Home ستاروں کےدرمیاں سادگیٔ ہنر کی سراپا تصویر: راشد طراز-پروفیسر مشتاق احمد

سادگیٔ ہنر کی سراپا تصویر: راشد طراز-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

راشد طراز (28؍ نومبر 1958ء۔4؍ مارچ 2025ء)حالیہ نصف صدی کے شعری افق کے ایک تابندہ ستارہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فکری جہات اور نظری ابعاد سے جہانِ ادب کے سنجیدہ قارئین اور انصاف پسند ناقدین کو اپنی شاعری کی طرف نہ صرف متوجہ کیا بلکہ اظہارِ خیال پر بھی مجبور کیا۔اگرچہ راشد ایک لا اُبالی مزاج شخص تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو برسوں تک دنیائے ادب سے روپوش رکھا۔ واضح ہو کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’کاسۂ شب‘‘ (2004ء)پروفیسر جابر حسین کی محبت کی وجہ سے شائع ہوا ورنہ وہ جس رفتار سے شعر کہتے تھے اگر ان کے مجموعہ مضامین شائع ہوتے رہتے تو شاید اردو شعر وادب میں ان کے لئے بہت پہلے ہی ایک مخصوص مقام متعین ہو جاتا ۔

بہر کیف! اب جب کہ راشد طراز ہمارے درمیان نہیں ہیں کہ اسی ماہ 4؍ مارچ 2025ء کو وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے لیکن کلیات ’’خاکِ منتظر‘‘ (2024ء) کے علاوہ ان کے نصف درجن مجموعہ کلام ان کے منفرد شعری لب ولہجے اور معنوی گہرائی وگیرائی ان کی شناخت کو مزید استحکام بخشیں گے کہ ان کی شاعری اس کی متقاضی ہے۔مجھے خوشی ہے کہ راشد طراز کے بیشتر مجموعہ کلام اور حالیہ شائع شدہ کلیات ’’خاک منتظر‘‘ پر میں نے تبصرہ کیا ہے اور ان تمام تبصروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ راشد طراز اپنے ہم عصروں میں موضوعی اور سادگیٔ ہنر دونوں اعتبار سے منفرد تخلیقی فنکار تھے۔ ان کے اندر دم توڑتی انسانیت کی چیخ وپکار ہی نہیں ہے بلکہ مداوائے زخم کی پکار بھی ہے۔وہ اپنے معاشرتی نظام کی سفاکیت اور اخلاقی قدروں کے بکھرتے شیرازوں پر ماتم کناں بھی ہیں اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جوخود اعتمادی کے جوہر ہیں وہ ایک تابناک مستقبل کے استعارے اور عظمتِ آدم کی آفاقیت کے ساتھ ساتھ نئی دنیا کی تلاش وجستجو کا پتہ دیتے ہیں۔

واضح ہو کہ ’’کاسۂ شب ‘‘ کے بعد ان کے شعری مجموعوں کی اشاعت قدرے تیز ہوئی اور ’’غبار آشنا‘‘(2010)،جہاں تک روشنی ہوگی (2016) ، صبحِ ازل( 2019)، گردشِ نا تمام(2022)، ستارہ شکستہ(2023) ، شہرِ منافق (2023) ، سرِ گراں (2024)۔ حال ہی میں کلیات ’’خاک منتظر‘‘ اور ’’سرِ گراں‘‘ مجھے ملی تھی اور حسبِ روایت ان کا تقاضہ شروع ہوا کہ میں جلد سے جلد ان دونوں کتابوں پر تبصرہ لکھوں۔اس تقاضے میں ہمیشہ کی طرح ایک جذباتی حکم بھی تھا کہ ’’بھائی ان دنوں بیمار چل رہا ہوں اس لئے تبصرہ جلد شائع بھی ہونا چاہئے‘‘۔لہذا میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں ’’خاکِ منتظر ‘‘ پر تبصرہ بھی کیا اور اسے ’’جہانِ اردو‘‘ اکتوبر تا دسمبر 2024کے شمارہ میں جگہ بھی دی۔اس کی اشاعت پر ہمیشہ کی طرح خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’’سرِگراں‘‘ پر تبصرہ کرنے کی گذارش بھی کی۔افسوس صد افسوس کہ میں سرِگراں پر ان کی زندگی میں تبصرہ نہیں کر سکا ۔ یہاں ’’خاکِ منتظر ‘‘ کا تبصرہ حاضر ہے ۔

جدید شعری منظر نامے پر راشد طراز ایک ستارۂ تابندہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔پیشِ نظر کتاب ’’خاکِ منتظر‘‘ کلیات ہے جس کے مرتبین ڈاکٹر محمد سلیم،عمر فرحت اورانعام الحق شبلی ہیں ۔ راشد طراز کے شعری مجموعے ’’کاسۂ شب، غبار آشنا، جہاں تک روشنی ہوگی، صبحِ ازل،گردشِ ایام،ستارہ شکستہ اور شہر منافق‘‘ اور ’’سر گراں‘‘ پہلے شائع ہو چکے ہیں اور علمی وادبی حلقے میں مقبول رہے ہیں۔ پیشِ نظر کلیات میں مرتبین نے ان کے بقیہ کلام کو بھی شامل کیا ہے اور دستاویزی حیثیت عطا کی ہے۔دو دہائی پہلے پروفیسر جابر حسین نے راشد طراز کے مجموعہ کلام ’’کاسۂ شب‘‘ میں ’’چند باتیں‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا کہ :

