جمہوریت میں حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی درج کرانے کا سب سے مؤثر عو ذریعہ "عوامی احتجاج” سمجھا جاتا ہے۔کئی مرتبہ عوامی احتجاج کے سامنے سرکش سے سرکش حکومت بھی اپنا سر جھکا دیتی ہےاور عوام کے مطالبے کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔
مسلم پرسنل لاء اور اتحادی تنظیموں نے وقف بل ترمیم کے خلاف جمہوری دائرے میں رہتے ہوے، سڑکوں پر احتجاج کرنے اور حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی درج کرانے کا اعلان کیا ہے، وہیں جمعیت العلماء نے احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے سے منع کیا ہے۔ چوں کہ ایک عرصے سے ہمارا مزاج کچھ اسی انداز کا بناہوا ہے کہ ہمارے موقف کے مقابلے کوئی بھی دوسرا موقف "غداری وبزدلی” سے کم قرار نہیں پاتی؛ چناں چہ مولانا ارشد مدنی کے بیان کے بعدانھیں غداری وبزدلی کا طعنہ دینے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ خدا نخواستہ اگر موجودہ حکومت کانگریس کی ہوتی تب تو "حکومت کے ایجنٹ” بھی قرار پاتے۔
مسلم پرسنل لاء نے جو اعلان کیا ہے، اس کا بھرپور استقبال ہےاور میرے خیال میں نفع وضرر سے قطع نظر اجتماعیت کو برقرار رکھنا چاہیےاور مولانا ارشد مدنی کو گوکہ ان کا موقف کسی لڑائی کو سڑکوں پر لڑنے کےبجائے عدالتوں میں لڑنے کا ہے، ایسے وقت میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے؛ چوں کہ کسی بھی شخصیت کے موقف سے کہیں بڑھ کر اجتماعیت ہے؛ لیکن مولانا ارشد مدنی کا موقف خدا نخواستہ کسی بدنیتی یا ناتجربہ کاری کی بنیاد پر نہیں ہے۔ چوں کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ جس طرح کسانوں نے اپنے مظاہروں اور دھرنوں سے اپنی بات منوا لی، ہمارے مظاہروں کے آگے بھی حکومت ڈھیر ہوجائے گی۔ اس لیے جو کوئی اس کے خلاف موقف اختیار کرے، وہ مفاد ملت کے خلاف ہے۔
احتجاج اور مظاہرہ ہمارا جمہوری حق ہے؛ لیکن اس فسطائی حکومت میں جمہوریت بچی کہاں ہے؟ آئے دن ہمارے خلاف ہونے والے دوہرے رویوں کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا معاملہ وہی ہے جو دوسرے کمیونیٹی کا ہے تو آپ بڑے بھولے ہیں۔ کسانوں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ فلمی ستارے، سوشل ایکٹیوسٹ اور معروف چہرے پورے قوت کے ساتھ کھڑے تھے، اس کے باوجود انھیں خالصتان سے جوڑکر بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ آپ کے ساتھ شاہ رخ یا سلمان کھڑا ہوگا؟ آپ کے ساتھ راہل ، اکھلیش یا کیجریوال کھڑا ہوگا؟ شاہین باغ میں انتہائی منظم مظاہرہ ہم دیکھ چکے ہیں، اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ دہلی فساد میں مسلمانوں کے جو املاک تباہ ہوے سو ہوے، عمر خالد، خالد سیفی اور شرجیل جیسے ملت کے مفید ترین اثاثے اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ حال ہی میں سنبھل میں جو واقعہ رو نما ہوا، ان سے ہم باخبر ہیں۔ آپ کہیں گے کہ اس کا مطلب کیا ہے کہ ہم اسی طرح حکومت سے خوف کھاتے رہیں اور حکومت ہمارے خلاف قانون پر قانون بناتی رہے!؟
