Home سفرنامہ سفر ممبئی کے کچھ یادگار نقوش ـ اظہارالحق قاسمی بستوی

سفر ممبئی کے کچھ یادگار نقوش ـ اظہارالحق قاسمی بستوی

by قندیل

(قسط:1)

ممبئی میری مادر علمی ہونے کے ساتھ ساتھ میری سسرال بھی ہے، پھر یہاں مقیم رشتہ داروں اور عزیزوں کی، نیز دوستوں اور ہم نواؤں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اسی مناسبت سے ہمارے مدرسے کی طرف سے دی گئی بارہ روزہ تعطیل سرما کے موقعے سے ممبئی حاضری ہوئی اور نو دن گزار کر تین جنوری کو وطن اور چھ تاریخ کو مدرسے واپس ہوچکا ہوں۔ ممبئی کے قیام کے یہ نو دن بہت سی محبتوں اور علمی و تجرباتی یادگاروں کو جامع ہیں۔ کچھ خاص یادگاریں اپنے اور اپنوں کے لیے پیش ہیں۔

( ممبئی میں پہلا دن)

سوشل ڈسٹینسگ کے ساتھ نماز ـ تجربہ واحساس:
آج 26/دسمبر ہے جو ممبئی حاضری کا میرا پہلا دن ہے۔ آج صبح سے کئی نمازیں ممبئی کی مختلف مساجد میں باجماعت ادا کرنے کا موقع ہوا اور ہر مسجد میں سوشل ڈسٹینسگ کے ساتھ نماز پڑھنے کا تجربہ بھی۔
اس سے قبل اپنے اقامتی شہر اٹاوہ اور وطن بستی میں اس طرح کا کوئی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح نماز پڑھنا بہت اٹ پٹا سا لگا اور لگ رہا ہے۔ زیادہ افسوس ناک کیفیت تو تب محسوس ہوئی جب دارالعلوم امدادیہ کی مسجد میں آج عشا کی نماز میں صفوں کی درستگی آزو بازو والوں کو نہ دیکھ، سامنے اور پیچھے والوں سے اپنی صف کی درستگی کرنی پڑی۔ اتفاق سے ہم امام صاحب کی مقابل صف جو آگے سے پیچھے کی طرف جا رہی تھی میں تھے چناں چہ امام صاحب کی کئی بار توجیہ و تنبیہ کے بعد ہم درست لائن میں کھڑے ہو پائے۔
حالات و انتظامیہ کی وجہ سے بڑے شہروں میں ایسا کرنا واقعتاً اہل مسجد کی مجبوری ہے جو باوجود خلافِ مزاجِ شریعت وسنت ہونے کے ضرورتاً درست ہے لیکن ہم چھوٹے شہروں اور گاووں کے رہنے والوں کو خدا کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اس سنت کو ادا کرنے اور کرتے رہنے کی مہلت دی۔
خدا وہ دن جلد لوٹائے جب لوگ پھر سے مل کر دربارِ خداوندی میں سر بسجود ہو سکیں اور خدا کو ہم سب پر پیار پیار آجائے!

(ممبئی میں دوسرا دن)

مہتممِ مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے ساتھ فیض یافتگانِ مدرسہ کی ایک دلچسپ نشست:

مشرقی یوپی کی عظیم دینی درس گاہ اور ہماری محبوب مادر علمی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی (سن تاسیس1973) کے مہتمم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب مظاہری (سن ولادت 1955عیسوی خلیفہ و جانشین مرشد امت حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ بانی مدرسہ) جنھیں سابق فضلاے ریاض العلوم ناظم صاحب سے جانتے اور پکارتے ہیں اس وقت ممبئی کے سفر پر ہیں۔ اسی مناسبت سے کل(27دسمبر کی) رات انھوں نے دھاراوی کی نور مسجد میں واقع مدرسے کے ذمے دار اور مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے فیض یافتہ مولانا معراج احمد صاحب جون پوری کے پاس قیام کیا۔ اسی مناسبت سے مولانا معراج صاحب نے گورینی کے کچھ فضلا کو ناظم صاحب کے ساتھ ناشتے پر مدعو کیا جن میں یہ راقم تحریر بھی تھا۔

ناشتے سے قبل:

فجر کی نماز کے تھوڑی دیر بعد ہم موصوف کی مسجد میں پہنچے تو وہاں ناظم صاحب پہلے سے ہی مفتی رضوان صاحب، مولانا معراج صاحب، مولانا عارف صاحب وغیرہ کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ ہم پہنچے تو مصافحہ کرتے ہوئے ناظم صاحب نے فرمایا کہ: اچھا! ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہم بے کار ہی یہاں بیٹھے ہیں لیکن ماشاءاللہ یہاں تو کافی لوگ ہیں۔ مصافحہ کے بعد میں وہاں موجود احباب کے ساتھ بیٹھ گیا۔
میرے آنے سے قبل حضرت ناظم صاحب مدرسہ ریاض العلوم کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے اپنے کچھ جوکھم بھرے واقعات سنا رہے تھے جنھیں میں پوری طرح سمجھ نہ سکا۔ جتنا سمجھا اس کا حاصل یہ تھا کہ کچھ گڈریے (بکریاں چرانے والے) ابتدا میں مدرسہ کی زمین پر قبضہ کرنا چاہ رہے تھے لیکن ناظم صاحب کی کم عمری کے باوجود ایک پختہ بات سے قبضہ کرنے والوں کے حوصلے پست ہوئے اور وہ لوگ دور جاکر آباد ہو گئے یا انھیں دور بسا دیا گیا۔
اسی سلسلۂ کلام میں ناظم صاحب نے کچھ اور بد نیتوں کے واقعات سناتے ہوئے فرمایا کہ: میری پوری زندگی (مدرسے کے حقوق کے لیے) لڑتے بھڑتے گزری ہے۔
اسی درمیان مولانا طہ جون پوری اور مولانا نسیم سدھارتھ نگری بھی آگئے۔ اپنے مدرسے کے فضلا کو دیکھ کر ناظم صاحب نہال ہو گئے اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔

میرا ایک سوال:

ناظم صاحب سے میں نے سوال کیا کہ: حضرت! مدرسے کے یہ جو حالات آپ بیان کر رہے تھے کیا کسی کتاب میں ان کو محفوظ کیا گیا ہے۔ انھوں نے جو جواب دیا وہ قابلِ توجہ اور حلیمی برادری کی آن کی بات ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ: "نہیں۔ جلدی جلدی سن لو۔ جو کچھ ہے وہ میں تمہیں بتا رہا ہوں۔” اے کاش کوئی شخص اس ضرورت کو محسوس کرتا اور اپنے قلم کو جنبش دے کر ریاض العلوم کی تاریخ کو پابند قلم و قرطاس کردیتا!

ایک لطیفہ:

ایک لطیفہ یہ ہے کہ ناظم صاحب اپنے خطابات میں بچپن سے پچپن کی مثال بہت دیتے ہیں۔ گفتگو کے درمیان تفریحاً ناظم صاحب کے اس محاورے کا ذکر آ نکلا۔ حضرت نے مانی کلاں کے ایک طالب علم کا قصہ سنایا کہ ایک دن وہ طالب علم میرے پاس آیا اور سنجیدہ ہوکر مجھ سے پوچھنے لگا کہ ناظم صاحب! آپ کی عمر بڑھتی نہیں ہے کیا؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ جیسے اوروں کی بڑھتی ہے ویسے ہی میری بھی بڑھ رہی ہے۔ اس نے کہا، ناظم صاحب! میں پانچ سال سے سن رہا ہوں، آپ فرماتے ہیں کہ "ہم بچپن سے پچپن میں آگئے”، پانچ سال پہلے بھی آپ یہی کہتے تھے اور پانچ سال بعد یہی کہہ رہے ہیں۔ سب لوگ ہنس پڑے۔

ریاض العلوم کی تاریخ کے ایک اہم واقعے کی طرف اشارہ:

