Home قومی خبریں ایم پی اردو اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ سہ روزہ "جشن اردو” وزیر ثقافت کے ذریعے انعامات و اسناد کی تقسیم اور مشہور کتھک فنکارہ شنجنی کلکرنی کے "رقصِ راس” کے ساتھ اختتام پذیر

ایم پی اردو اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ سہ روزہ "جشن اردو” وزیر ثقافت کے ذریعے انعامات و اسناد کی تقسیم اور مشہور کتھک فنکارہ شنجنی کلکرنی کے "رقصِ راس” کے ساتھ اختتام پذیر

by قندیل

بھوپال: مدھیہ پردیش اردو اکادمی سنسکرتی پریشد کے تحت تین روزہ "جشن اردو” کا اختتام عزت مآب وزیر برائے محکمہ ثقافت، سیاحت جناب دھرمیندر بھاؤ سنگھ لودھی کے ہاتھوں ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے مختلف مقابلوں کے فاتحین کو انعامات پیش کیے۔ ساتھ ہی جشن اردو کے والنٹیئرز کو بھی اسناد سے نوازا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا، یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اردو اکادمی کے ذریعے وسودھیو کٹمبکم کے نظریے کو لے کر یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ یقینی طور سے وسودھیو کٹمبکم کا جو نظریہ ہے وہ ہماری ہندوستانی ثقافت کی بنیاد ہے۔ اس نظریے کو لے کر جشن اردو کے پلیٹ فارم کے ذریعے یہ پروگرام منعقد کیا گیا اس کے لیے میں ایم پی اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس وقت ہندوستان اور پوری دنیا کو اس نظریے کی بہت ضرورت ہے۔

اس سے پہلے جشن اردو کے تیسرے اور آخری دن کا آغاز "اردو ادب اور وسودھیوکٹمبکم” کے موضوع پر منعقد مکالمے سے ہوا۔ اجلاس کے مہمان خصوصی مشہور ادیب اور ریاستی الیکشن کمیشن، مدھیہ پردیش کے کمشنر، جناب منوج سریواستو نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا جو موضوع ہے اس پر ادب کے حوالے سے بات ہونی چاہیے مذہب کے حوالے سے نہیں اور زبان و ادب کو مذہب کے دائروں میں باندھنا ٹھیک نہیں ۔ اردو ادب کے قدیم دور میں بھی اگر آپ دیکھیں تو کئی ایسے شعراء و ادبا مل جائیں گے جو غیر مسلم تھے لیکن انھوں نے تاعمر اردو کی خدمت کی۔ ادب اپنے آپ میں خود ایک روحانی احتیاج ہے۔

بھوپال کے سینیئر ادیب و محقق ڈاکٹر محمد نعمان خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان و ادب کی آفاقیت کا ایک سبب جہاں اس کا کلاسیکی اور روایتی ادب ہے وہیں مختلف ملکوں کی زبانوں کی جدید ادبی اصناف کی شمولیت اور ان کےتراجم بھی ہیں۔ جہاں اردو غزل اور بعض دیگر ادبی اصناف دیگر زبانوں میں تخلیق کی جا رہی ہیں وہیں سنسکرت، ہندی اور ہندوستان کی کئی علاقائی زبانوں کے علاوہ انگریزی، جاپانی ، ترکی ، چینی ، روسی، عربی ، فارسی ، فرانسیسی وغیرہ زبانوں کی بعض ادبی و شعری اصناف مثلاً ہائیکو، تن کا، رینگا کاتا اوتا ، ترائیلے ، چوکا ، سیڈوکا ، سین ریو، سانیٹ، دوہے، گیت، کنڈلیاں ، تری وینی، چو بولے، اندرسبھائیں وغیرہ کی تخلیق اردو زبان میں بھی ہو رہی ہے اور کئی عالمی اور علاقائی زبانوں کے ادبی شاہ کاروں اور کئی مذہبی صحائف کو اردو نثر و نظم میں منتقل کیا جا چکا ہے اور اردو زبان کے کئی ادب پاروں کا مذکورہ بالا زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

لکھنؤ سے آئے ڈاکٹر عباس رضا نیر نے "اردو شاعری میں” وسودھیوکٹمبکم” کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا،” وسودھیو کٹمبکم کا تصور عصبیت کو ختم کرتا ہے اور فیضان انسانیت کو عام کرتا ہے۔ یعنی یہ شخص میرا ہے اور یہ شخص میرا نہیں ہے کی تفریق صرف تنگ نظر یا جاہل لوگ کرتے ہیں ۔ جو لوگ اچھے اخلاق والے ہیں (یا جو مطلق سچائی کو جانتے ہیں ) ان کے لیے پوری دنیا ایک کنبہ ( ایک اکائی ) ہے۔”

