ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ ایسےہوتےہیں، جنہیں بالعموم سراہا یا ان کی شخصیت کا اعتراف کیا جاتاہے۔
صادق حسین کا شمار بھی انہی چنندہ معترف لوگوں میں ہے، تقریبا تین دہائیوں تک علاقائی سیاست پر راج کرنے والے جناب صادق حسین نے اپنی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی سے اس میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا اس طرح منوایا کہ سیاست ان کی شخصیت کا اٹوٹ حصہ بن گئی، جس کا اعتراف ہر خاص و عام کو ہے۔
ضلع سیتامڑھی کی مردم خیز بستی مولانگر آپ کی جائے پیدائش ہے، جہاں يكم جنوری 1948 کو صابر حسین کے گھر آپ نے آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل كى اور یہ تعلیمی سلسلہ انگریزی زبان میں گریجویشن کی ڈگری کے حصول تک جاری رہا ۔
آپ انتہائی مہذب، شریف، رحم دل، متانت و سنجیدگی کے پیکر اور حسن اخلاق کی دولت سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ کشادہ ظرف اور انسان دوست و انسانیت نواز تھے، اور ایسا لگتا کہ وہ اپنے انھیں صفات کے بموجب سیاست کو اپنا میدان عمل بنایا؛ چنانچہ خلق خدا کو ان سے خوب فائدہ ہوا، بطور سیاست داں انھوں نے لوگوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کی اور ان کے دکھ سکھ میں کام آئے۔
آپ کو اس وقت بطور مکھیا (پردھان) منتخب کیا گیا جب یہ عہدہ عوامی ووٹوں کا مرہون منت نہ تھا؛ بلکہ گاؤں اور علاقہ کے بااثر لوگوں کے ذریعے انتخاب عمل میں لایا جاتا تھا – بہار پنچائیت راج ایکٹ 1993 کے نفاذ کے بعد جب اس عہدے کو عوامی رائے دہندگان کی اکثریت کی حمایت پر موقوف کر دیا گیا، تب بھی 2006 تک آپ کو عوامی اعتماد و حمایت حاصل رہی، اس طرح آپ بطور مکھیا 1975 سے 2011 تک، یعنی 33 سالوں تک لوگوں کے دلوں پر حکومت کی ۔
اسی طرح آپ اوربھی بہت سی عوامی نمائندگی اورسماجی کاموں سے وابستہ رہے جیسے:
1989 تا 2019 جنتا دل اور اس کے بعد راجد کے بلاک صدر رہے ۔
1990 تا 2011 ٹیلی فون ایڈوائزری کمیٹی (Telephone Advisory Committee) اور ریلوے بورڈ گورکھپور زون (Railway Board Ghorakhpur Zone) کے رکن بھی رہے۔
بطور مکھیا طویل مدتی سیاسی وابستگی اور عوامی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ لفظ”مکھیا جی” آپ کے نام کا جز بن گیا، آج بھی یہ لفظ اگر بغیر سیاق و سباق کی بولا یا سنا جائے تو مراد آپ کی ہی ذات ہوتی ہے اورذہن میں انھیں کی تصویر ابھرتی ہے۔
سن رسیدگی کی وجہ سے گزشتہ کچھ سالوں سےکمزوری اور کئی طرح کے امراض سے دو چار تھے، وسط جولائی میں طبیعت زیادہ بگڑ گئی، تو پٹنہ کے آئی جی ایم ایس میں داخل کیا گیا، ہفتہ دس دن زیر علاج رہے؛ لیکن روبہ صحت نہ ہو سکے اور وقت موعود آن پہنچا؛ بدھ کے دن 26 جولائی 2023 کو راہ گرائے عالم جاودانی ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ طویل القامت اور خوش لباس و خوش اطوار تھے، سر پر ہمیشہ جناح ٹوپی ہوتی، اس طرح ہر جگہ نمایا دکھتے اور ہر محفل میں آپ کا سراپا لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتا۔
اپنی شفقت و محبت سے سب کو گرویدہ بنا لیتے تھے، علماء و صلحا اور شاعروں و ادیبوں کا بڑا احترام و اکرام کرتے تھے۔
جب تک آپ صحت مند رہے آپ کی قیام گاہ سیاسی افراد، سرکاری افسران اور دیگر واردین و صاردین کے لیے فرودگاہ اور فریادیوں کے لیے دادگاہ بنی رہتی۔ سماجی مسائل کے حل کرنے کو بڑی اہمیت دیتے تھے، بڑے سے بڑے تنازعات کو بات چیت اور فہمائش کے ذریعے حل اور تصفیہ کرنے پر یقین رکھتے تھے اور اپنی بے پناہ سوجھ بوجھ اور صواب رائے سے ہر طرح کے پیش آمدہ مسائل کو بحسن و خوبی حل کرنے کی کوشش کرتے ، اور کسی بھی معاملے میں غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرتے۔ غیر ضروری بحث و مباحثہ سے اجتناب کرتے تھے، دوستانہ رویہ، دوسروں کے لیے سچی فکر مندی اور مدد کے لیے ہمہ وقت آمادہ طبیعت نے آپ کو ایک محبوب و ممتاز شخص بنا دیا تھا۔
گاؤں کی غیر مزروعہ سرکاری زمین کو حکومتی کاز میں استعمال کرنا یا اپنے اختیارات اور افسران سے تعلقات کا استعمال کر کے ضرورت مند کے نام کروا دینا اور اس طرح کے دیگر بہت سے اقدامات اور ملی خدمات آپ کی شخصیت کو دوسرے لوگوں سے ممتاز بناتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے موافقین و مخالفین سب ہی آپ کا بڑا احترام کرتے تھے۔
گاؤں کی طرف جانے والے مرکزی راستے پر صدر دروازہ کی تعمیر، اس سے متصل پنچایت بھون (Village Council House ) ، پی سی سی سڑکیں، آبی جماؤ سے چھٹکارے کے لیے نالوں کا نظم اور عوامی جگہوں پر پینے کے پانی کے لیے ہینڈ پمپ جیسے بنیادی انفراسٹرکچر کا کام، جس کا اس وقت دہی علاقوں میں تصور محال تھا، اس بات کی دلیل تھی کہ گاؤں کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کو ہمیشہ ذاتی مفاد پر مقدم رکھتے تھے۔
گویا کہ آپ کی زندگی حقیقی قیادت، بےلوث خدمت، دیانتداری اور دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے گہری وابستگی سے عبارت ہے۔آپ کی خدمات اور برسوں کی قیادت نے مقامی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے، معاشرے کے لیے ان کی لگن اور کام کرنے کی صلاحیت نے سیاست دانوں کی نئی نسل کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دی ہے، اور آپ نے گاؤں کے سیاسی منظر نامے کی تشکیل و ترقی کے لیے نشان راہ چھوڑا ہے۔
اس ایک شخص میں پنہاں تھی خوبیاں کیا کیا
ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص!