Home سفرنامہ سفرنامۂ میوات-عبدالمالک بلندشہری

سفرنامۂ میوات-عبدالمالک بلندشہری

by قندیل

 

راقم کا گزشتہ ماہ میوات کا سفر ہوا یہ سفر دینی، تعلیمی اور سیاحتی نوعیت کا تھا جو زمانی اعتبار سے تین روز پر مشتمل تھا اور رقبہ کے اعتبار سے تقریبا میوات کے اکثر علاقوں بلکہ الور کی پہاڑیوں کو محیط تھا ۔ بعض حیثیتوں سے یہ سفر بڑا دلچسپ اور یادگار رہامختصر سے وقت میں مختلف مقامات کی سیاحت کی، قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوئے، قلعہ الور کی سیاحت کی، متعدد مدارس و خانقاہوں اور تاریخی عمارات کی زیارت کرنے کا موقع ملا اثنائے اسفار جامعہ صدیقیہ نوح میوات میں قیام رہا اس کے ذمہ دار اور متحرک عالم دین مولانا تعریف سلیم ندوی حفظہ اللہ ہمارے مخلص دوست اور نیک طبیعت نوجوان ہیں ۔ انھوں نے قیام و طعام کا بہترین نظم کیا اور ہر طرح کی سہولیات بہم پہنچانے کی کوشش کی پہلے دن میوات کے معروف عالم دین حضرت مولانا سعید امینی مالبی مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا عاجز نے سنا تھا کہ ان کے پاس عالی سند ہے اور وہ مولانا فضل اللہ جیلانی سے روایت کرتے ہیں اس سند میں ندویوں کے لیے بڑی کشش ہے کیونکہ فضل اللہ جیلانی بانیٔ ندوہ مولانا محمد علی مونگیری سے روایت کرتے ہیں ۔ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے سلام مصافحہ کے بعد تعارفی گفتگو ہوئی پھر ان سے حدیث پاک سنانے کی اجازت چاہی ان کے ایماء پر ایک دو حدیثیں پڑھیں پھر انھوں نے اجازت مکتوبہ عطا فرمائی اس سعادت پر بڑا رشک کیا آخر میں دعا دیتے وقت شیخ پر گریہ طاری ہوگیا ان کے دعائیہ کلمات اب تک حافظہ میں محفوظ ہیں ۔ اللہ پاک تمہیں حدیث پاک کی نشر و اشاعت اور تدریس کے لیے قبول فرمائے _وہاں سے رخصت ہوکر مولانا زبیر مفتاحی مدظلہ کی مسجد میں حاضر ہوئے اور عصر کی نماز ادا کی پھر ان کے حجرہ میں ان سے تفصیلی ملاقات رہی ۔ مولانا زبیر صاحب مولانا مفتی رشید احمد کے خلیفہ مجاز ہیں _طبیعت پر گریہ طاری رہتے ہیں زیادہ تر سلوک و احسان اور اصلاح نفس کے تعلق سے گفتگو رہی پھر اپنی چند کتابیں ہدیۃََ عنایت فرمائیں جو مواعظ اور دینی واقعات پر مشتمل ہیںاسی طرح مولانا شیر محمد امینی مدظلہ کے ادارہ میں بھی حاضری ہوئی ان کا ادارہ وسیع و عریض زمین پر مشتمل ہے ان کے ہمراہ ظہرانہ تناول کیا پھر انھوں نے بڑی محبت سے پورے ادارہ کا معائنہ کرایا مولانا شیر امینی صاحب فکر و نظر عالم ہیں، ان کے مقاصد بلند ہیں، وسائل بھی وافر مقدار میں موجود ہیں صرف قلت افراد کا مسئلہ ہے انھیں اگر باحوصلہ، سرگرم اور دیانت دار افراد کی ٹیم مل جائے تو وہ بہت کچھ کر گزریں گے ۔ اسی طرح امام النحو و الصرف مولانا زبیر صاحب مفتاحی مدظلہ سے بھی مختصر ملاقات رہی _وہ سفر پر روانہ ہونے کے لیے پابہ رکاب تھے ۔ مولانا زبیر مدظلہ میوات کے ممتاز علماء میں شمار کئے جاتے ہیںصرف و نحو ان کا اختصاص فن ہے اس سلسلہ میں انہیں مہارت تامہ حاصل ہے ملک کے بڑے بڑے اداروں کے مؤقر اساتذہ کرام کو تدریسی تربیت دینے کے لیے بھی آپ کو بلایا جاتا ہے _آپ کے والد ماجد مولانا نیاز محمد میواتی نور اللہ مرقدہ بھی میوات کے بڑے عالم، عربی زبان کے جید ادیب اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے اجل خلیفہ تھے. ان کی خدمت میں تھوڑی دیر حاضری رہی اور مدارس کے نصاب و طریقۂ تدریس کے تعلق سے گفتگو ہوئی! ان کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ مدارس کے طرز تعلیم میں تبدیلی ناگزیر ہے اور اس کے لیے اساتذہ کی تربیت بہت ضروری ہے اس سلسلہ میں انھوں نے کئی مثالوں کے ذریعہ اپنا موقف واضح کیا ان سے رخصت ہوکر ان کے بڑے بھائی مولانا خالد میواتی کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ بھی بڑی اپنائیت اور شفقت سے ملے بڑے اصرار کے ساتھ ناشتہ کی دعوت دی ہمیں اگرچہ بالکل اشتہاء نہیں تھی لیکن مولانا کی محبت اور اصرار پر ہتھیار ڈالنے پڑے مولانا نے بعض اہم باتیں بھی بیان کیں وہاں سے میانجی رمضان میواتی مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے دیدار سے شادکام ہوئےمجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ اس وقت میواتی بزرگوں میں سب سے اعلی نسبت کا حامل کون ہے تو میں بے اختیار میانجی رمضان کا نام لوں گا میانجی رمضان صرف میوات ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس وقت سب سے عظیم اور عالی نسبت کے حامل ہیں آپ تصوف و طریقت میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنی کے خلیفہ مجاز ہیں جو امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کے خلیفۂ اجل تھے _موجودہ دور میں پورے برصغیر میں اس نسبت کے معاملہ میں میانجی رمضان مدظلہ کو دیگر تمام مشایخ پر فوقیت حاصل ہے میانجی رمضان مدظلہ سے عاجز کا طالب علمی کے دور سے ہی تعلق ہے ندوۃ کے قیام کے زمانہ میں بھی ان سے دعاء کی درخواست کیا کرتا تھا یہ بالمشافہہ پہلی ملاقات تھی مل کر جی بڑا خوش ہوا.. وہ انتہائی سلجھے ہوئے باردار، متحرک اور عظیم انسان ہیں. عمر نوے برس سے متجاوز ہے اس کے باوجود چستی و پھرتی ایسی کہ جوانوں کو مات دے دیں..ان کو دیکھ کر شیخ الاسلام مدنی کی جدوجہد، قربانی، مخلوق پر شفقت اور اصول پر استقامت جیسے اعلی صفات یاد آگئیں.انھوں نے بڑے تپاک سے ہمارا استقبال کیا اور گھےور کے ذریعہ ہماری ضیافت کی. میانجی کی طبیعت صلح جو ہے وہ امت مسلمہ کے اختلاف و نزاع سے سخت کبیدہ خاطر ہیں اور اتحاد و توافق کے لیے سخت سعی فرمارہے ہیں ۔تبلیغی جماعت کے اختلاف کا ذکر چھڑ گیا میانجی کو بھی اس کا احساس تھا اور ان کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح تبلیغی کام اختلافات کی وجہ سے عوام کے لیے فتنہ نہ بنے اس سلسلہ میں انھوں نے اپنے شیخ و مرشد مولانا حسین مدنی اور مولانا الیاس کاندھلوی کے نصیحت آموز واقعات بھی سنائے… ان کی صحبت میں بیٹھ کر بے پناہ مسرت ہوئی. یہ شیخ الاسلام مدنی کے پہلے خلیفہ تھے جن سے راقم سطور کو نیاز حاصل ہوا تھا.. ان سے رخصت ہوکر مولانا مفتی عبد الشکور میواتی کے مدرسہ میں حاضر ہوئے وہ مظاہر علوم سہارنپور کے فارغ التحصیل اور علاقہ کے ممتاز عالم دین ہیں انتہائی سادہ بود و باش کے عادی ہیں عالمانہ طمطراق اور جبہ و دستار سے کوسوں دور ہیں انھوں نے اپنے دور طالب علمی کے واقعات سنائے پھر اس عاجز نے ان سے حدیث پاک کی اجازت کی درخواست کی ان کے سامنے تمام تمام رفقاء نے احادیث پڑھیں اور انھوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ خوبصورت کتابت کے ذریعہ ہمارا نام لکھ کر اجازت مکتوبہ عطا فرمائی. مولانا عبدالشكور مدظلہ تصوف و طریقت میں بھی اعلی سند کے حامل ہیں اس سلسلہ میں مولانا احترام الحسن کاندھلوی سے اجازت و خلافت حاصل ہے جو کہ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی کے خلیفہ تھے اور وہ مولانا الیاس کاندھلوی کے