دوران گفتگو ناظم صاحب نے حضرت بانی رح کے زمانے کے ایک اہم واقعے کی طرف اشارہ کیا جس سے ریاض العلوم کے بانی کے اخلاص اور ناظم صاحب کی انتظامی صلاحیت کے حوالے سے مزید بصیرت حاصل ہوئی۔ ناظم صاحب نے فرمایا کہ: دو لوگ ریاض العلوم میں ایسے تھے جو ریاض العلوم کا مزاج اور منہاج دونوں بدل کر رکھ دینا چاہتے تھے۔ وہ دونوں حضرات والد محترم کے قریب بھی تھے اور باہر کے لوگوں سے ان کے مراسم بھی تھے۔ وہ بحیثیت ناظم (در اصل موجودہ مہتمم اُس وقت حضرت بانی رح کی جگہ ناظم مدرسہ طے گئے تھے) میرے کام میں روڑے اٹکاتے اور مجھے پریشان کرتے اور والد محترم (مولانا عبدالحلیم صاحب رح) کا کان بھی بھرتے جس کی وجہ سے والد صاحب بسا اوقات مجھ سے ناراض رہتے۔ ایک دن میں نے جاکر والد صاحب سے عرض کیا کہ: میں اب مدرسے میں کام نہیں کروں گا کیوں کہ اس(نظامت) سے نہ مجھے کوئی دینی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نہ دنیاوی۔ دینی فائدہ کا حال یہ ہے کہ آپ جیسے بزرگ (والد محترم) مجھ سے ناراض رہتے ہیں اور دنیاوی فائدے کا حال یہ ہے کہ میرے باہر کے لوگوں (امیروں) سے بھی کوئی مراسم نہیں کہ مجھے کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔ جب کہ دوسرے لوگوں کے یہاں (جن میں سے بعض ناظم کے قریبی رشتے دار تھے) باہر کے بڑے لوگوں اور امیروں کی آمدو رفت رہتی ہے۔ اس لیے اب میں مدرسے میں کام نہیں کروں گا۔ چناں چہ چند روز کے بعد معمول کی شوری ہونی تھی تو اس میں میں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور مدرسہ جانا بند کردیا۔ استعفیٰ آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔
شوری نے استعفیٰ نامنظور کردیا لیکن تب بھی میری طبیعت آمادہ عمل نہ ہوئی۔ تیسرے دن شوری کے ایک موقر عالم نے مجھے بلاکر کہا کہ مولانا! میں نے تین دن میں سب پتہ کر لیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ آپ اپنا کام شروع کردیں۔ میں نے کہا کہ نہیں، میں نہیں کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا! آپ اپنی افادیت نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اپنی افادیت کو سمجھیے! میں نے کہا کہ میں کس لائق کہ میں اپنی افادیت سمجھوں؟ انھوں نے کہاکہ مولانا! اگر آپ اپنی افادیت نہیں سمجھنا چاہتے تو سن لیجیے کہ آپ اپنے اس ادارے کا مزاج اور منہاج بچا نہیں سکیں گے اور جو لوگ چالیں چل رہے ہیں وہ اس کا نظام و مزاج ہی نہیں نصاب بھی بدل کر رکھ دیں گے اس لیے آپ بات کو سمجھیے اور کام جاری رکھیے۔ غور و فکر کے بعد مجھے ان کی یہ بات سمجھ میں آئی اور پھر میں نے کام شروع کردیا۔

ناظم صاحب کی فکر مسلسل:

ناظم صاحب دوران گفتگو فرمانے لگے اور بار بار فرماتے رہے کہ اب تو مجھے بس یہی فکر ہے کہ اللہ تعالیٰ مدرسے کو کوئی بہتر متبادل دے دے تو میں اب دستبردار ہوکر گوشہء تنہائی اختیار کرلوں۔ ان دنوں مسلسل دم واپسیں کا خیال دامن گیر ہے۔ بتا رہے تھے کہ قبرستان حلیمی پہلے ہفتے میں ایک بار جاتا تھا لیکن اس لاک ڈاؤن میں تو روزانہ تین تین بار تک جاتا ہوں اور دیر تک وہاں وقت بِتاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ناظم صاحب کی عمر دراز فرمائے اور مدرسے کے لیے انھیں شاد و آباد رکھے۔

ریاض العلوم کی وجہ تسمیہ:

سلسلہ گفتگو میں ریاض العلوم کی وجہ تسمیہ کا ذکر آگیا تو ناظم نے تفصیل سے اس کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ مدرسے کے قیام کے بعد حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب (بانی رح) نے ریاض العلوم کے ہر مشکل وقت میں سینہ سپر رہنے والے اپنے شاگرد و داماد مولانا حافظ محمد عمر صاحب رح جو تاحیات حافظ عمر سے مشہور رہے سے فرمایا کہ اب مدرسہ قائم باقاعدہ ہو چکا ہے لہذا تعاون مدرسہ کے لیے رسید وغیرہ کا بند و بست کیا جانا چاہیے۔ اسی مناسبت سے یہ دونوں حضرات اور ایک دو اور لوگ جون پور شہر گئے۔
اٹالہ مسجد میں ظہر پڑھنے کے بعد حافظ عمر صاحب نے حضرت بانی رح سے کہا کہ: حضرت! ہم لوگوں نے مدرسے کا نام تو ابھی رکھا نہیں اور رسید بنوانے چلے آئے۔ تو حضرت نے فرمایا ہاں، بات تو درست ہے۔ پھر مختلف ناموں کے سامنے آنے کے بعد مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت! ضیاء العلوم مانی کلاں کی رسید جہاں چھپتی ہے وہیں سے ہم لوگ بھی چھپوا لیتے ہیں اور ضیاء العلوم کی رسید میں ہی صرف دو تبدیلیاں کروا دیں تو رسید آسانی سے چھپ جائے گی۔ پہلی تبدیلی یہ کہ ضیاء العلوم میں ضیاء کی جگہ ریاض کردیا جائے اور مانی کلاں کی جگہ گورینی کر دیا جائے، باقی ساری تفصیلات پن کوڈ وغیرہ دونوں کے ایک ہی ہیں اس لیے اس سے زیادہ ایڈیٹنگ کروانے میں یا کوئی اور نام رکھنے میں پریشانی ہوگی۔ ( کیوں کہ پرنٹنگ وغیرہ کے وسائل نہایت محدود ہونے کی وجہ سے اُس وقت یہ سارے کام نہایت مشکل ہوا کرتے تھے) خیر، جب رسید پرنٹ ہو کر آئی تو بالکل ضیاء العلوم کی رسید کے مثل تھی کیوں کہ بیک گراؤنڈ کلر کو تبدیل کروانا بھول گئے تھے۔
بعد ازاں مدرسے کے معاونین نے دست تعاون دراز کیا اور وہیں قریب کے رہنے والے ایک ریاض سیٹھ جو ممبئی میں مقیم تھے نے بھی مدرسے کا کھلے ہاتھوں تعاون کیا جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ ریاض العلوم نام ان کے نام پر رکھا گیا جو کہ سراسر غلط ہے۔