’’میں راشد طراز کی ادبی صلاحیتوں سے واقف ہوں ۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اردو کے معیاری رسالوں میں پڑھتا رہاہوں۔ اردو نامہ کے صفحات میں بھی ان کی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں ۔ ’’کاسۂ شب‘‘ میں راشد طراز کی غزلوں سے گذرتے ہوئے ان کی شاعری کی بعض بے حد خوشگوار جہتوں سے میری آشنائی ہوئی ہے ۔ بعض ایسی خوشگوار جہتیں جو خود میری یادداشت کے کسی گوشے میں ایک دبی ہوئی آواز کی طرح نہ معلوم کتنی مدت سے محفوظ رہی ہیں ‘‘(ص:12)

بلا شبہ کسی بھی شاعر کی شناخت کا ضامن ان کا شعر ہی ہوتا ہے اور جو اشعار سامعین اور قارئین کے ذہن میں محفوظ ہونے کی قوت رکھتے ہیں تو پھر وہ ابدیت حاصل کر لیتے ہیں۔اس لئے اردو غزلیہ شاعری کے ہزار وں شاعروں کے لاکھوں اشعار ہیں مگر ایسے اشعار کی تعداد ہمیشہ قابلِ شمار رہی ہے کہ جو قارئین وسامعین کے ذہن ودل میں اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب رہے ہوں ۔ راشد طراز ایک خوش قسمت فنکار ہیں کہ عہد حاضر میں ان کے بہتیرے اشعار زبا ن زد خاص وعام ہیں۔’’خاکِ منتظر ‘‘ کے مطالعے سے راشد طراز شناسی کا آغاز ہواہے ۔ مجھے یقین ہے کہ راشد طراز کی شاعری کے دلدادہ قارئین کا دائرہ وسیع ہوگا اور ان کی فکر انگیز شاعری ناقدینِ ادب کو بھی متوجہ کرے گی۔ بقول پروفیسر علیم اللہ حالی:

’’راشدطراز کی شاعری مجموعی طورسے کئی تاثرات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ان کے یہاں احتجاج ہے جو ان کے تہہ نشیں جذبے سے جگہ جگہ مترشح ہوتا ہے ۔ ایک مفکرانہ کیفیت ہے جو اختلاف وانقلاب کے خارجی جواہر کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ایک تہہ نشیں کیفیت ہے جو ما بعد الطبعیاتی رجحان کا پتہ دیتی ہے ۔کہیں کہیں یوگ اور تیاگ کی فضا بنتی ہوئی نظر آتی ہے اس طرح ان کی شاعری ایک مخصوص قسم کی غیر مادی فضا پیدا کرتی ہے اور زمین کے مسائل کو مساوی احساسات کے توسط سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے‘‘ (خاکِ منتظر۔فلیپ)

چند اشعار ملاحظہ کیجئے تاکہ آپ قارئین بھی بہ آسانی یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ راشد طراز کی شاعری کس قدر معنوی اعتبار سے تہہ دار ہے اور عصری حسّیت کی آئینہ دار ہے ؎

صحرائے انتظار میں کوئی نہ گل کھلا یوں بھی ترے فراق کا منظر گذر گیا

٭

منتظر آئینہ خانے ہیں نہ جانے کس کے شہرِ تمثال میں اب کوئی چہرہ بھی نہیں

٭

راشد جو سادگی کے سراپا مثال تھے مجلس میں تیری بیٹھ کے عیّار ہوگئے

٭

کچھ ہے جو مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا دن رات کا یہ کھیل اس اسرار میں کیا ہے

٭

صدائے خانۂ زنجیر ہے صدا میری یہی بہت ہے خودی کو اصیل جانتا ہوں

٭

مقتل پہ چھا رہا تھا حجابِ شکستگی اب اس میں میرے شوقِ شہادت کا جوش ہے

٭

اس یقین سے لوٹا ہوں کوئے قاتل میں کسی گلی سے کوئی آشنا نکل آئے

٭

صداقت کے منافی ہیں سبھی ظالم کے حامی ہیں ستم پیشوں کا دنیا میں سہارا کون بنتا ہے

خون دے کر بھی انہیں کیسے بچایا جاتا جن چراغوں کا مقدر تھا دھواں ہو جانا

٭

یہ کیسی آگ ہمارے لہو میں شامل ہے کہ جس کا نور تری جستجو میں شامل ہے

٭

مسائل رقص نہیں پائوں میں زنجیر نہیں پھر بھی زنداں ہے کہ وحشت سے مجھے دیکھتا ہے

٭

سفینہ لے کے کنارے تک آگیا ہوں خدا ترے خیال کو میں بادبان کرتے ہوئے

٭

سنو طرازؔ یہ سچ کیوں نہیں بتاتے تم کہ تم سیاہ تھے دیدار سے یہاں پہلے

٭

شکست کھائی تھی تنہائیوں سے ظلمت بھی برائے روشنی سینے کا داغ جلتا تھا

٭

لگتا ہے چاروں سمت ہی عہدِ صلیب ہے یہ وقت ہے یا دار پہ ابھرا نصیب ہے

مذکورہ اشعار راشد طراز کی تخلیقی صلاحیت اردو زبان، شعری فنّی تقاضوں اور شعری محاوروں پر قدرت کے آئینہ دار ہیں اور غزلیہ شاعری میں نئے تجربے کے عکاس بھی ہیں ۔انہوں نے پیش پا افتادہ مضامین کو بھی معنوی اعتبار سے زندگیٔ نو بخش دی ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری کی صرف فضا تبدیل نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک نئی کائنات تخلیق ہوگئی ہے۔میرے خیال میں راشد طراز کی شاعری پر ایماندارانہ انتقادی مذاکرے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بڑے شاعر کی بڑی شاعری سے جہانِ ادب روشناس ہو سکے اور بالخصوص غزلیہ شاعری کی شناخت مزید مستحکم ہو سکے۔

You may also like