خلیفہ تھے.. یہ سند بانی تبلیغ مولانا الیاس کی نسبت کی وجہ سے بڑی اہم ہے. ان کے علاوہ مولانا افتخار الحسن کاندھلوی کے واسطہ سے حضرت رائے پوری کی نسبت بھی انہیں حاصل ہے. ان سے خصوصی دعاء لے کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں مولانا اسجد مدظلہ کا فون آیا وہ ہمارے منتظر تھے خیر بیس منٹ میں ہماری گاڑی دار العلوم میل کھیڑلا کی عالیشان عمارت میں داخل ہورہی تھی عصر کے بعد کا وقت چونکہ طلبہ کے کھیل کود کا ہوتا ہے اسی لیے طلبہ کی بڑی تعداد کھیل کود میں مشغول تھی.. مدرسہ کی لق و دق عمارت، وسیع اراضی، شاندار عمارتیں اور نظم ونسق دیکھ کر بے ساختہ دل نے گواہی دی کہ میل کھیڑلا ہی میوات کا دار العلوم دیوبند ہونے کا حقدار ہے . اور اس میں کوئی شبہ نہیں اس ادارہ کی کارکردگی اتنی عظیم رہی ہیں کہ میوات کی دینی اور اصلاحی تاریخ میں اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا. گاڑی سے اترتے ہی مولانا راشد مدظلہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور خود ہی استقبال کے لیے موجود ہوئے ان کی سادگی، اکرام ضیف، حلم و تدبر کی صفات نے بندہ کو بڑا متاثر کیا… ان کے ساتھ مغرب تک نشست رہی اور مدارس کے تعلق سے ملکی حالات پر گفتگو ہوئی خاص طور پر مدارس کو مین اسٹریم سے جوڑنے کے سلسلہ میں مفید باتیں ہوئیں راقم سطور کا اس سلسلہ میں ماننا یہ ہے کہہ مدارس کے طلبہ ذہانت و فطانت میں بہت فائق ہوتے ہیں بس ان کے ذمہ داروں کی تنگ نظری اور کم فہمی کی بناء پر ان کو قوم و ملت کے لیے کماحقہ مفید نہیں بنایا جاتا _اگر مدارس کے ذمہ داروں کی صحیح خطوط پر ذہن سازی کردی جائے تو اسی مدرسہ کی بنجر زمین سے ہری بھری کھیتی لہلہانے لگے _محبت و انسانیت، پریم اور ایثار، حب الوطنی اور توحید کی پختگی ہر چیز میسر آجائے گی شرط صرف میخانے کے پیر مغاں کو باظرف اور بے نظیر بننا پڑے گا _وہاں مولانا راشد مدظلہ کے بھائی مولانا پیر اسجد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی _ان دونوں بزرگوں سے مل کر اس عاجز کو بے پناہ مسرت ہوئی بالکل ایسا لگا گویا پرانا تعلق تھا جس کی ازسر نو تجدید ہوئی ہے اللہ پاک دونوں بھائیوں کو سلامت رکھے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے _اسی طرح شیخ الحدیث مولانا إسحق اٹاوڑی قدس سرہ کے مدرسہ بھی جانا ہوا _ادارہ پہنچتے ہی راقم کے ذہن میں پچھلے سفر کی یاد تازہ ہوگئی…دو سال قبل اس علاقہ کا مختصر سفر ہوا تھا اور محدث جلیل مولانا إسحق اٹاوڑی قدس سرہ تلمیذ رشید مولانا کفایت اللہ دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان سے اجازت حدیث حاصل کرنے کی سعات میسر آئی تھی.. ان کی سادگی، للہیت، اور اوصاف حمیدہ کا قلب پر بڑا اثر پڑا تھا . جیسے ہی یہ طالب علم ان کے حضور حاضر ہوا وہ فورا اٹھ کر بیٹھ گئے بعد میں مجھے بتایا گیا کہ اکرام ضیف کے معاملہ میں ان کا یہ حال سب کے ساتھ ہے. ان سے سلسلۂ نسبت جڑنا میرے لیے سعادت کی بات ہے آج ان کے صاحبزادہ اور جانشین مولانا خالد صاحب مدظلہ سے ملاقات ہوئی انھوں نے ضیافت کا اہتمام کیا اور بعض اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی. خاص طور پر تصوف و سلوک کے سلسلہ کی بے اعتدالیاں اور عہد رواں کے مشایخ کی اخلاقی گرواٹ کا بڑی سوزمندی کے ساتھ تذکرہ کیا.. ان کی باتوں میں مشاہدہ و تجربہ کی گہرائی تھی اور اس خاکسار کو بھی بارہا اس کا کا تجربہ ہوچکا تھا _اسی طرح