( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی المناک موت نے سارے ایران کو ایک گہرے غم سے دوچار کر دیا ہے ۔ مرحوم ابراہیم رئیسی ایران کے ایک ایسے صدر تھے جنہیں یوروپ اور امریکہ سخت گیر کہتے تھے اور اسرائیل اپنا دشمن قرار دیتا تھا ۔ غزہ کے لیے لڑنے والی تنظیم حماس کے ساتھ ان کے تعلقات بھی عالمی برادری کو نہیں بھاتے تھے ۔ ابھی گزشتہ دنوں ابراہیم رئیسی کی قیادت ہی میں ایران نے اسرائیل پر ایک ڈرون حملہ کیا تھا ، اور یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جارحانہ کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ مرحوم صدر ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے ، بلکہ انہیں ایران کے روحانی پیشوا کا جانشین سمجھا جاتا تھا ۔ ابراہیم رئیسی ایرانی عوام میں مقبول تھے ، انہیں لوگ ایک ایسے لیڈر کے طور پر دیکھتے تھے جو ایران کو ہر طرح کے مشکل حالات سے باہر نکالنے کی ہمت ، جرات اور صلاحیت رکھتا تھا ۔ ایران نے اپنے رہنما کی موت کو ’ شہادت ‘ کہتے ہوئے یہ تاثر تو دیا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا حادثہ خراب موسم کے سبب ہوا ہے ، لیکن جو ایران کے حکام اور وہاں کی عوام کے مزاج سے واقف ہیں انہیں خوب اندازہ ہوگا کہ ایران اس ’ حادثے ‘ کی تفتیش میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا ۔ یہ سوال حکام کے ذہنوں میں گونج رہا ہوگا کہ یہ ہیلی کاپٹر واقعی حادثے کا شکار ہوا ہے ، یا اسے کسی گروپ نے یا کسی ملک نے نشانہ بنایا ہے یا کوئی ایسی سازش رچی گئی ہے جس میں کئی ممالک ملوث ہیں ؟ ایران کے سابق وزیرخارجہ جواد ظریف نے امریکہ پر الزام دھر دیا ہے کہ اس کے ذریعے ایران پر پابندیوں کے سبب یہ حادثہ ہوا ہے ۔ حالانکہ ابھی اسرائیل کی جانب کوئی انگلی نہیں اٹھی ہے ، لیکن اسرائیل کی جانب انگلی اٹھ سکتی ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اس حادثے میں وہ ملوث نہیں ہے ، لیکن ایران اور اسرائیل کے تعلقات اس قدر سخت کشیدہ ہیں کہ ایسی کوئی تردید کسی کے لیے بھی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے ۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ابراہیم رئیسی کی رحلت سے مشرق وسطیٰ کے حالات بگڑ سکتے ہیں ۔ خبر رساں ادارے ’ ایسوسی ایٹڈ پریس ‘ نے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ اس واقعے کی گونج مشرقِ وسطیٰ میں سنی جائے گی ۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کچھ پہلے جو جھڑپیں ہوئی تھیں وہ اس تلخی اور کشیدگی کا حصہ ہیں جو کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان کبھی خفیہ آپریشرشنز کی صورت میں تو کبھی سائبر حملوں کی صورت میں جاری ہے ۔ دونوں ہی ملکوں کے کئی اہم رہنما اور کمانڈر خفیہ آپریشنز میں مارے گیے ہیں ، جن میں قاسم سلیمانی کا نام شامل ہے ، جو ایران کے ایک کمانڈر تھے ، ایران نے ان کی موت کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا ۔ الزام ہے اسرائیل نے گزرے برسوں میں متعدد بار ایران کے سینئر عسکری حکام اور جوہری سائنس دانوں کو خفیہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا ہے ۔ تازہ کشیدگی کے بعد دونوں ہی طرف سے ، اور ان کے حلیفوں کی طرف سے باقاعدہ جنگ کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں ، اب ان دھمکیوں میں تیزی آنے کا خدشہ ہے ۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے خطے میں وہ دیگر اتحادی بھی تنازعات میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جو مسلسل غزہ کی جنگ کو وسعت دینے کی دھمکی دیتے رہے ہیں ۔ ’ ایسوسی ایٹڈ پریس ‘ نے اپنی رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ لبنان ، شام ، عراق ، یمن اور فلسطینی علاقوں میں ایران کے حمایت یافتہ کئی گروپ موجود ہیں جن کو ایران ، امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی میں ڈھال کے طور پر استعمال کر سکتا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری تناؤ کے ماحول میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے جیسا کوئی غیر معمولی واقعہ آئندہ غیر متوقع صورتِ حال کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ فی الحال اسرائیل کا ایک بڑا اور مضبوط اتحادی امریکہ ابھی تک ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جان بحق ہونے کی خبر پر خاموش ہے ۔ گزشتہ چند سالوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ اور ایران کے تعلقات میں اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے ۔ ٹرمپ کے دور میں ایران پر سخت پابندیاں عائد ہوئی تھیں ، جو ہنوز برقرار ہیں ۔ اتنا یقینی ہے کہ ابراہیم رئیسی کی رحلت کے عالمی سطح پر بھی اور علاقائی سطح پر بھی اور خود ایران کے اندر بھی منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اور لوگوں کا ذہن عرصہ تک اس سوال میں الجھا رہے گا کہ ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو واقعی حادثہ پیش آیا یہ یہ کوئی سازش تھی ؟