وسودھیو کٹمبکم تین سنسکرت الفاظ ، وسودھا (زمین دنیا)، ایوا ( جیسے ) اور کٹمبکم ( بڑا وسیع کنبہ ) سے بنا ہے۔ یہ شلوک مہا اپنشد میں مذکور ہے۔ہماری اخلاقیات اور سماجی ثقافتی تانے بانے اس قابل فہم فقرے کے گرد بنے ہوئے ہیں اور ہماری دنیاوی حکمت ایسی بنیادوں سے گونجتی ہے، جن کا ہمارے رشیوں نے بہت فصاحت سے اظہار کیا ہے۔

اجلاس کے آغاز میں اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے کہا کہ "مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے ذریعے منعقد ‘جشن اردو’ وسودھیوکٹمبکم” کے احساس کو عملی شکل دینے کی کوشش تھی۔ اردو ادب نے ہمیشہ انسانیت کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ اس نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ سرحدیں اور امتیازات عارضی ہیں، اور پوری دنیا کو ایک خاندان کے طور پر دیکھنا ہی حقیقی فلسفہ ہے۔ اس سمت میں ہمیں مزید حکمت عملی تیار کرنی ہوگی اور اردو کے ذریعے "وسودھیوکٹمبکم” کے راستے کو ہموار کرنا ہوگا۔”

اس اجلاس کی نظامت مشہور شاعر اور مصنف ڈاکٹر محمد اعظم نے کی۔

دوسرے اجلاس میں سہ پہر تین بجے رنگ محلہ سوسائٹی فار پرفارمنگ آرٹس کی طرف سے "مرزا صاحب اور سنیما کا عشق” ایک منفرد پرفارمنس پیش کی گئی، جس کے ہدایت کار عدنان خان ہیں۔

اسی اجلاس میں اگلا پروگرام "بھارتیہ فلسفہ اور غالب” کے موضوع پر مرکوز تھا، جس میں مقررین تھے عزیز عرفان (اندور)، سلیم انصاری (جبلپور)، اور سریش پٹوا (بھوپال)۔

عزیز عرفان نے کہا کہ غالب کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں خصوصاً ان کے خطوط میں ہندوستانی فلسفہ نظر آتا ہے۔ نظریہء غالب ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔

سلیم انصاری نے کہا کہ اقبال کی طرح غالب کے یہاں بھی انسان اور انسانی تہذیب کا ایک مخصوص تصور موجود ہے جسے ان کی شاعری میں آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے اور جس کا اندازہ غالب کے اشعار کی رفعتوں سے کیا جا سکتا ہے ۔غالب کا انسان اپنی ذات میں عاشق،فلسفی، صوفی سب کچھ ہے ۔ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے سینے میں ایک دردمند دل رکھتا ہے ۔وہ معاشرے کی ایک ایسی اکائی ہے جو اپنی مٹی اور اپنی تہذیب سے محبت کرتا ہے ۔

اس اجلاس میں غالب کی زمین پر کہی گئی غزلیں بھی م پیش کی گئیں۔ جن شعرا نے غزلیں پیش کیں ان کے اسمائے گرامی اور اشعار درج ذیل ہیں ۔

شہر پر جانبازوں کے حملے سے پہلے سوچنا

یہ علاقہ مختلف یہ راجدھانی اور ہے

عابد کاظمی (بھوپال)

بے خیالی میں نہ جانے کیا کیا کہے جاتا ہوں میں

اور یہ دنیا سمجھتی ہے بڑا گیانی مجھے

منیش جین (گوالیار )

چھوڑ کر ہاتھوں سے دامن کوشش و تدبیر کا

لوگ رونا رو رہے ہیں بیٹھ کر تقدیر کا

ڈاکٹر احسان اعظمی

غم زندگی کے رتھ ہر نہ جو دل سوار ہوتا

فن شاعری کا غالب کہاں تاجدار ہوتا

پرویز اختر

عشق خوشبو ہے دونوں جہاں کے لیے

پھر انیتا یہ دائرہ کیا ہے

انیتا مکاتی دھار

اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر احسان اعظمی نے انجام دیے۔

آخری دن کے اختتامی اجلاس میں شنجنی کلکرنی نے "رقصِ رآس” پیش کیا۔ اس رقص کی تھیم تھی "صوفی رقص میں وحدت کا احساس”۔ اس کے تحت شنجنی کلکرنی اور ان کی ٹیم نے صوفیانہ کلام پر کتھک کی دلکش پیشکش دے کر حاضرین کو مسحور کردیا۔

آخر میں ممتاز خان نے تمام شرکاء اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا ۔

You may also like