کسی بھی جنگ میں اسٹریٹجی سب سے اہم ہوتی ہے۔ حضرت الامام محمد قاسم النانوتوی اور دیگر اکابرین دیوبند نے 1857ء کا شاخسانہ دیکھا تھا۔ اس لیے اس کے بعد ایک اور جنگ کی تیاری کے بجائے اپنی اسٹریٹجی بدل لی اور دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں نفع سے زیادہ ضرر کی امید ہو؛ بلکہ نفع موہوم ہو، اسے چھوڑنا حکمت عملی کا تقاضہ ہے، یہ بزدلی نہیں ہے۔ آپ کے دھرنوں اور مظاہروں کے خلاف حکومت کا اسٹینڈ واضح ہے۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوں گی، کئیوں پر یو اے پی اے کا قانون لگے گا۔ مسلمانوں کے مکانات بلڈوز کیے جائیں گے۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم ہوں گے۔ ایسے میں حضرت مولانا کی نگاہ میں ضروری یہ ہے کہ اپنے حق کی وصولیابی کے لیے عدالت کی راہ اختیار کی جائے۔
عدالتوں نے کئی مواقع پر ہمارے حق میں انصاف کا خون کیا ہے، جس کی وجہ سے عدالتوں نے ہمارے درمیان اپنا اعتماد کھویا ہے؛ لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمیں جب بھی راحت ملی، عدالتی راستوں سے ہی راحت ملی ہےورنہ سیاسی پارٹیاں ہمہ وقت آپ کو ٹھینگا دکھانے کوتیار رہتی ہے۔ وقف ترمیمی بل کا بھی فیصلہ عدالت سے ہمارے حق میں آئے، اس کی امید 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہے؛ لیکن دھرنوں اور ریلیوں سے یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا، اس کی امید 5 فیصد بھی نہیں ہے۔ البتہ عدالتی راستے سے اگر خدا نخواستہ انصاف نہیں بھی ملا تو کم ازکم ملت اسلامیہ کے جوان ضرر سے محفوظ ہوں گے، جب کہ دھرنوں اور ریلیوں میں جو ضرر پہنچے گا وہ سب کے سامنے واضح ہے اور ہماری قوم کے جوان اس کے متحمل بالکل نہیں ہیں۔مولانا نے وضاحت دی ہے کہ مطلق احتجاج کے خلاف وہ بھی نہیں، بلکہ سڑکوں پر احتجاج کے خلاف ہیں، جس سے حکومت سے ٹکڑاؤ کی کیفیت پیدا ہو اور پھر حکومت اپنے طریقے پر ایکشن لے۔
جو لوگ بڑھ بڑھ کر لکھ رہے ہیں اور طعنے دے رہے ہیں، وہ دھرنوں کا انجام جانتے ہیں، ان سے پوچھیے کہ کیا وہ مسلم پرسنل لاء اور امارت شرعیہ کی کال پر دہلی اور پٹنہ کے معمولی دھرنوں میں بھی شریک ہوے تھے؟کیا آپ غیر میعادی مدت کے لیے سڑکوں پر بیٹھنے کو تیار ہیں؟ جذباتی نعرے پڑھنے اور سننے میں بڑے اچھے لگتے ہیں، کیا آپ کے پاس گرفتار ہونے والوں کی رہائی کا کوئی انتظام ہے؟ سنبھل میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد گوکہ جمعیت علماء کا موقف ہمیشہ سے سڑکوں پر احتجاج نہ کرنے کا ہے، ان جوانوں کا مقدمہ ان کے والدین لڑ رہے ہیں یا جمعیت العلماء لڑ رہی ہے۔
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ آپ ایک موقف کو اختیار کیجیے؛ لیکن بالکل ایسا نہیں کہ مسلم لیگ اور کانگریس کا مسئلہ بنادیجیے۔ اپنے موقف کا ایسا درست جانیے کہ دوسرے کو خارج از اسلام یا غدار وطن قرار دیجیے۔ اپنے موقف میں تھوڑی گنجائش ضرور رکھیے۔ ویسے میں ذاتی طور پر مسلم پرسنل لاء کے اعلان کو سپورٹ کرتا ہوں، وجہ شروع میں لکھ دی ہے کہ نفع وضرر سے قطع نظر اجتماعیت اصل چیز ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)