار بے حد کامیاب رہا،اردواکادمی دہلی نے اس اہم اورنادر موضوع کا انتخاب کیا اورملک کے مختلف گوشوں سے اہل علم و ادب کو مدعوکیا،دکنی زبان کی خدمات کا اعتراف اوراس کی اہمیت کو سمجھنے کا اس سمینارسے بہتر اورکوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔اس سمینار کے تعلق سے پہلے ہی مقالہ نگاروں کے لیے موضوعات مختص کردیے گئے تھے جس کا فائدہ یہ ہواکہ دکنی زبان کے حوالے سے بہت سے گوشوں سے ہماری واقفیت ہوئی اورتکرار سے بھی بچناممکن ہوسکا۔انھوں نے مزیدکہاکہ علاقائی تعصب کا اظہار میر کے زمانے سے شروع ہوااورشمالی ہند والے اس میں پیش پیش رہے،جس کا شکار دکن اور دکنی زبان خاص طورپر ہوئی،تذکروں کی اولین صورت بیاض کی ہوتی ہے اوربیاض خالص ذاتی چیز ہوتی ہے،اور ہر انسان اپنی پسندوناپسند کے حساب سے چیزوں اورناموں کا اندراج کرتاہے،لیکن ہم ادب کے امین ہیں چاہے وہ شمال کی شاعری ہو یاجنوب کی ،ہم پر لازم ہے کہ ہم بلاتعصب تمام طرح کی شاعری کامطالعہ کریں، اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوگا اورہم دوسرے علاقوں کے حالات اورادب سے واقف ہوسکیںگے۔پروفیسر خالد علوی نے پانچوں مقالات پر فرداًفرداًگفتگوکی،انھوں نے تقریرکرتے ہوئے کہاکہ انگریز نے ہندوستان والوں کو احساس کمتری میں مبتلاکردیاتھاکہ تم لوگوں کے پاس جو ادبی سرمایہ ہے وہ بالکل معمولی ہے جبکہ ہمارے پاس علم کا وافر ذخیرہ موجود ہے،لیکن آج جب ہم ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تواندازہ ہوتاہے کہ ہمارے پاس پہلے سے وہ چیزیں وجود ہیں جن کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ تمہارے یہاں نہیں ہے۔قاطع برہان پر گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ غالب کے پاس وہ علم موجو د نہیں تھاجو ایک لغت لکھنے والے کے لیے ضروری ہوتاہے،ولی کے متعلق انھوں نے کہاکہ ان میں خود اعتمادی بہت تھی،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے کے اکثر شعراکوچیلنج کیاہے۔
اس کے بعد متن خوانی کا سیشن منعقد ہوا، جس میں ڈاکٹراودھیش رانی باوا،پروفیسرمعین الدین جینابڑے ، جناب اسلم مرزا،ڈاکٹرسجاد شاہد اور ڈاکٹررئوف خیرنے دکنی متون کو اپنے خاص اندا ز میں پیش کیا،سامعین اس متن خوانی سے بے حد محظوظ ہوئے۔
اس کے بعد متصلاً اختتامی اجلاس منعقد ہواجس کی صدارت پروفیسرشگفتہ شاہین اورپروفیسرمعین الدین جینابڑے نے کی،اس اجلاس میں ڈاکٹراودھیش رانی باوا، پروفیسر شہاب الدین ثاقب،ڈاکٹررئوف خیر،جناب اسلم مرزا اورڈاکٹرمعیدرشیدی نے اپنے وقیع خیالات کا اظہار کیااوراس سمینار سے متعلق اپنے تاثرات پیش کیے،سب نے مشترکہ طور پر کہاکہ یہ سمینار بے حد کامیاب رہااوراس سمینارکی وجہ سے بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔شکریے کی رسم اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے اداکی۔
پہلے اجلاس کی نظامت ڈاکٹرجاوید حسن جبکہ دوسرے،تیسرے اوراختتا می اجلاس کی نظامت ڈاکٹرشاہنواز فیاض نے کی۔ پروفیسرخالدمحمود، پروفیسرغضنفر، پروفیسرتسنیم فاطمہ، رخشندہ روحی، ڈاکٹرنورالاسلام، ڈاکٹرعبدالباری، ڈاکٹر امیرحمزہ، مہرفاطمہ کے علاوہ تینوں یونیورسٹیز کے بہت سے طلبہ و طالبات اس سمینار میں شریک ہوئے۔