ناظم صاحب کا ایک اور معمول:

ناظم صاحب نے فرمایا کہ کل شام لوگوں نے اصرار کیا کہ حضرت! آپ اپنے ساتھ کچھ خدام لے لیا کریں تاکہ وہ دوا وغیرہ کی آپ کی خدمت انجام دے دیا کریں اور اپنا بیگ وغیرہ اٹھانے کی زحمت سے آپ بچ جائیں۔ یہ بات سن کر ہمارے ساتھیوں نے بھی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اصرار کیا تو حضرت نے فرمایا: "میں اپنی عادت خراب نہیں کرنا چاہتااور میری طبیعت اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتی اس لیے میں خادم وادم لینے والا نہیں۔”
میں یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ناظم صاحب ماشاءاللہ انتظام و انصرام مدرسہ کی وہبی صلاحیت سے متصف ہیں اور انھوں نے مدرسے کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ وہ ہمہ وقت حاضر باش مہتمم ہیں۔ مدرسے کے لیے دیگر علائق سے اور بطور خاص مہتممانہ ٹھاٹ باٹ سے خود کو کوسوں دور رکھ رکھا ہے۔ خدا انھیں صحت وعافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔

ناشتہ:

اس گفتگو کے دوران میزبان مولانا معراج صاحب نے دم دار ناشتہ لگوایا اور جملہ حاضرین نے ناشتہ کیا۔

ناشتے کے بعد:

ناشتے کے بعد ہم چار دوست مولوی رضوان اعظمی، مولوی طہ، مولوی نسیم سدھارتھی اور میں الگ کمرے میں بیٹھ گئے اور پھر ہم نے کچھ پرانی یادیں تازہ کیں، کچھ دلچسپ اور چٹخارے دار موضوعات بھی زیر گفتگو آئے اور سب نے خود کو شاداں و فرحاں کیا۔ اس درمیان ناظم صاحب کانپور کے کچھ احباب کے ساتھ ہم کلام رہے۔ وہ لوگ ناظم صاحب کو ظہرانہ دینا چاہ رہے تھے لیکن ناظم صاحب نے ظہرانہ سے منع کردیا اور بعد میں ہم لوگوں سے فرمایا کہ: اپنا کھانے پینے کا کوئی ذوق نہیں ہے اور عورتیں بے چاری جرمرکر پکاتی ہیں اور تھوڑا موڑا چکھنے سے ان کی محنت وصول نہیں ہوتی۔ بہرکیف انھوں نے بعد عصر کا چائیہ قبول فرما لیا اور ہم لوگوں کو ایک نصیحت کی۔

نصیحت:

ہوا یوں کہ مولوی عارف کو ناظم صاحب کچھ پیسے دینے لگے کہ جاؤ اور میری یہ دوا لے آؤ۔ مولوی عارف پیسے لینے سے منع کرنے لگے تو ناظم صاحب نے انھیں باصرار پیسے دیے اور ہم لوگوں سے کہنے لگے کہ میری ایک بات سنو۔ کوئی شخص چاہے وہ کتنا بڑا شیخ و حضرت ہو جب کوئی سامان لانے کے لیے پیسہ دے تو ہرگز منع نہ کرو اور پیسہ اس سے لے کر اس کا سامان لا دو ورنہ چند بار کے ایسے تجربے کے بعد اس سے تم کنِّی کاٹنے لگو گے اور تم ایسے لوگوں سے ٹوٹ جاؤ گے کیوں کہ ایسا بار بار کرنا تمہارے اوپر بار بل کہ بڑا بار ہوگا۔
بعد ازاں ناظم صاحب آرام کے لیے چلے گئے اور ہم رفقاء کی جس میں مذکورہ چاروں کے علاوہ مولوی جاوید اور میزبان مولوی معراج کی ایک اور بزم سجی جس میں خوب دلچسپ اور علمی موضوعات زیر گفتگو رہے۔ بارہ بجے کے قریب مجلس برخاست ہوئی اور احباب اپنی اپنی راہ نکل گئے۔
(جاری)

You may also like

Leave a Comment