مولانا بشیر میواتی مدظلہ کے ہاں بھی حاضری ہوئی وہ حجۃ اللہ البالغہ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور انہیں فلسفۂ ولی اللہی سے خاص شغف ہے اس سلسلہ کی کچھ باتیں بیان کیں عروج و نزول اور قبض و بسط کی مختصر تشریح کی ان سے مل کر اچھا لگا انھوں نے دو تین کتابیں بھی ہدیہ کیں وہ صاحب ارشاد بزرگ ہیں اور مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری قدس سرہ کے خلیفہ مجاز ہیں _ان کے تعلق سے راقم کا تاثر یہ ہے کہ اتنا بڑا عالم اور حکمت اسلام کا ماہر گوشہ نشینی کی زندگی گزار کر اپنے اور اپنے متوسلین کے اوپر ظلم کررہا ہے انھیں تو کسی مرکزی ادارہ میں ہوکر علوم و معارف کا دریا بہانا چاہیے اور علماء کو فلسفۂ ولی اللہ سے روشناس کرانا چاہیے! آج طلبہ تو طلبہ خود علماء بھی ولی اللہ فلسفہ کی آگہی نہیں رکھتے _اسی طرح مولانا علاؤ الدین میواتی مدظلہ کے مدرسہ میں بھی مختصر سی حاضری ہوئی-ان سے راقم کا ٹیلیفونک رابطہ تھا آج بالمشافہ ملاقات ہوئی تو بہت اچھا لگا! انھوں نے ناشتہ کا انتظام کیا اور زیادہ تر تصوف کے موضوع پر گفتگو ہوئی _ان کو میانجی سفیدہ قدس سرہ ،مولانا احترام الحسن کاندھلوی قدس سرہ اور مولانا محمد کاندھلوی وغیرہ سے اجازت و خلافت ہے! ان کی عمر اسی پچاسی کے قریب ہے _ان سے دعاء لے کر بائک کے ذریعہ اگلے سفر پر روانہ ہوئے _ بعض سادہ لوح علماء اب بھی گدھے گھوڑے کے سفر کو سنت کہتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں صرف ثقافت و کلچر سے تعلق رکھتی ہے اب بائک چلانا بھی اسی زمرہ میں شامل ہے اور علماء و دیندار طبقہ اس کو خلاف وقارسمجھتا ہے _حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ اللہ کے نبی نے اپنی اہلیہ اماں عائشہ کے ساتھ گھڑ سواری کی ریس لگائی اور آپ جیت گئے اگلی دفعہ پھر ریس ہوئی اس دفعہ اماں عائشہ جیت گئیں _اس سے کئی نکات سامنے آتے ہیں کہ اہلیہ کے ساتھ ریس لگانا سنت نبوی ہے پہلے گھوڑے پر سوار ہوکر ریس لگائی جاتی تھی اب بائک پر سوار ہوکر ریس لگائی جاتی ہے علماء کو چاہیے خود بھی بائک چلانا سیکھیں اور اپنی اہلیہ کو بھی اسکوٹی چلانا سکھائیں اس کی کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے حالات نازک ہیں _خیر وہاں سے ہم میانجی پھول محمد میواتی دامت برکاتہم کے آستانے پر پہنچے. سادہ مٹی کا گھر اس میں ایک چھوٹا ساکمرہ اس میں پلنگ پر دراز ایک عظیم بزرگ جو کہ مولانا الیاس کاندھلوی کے مرید و تربیت یافتہ اور تبلیغی جماعت کے ابتدائی دور کے عظیم رکن ان کے چہرہ کی جھریاں ان کی زندگی کے آٹھ دہائیوں کی قربانیوں کی داستان سنا رہی تھیں راقم نے ایسا روشن، منور، شاداب چہرہ کم ہی دیکھا ہے. انتہائی شگفتہ و تروتازہ گلاب بھی ان کے چہرہ کی تابناکی کے آگے شرما جائے اور یہ نورانیت قلب اطہر اور ذہن زرخیز کی آئینہ دار ہے. انھوں نے کئی باتیں ارشاد فرمائیں فرمایا ایک عالم سارے عالم کے لیے ہوتا ہے. اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے آج علماء علاقہ، برادری، تنظیمی، ادارتی بندشوں میں پھنس کر آفاقی کام نہیں کرپارہے جس کی وجہ سے ان کا دائرۂ نفع انتہائی محدود ہے انہیں اسوہ نبی کو اپناتے ہوئے پھر سے عالمی بننا ہوگا تب ہی کام بنے گا _میوات کے اس ایک سو سات سالہ بزرگ کی زیارت کرکے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا، نیکی کی طرف رغبت بڑھی اور ان کا جیسا بننے کا عزم تازہ ہوا۔

