Home تجزیہ صدر جمہوریہ مرمو کا خطاب!-شکیل رشید

صدر جمہوریہ مرمو کا خطاب!-شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)

پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا خطاب ، اگر کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن ملک ارجن کھڑگے کی زبان میں کہا جائے تو ’عوامی مسائل سے خالی تھا۔‘ صدر جمہوریہ نے نومنتخب اسپیکر اوم برلا کو مبارکباد دیتے ہوئے لوک سبھا کے انتخابی نتائج پر بحث کا ذکر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’ عوام نے مسلسل تیسری بار ایک مستحکم حکومت کو منتخب کیا ہے ۔‘ کیا صدر جمہوریہ کی یہ بات درست ہے ؟ بی جے پی اس بار نہ اپنے بل بوتے پر حکومت بناپائی ہے اور نہ ہی این ڈی اے کو اتنی سیٹیں ملی ہیں کہ وہ ’ مستحکم‘ ہونے کا دعویٰ کرسکے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت دوبیساکھیوں پر کھڑی ہونے پر مجبور ہے ۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے جس روز بھی بیساکھیاں کھینچیں اس روز مودی حکومت لڑکھڑا جائے گی ، اور پھر اسے ’توڑجوڑ‘ کی سیاست پر انحصار کرنا پڑے گا ۔ ایسی حکومت کو کسی بھی حال میں مستحکم نہیں کہا جاسکتا ۔ اور اس بار تو اپوزیشن انتہائی مضبوط ہے ، نہ صرف مضبوط بلکہ اس نے راہل گاندھی کی صورت میں اپنا ایک لیڈر بھی منتخب کرلیا ہے جو لوک سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے حکومت کے فیصلوں اور منصوبوں پر سوالات اٹھاسکتا ہے ۔ یعنی اس بار مودی سرکار جواب دہی سے مشکل سے ہی بچ پائے گی ۔ صدر جمہوریہ مرمو نےمستقبل کے سپنے دکھائے ہیں کہ ’میری حکومت ہندوستان کو تیسرے نمبر کی معیشت بنانے میں جٹی ہوئی ہے ۔‘ ہندوستان چاہے پہلے نمبر کی ہی معیشت کیوں نہ بن جائے جب تک عوام بھوکی ہے ، بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے ، تب تک بہتر سے بہتر معیشت کا ملک کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ۔ اگر ہندوستانی شہری بہتر حالت میں ہیں ، مہنگائی میں کمی ہورہی ہے اور بے روزگاروں کو روزگار مل رہا ہے ، تب یہ حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی حقدار ہے ، بصورت دیگر اسے یہ حق نہیں ہے ۔ صدر جمہوریہ کے خطاب میں ، جو دراصل مودی حکومت کا خطاب ہے ، نہ مہنگائی کا ذکر ہے ، نہ ہی بےروزگاری کا ۔ صدر جمہوریہ نے سی اے اے کو ایک ’کارنامہ‘ کے طور پر پیش کیا ہے ، جبکہ جگ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو اس ملک کے مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنادیتا ہے ۔ انہو ںنے دعویٰ کیا ہے کہ ’ نارتھ ایسٹ میں میری حکومت امن کے لیے کام کررہی ہے ۔‘ یہ دعویٰ کیا منی پور کے تشدد کے پیش نظر درست کہا جاسکتا ہے ؟ اپوزیشن نے اس دعوے پر باقاعدہ منی پور کا نام لے کر ایوان میں ہنگامہ کیا ۔ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے بھی انتخابی نتائج کے بعد منی پور کے حالات پر بی جے پی کو کٹگھڑے میں کھڑا کیا تھا ۔ ان کا سیدھا سوال تھا کہ منی پور میں اب تک حالات کیوں بہتر نہیں ہوئے ہیں؟ کاروبار اور سرکاری منصوبوں کی باتیں بھی صدر جمہوریہ کے خطاب میں تھیں ، اور یہ دعویٰ بھی تھا کہ سرکاری منصو بوں کا فائدہ عوام کو پہنچ رہا ہے ، لیکن اس حقیقت کا ذکر کہیں نہیں تھا کہ اقلیتوں کے لئے ،بالخصوص مسلم اقلیت کے لئے ، سرکاری منصوبوں کے تحت جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں ان کی بڑی رقمیں واپس چلی جاتی ہیں کیونکہ سرکاری اہلکاران کی طرف سے منصوبوں پر ایمانداری سے عمل نہیں کیا جاتا ۔ صدرجمہوریہ نے یہ تو کہا کہ ’ تفرقہ انگیز طاقتیں‘ جمہوریت کو کمزور کرنے اور ملک کے اندر اور باہر سے سماج میں تقسیم پیدا کرنے کی سازشیں کررہی ہیں ، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ’تفرقہ انگیز طاقتیں‘ کون سی ہیں ؟ کیا وہ انہیں ’ تفرقہ انگیز طاقتیں‘ نہیں مانتیں جو ہندوستانی مسلمانوں کو ’گھس پیٹھئے‘ کہتی ہیں ، جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے لیے دلتوں کا ریزرویشن ’چوری ‘ کیا جارہا ہے ، جو کہتی ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ؟ ایمرجنسی کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، پتا نہیں ! اسپیکر اوم برلا نے بھی ایمرجنسی کا ذکر کیا ۔ کیا یہ اپوزیشن کو للکارنے کی سعی ہے ؟ ویسے مودی حکومت شاید یہ فراموش کرگئی ہے کہ ان کی حکومت کے ان پانچ سالوں کو لوگ ’ اَن ڈیکلرڈ ایمرجنسی‘ قرار دیتے رہے ہیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like