 

 

 

میوات کے لوگ سادہ مزاج، پاک دل، نرم طبیعت اور ضد و اکھڑپن جیسی متضاد صفات کے جامع ہیں جسے چاہتے ہیں دل و جان سے چاہتے ہیں اور جس سے منھ پھیرتے ہیں اس کی نسلوں سے بھی تعلق ختم لیتے ہیں. مہمان نوازی، علماء کا احترام، اجنبیوں کی خاطر مدارات میں وہ اب بھی لائق رشک ہیں مجھے زندگی کا ایک بڑا حصہ میواتیوں کے درمیان رہنے کا موقع ملا ہے اور کئی میواتی اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل رہا ہے. قرآن پاک کے دور کے استاذ قاری عمران میواتی مدظلہ ڈھکلپور سے تعلق رکھتے ہیں انہیں کی بدولت مجھے قرآن پاک کا ذوق حاصل ہوا ان کے علاوہ مولانا نسیم احمد مفتاحی مدظلہ، ڈاکٹر عارف الیاس ندوی، مولانا مفتی عارف علمی چاندن ہولہ جیسے شفیق، باکردار اور میواتی خصوصیات کے آئینہ دار اساتذہ سے نسبت شاگردی حاصل ہے اور مجھے اپنے ان اساتذہ پر فخر ہے جنہوں نے مجھے بنانے، سنوارنے اور میری تربیت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

میوات کا یہ سفر بڑا یادگار رہا ،تاریخی علاقوں کے ساتھ مثالی شخصیات کی بھی زیارت ہوئی اور الور کے قلعہ میں بھی سیر و سیاحت کا شرف حاصل ہوا۔ میوات کے اس سفر سے میوات سے محبت بڑھ گئی ہے اب بار بار اس علاقہ میں جاکر ہیرے موتی تلاش کئے جائیں گے _خدا ہمارے اس سفر کو قبول فرمائے اور اس کی برکات نصیب فرمائے۔

You may also like

Leave a Comment