Home ستاروں کےدرمیاں سدا بہار پروفیسر اختر الواسع(خاکہ)-پروفیسرابن کنول

سدا بہار پروفیسر اختر الواسع(خاکہ)-پروفیسرابن کنول

by قندیل

اکثر لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں علی گڑھ سے نہیں نکل پاتا، لیکن کیا کیا جائے، علی گڑھ جگہ ہی ایسی ہے، جو کچھ عرصہ وہاں رہ لیتا ہے، علی گڑھ اس میں بس جاتا ہے، نہ وہ تمام زندگی علی گڑھ سے نکل پاتا ہے اور نہ علی گڑھ اس کے اندر سے نکلتا ہے۔ علی گڑھ نے شخصیات بھی تو دنیا کو ایسی دے دی ہیں جو ہر شعبۂ حیات میں کارہائے نمایاں انجام دے کر علی گڑھ کا نام روشن کررہی ہیں۔ بہت سے حاسد تو اسی باعث حسد کی آگ میں جھلس کر راکھ ہورہے ہیں۔ بیسویں صدی عیسوی کی ساتویں دہائی میں جب ہم سن بلوغیت کو بھی نہیں پہنچے تھے، علی گڑھ پہنچ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھاجب وائس چانسلر علی یاور جنگ کو بے آبرو کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے رخصت کیا گیا تھا۔ ساتویں اور آٹھویں دہائیاں علی گڑھ کی تاریخ میں ادبی اور سیاسی اعتبار سے بہت اہم دہائیاں گزری ہیں۔ آٹھویں دہائی میں ہمارے علاوہ کئی نامور اردو کے افسانہ نگار سامنے آئے۔ اسی دہائی میں طالب علموں میں بعض ایسے سیاست داں پیدا ہوئے جنھوں نے قومی سطح پر اپنی شناخت قائم کی۔ ان میں محمد اعظم خاں، عارف محمد خاں، جاوید حبیب، وسیم احمد اور اختر الواسع۔ ان افراد نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ بالغ ہوکر جب ہم منٹو سرکل سے یونیورسٹی میں آگئے تو باقاعدہ یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک حویلی کی طرح ہے سب ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اختر الواسع آٹھویں دہائی کی سیاست میں بہت سرگرم تھے۔ عموماً دینیات کے طلبا سیاسیات سے دور رہتے ہیں، لیکن اخترالواسع کی دینیات داڑھی تک ہی محدود تھی۔ خدا جانے وہ دینیات یا اسلامیات میں شوقیہ آئے یا مجبوراً۔ کبھی کبھی بعض مضامین طلبا کو مجبوراً بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں، کیونکہ خواہش کے مطابق مضامین میں داخلہ نہیں مل پاتا۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، کبھی اردو کا استاد بننے کے بارے میں نہ ہم نے اور نہ ہمارے گھر والوں نے سوچا تھا، لیکن پری یونیورسٹی (PUC) میں نمبر ایسے آئے کہ اردو ہی میں داخلہ مل سکتا تھا، لیکن ہم نے اردو کے ساتھ وفاداری نبھائی، بلکہ آج تک نبھا رہے ہیں۔ اختر الواسع کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا، ورنہ کون ماں باپ اپنے سب سے بڑے بیٹے کو دینیات میں ڈال کر مولوی بنانے کی خواہش کرے گا۔ اختر الواسع کے والد مرحوم حیرت بن واحد تو اردو کے کہنہ مشق شاعر تھے۔ اُن کی تو خواہش ہوگی کہ اگر لڑکا ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا توکسی قابل عزت مضمون کا پروفیسر ہی بن جائے۔
پروفیسر اختر الواسع خالص علی گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ علی گڑھ ہر قدیم شہر کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہے۔ دونوں کے درمیان کٹھ پلایا ریلوے لائن سرحد کا کام کرتی ہے۔ ایک طرف پرانا شہر ہے اور دوسری طرف مسلم یونیورسٹی یا سول لائنس ہے۔ دونوں کے درمیان نئی دہلی اور پرانی دہلی یا جمنا پار کی دہلی کی طرح امتیاز برتا جاتا ہے۔ اختر الواسع کا تعلق علی گڑھ کے اوپر کوٹ کے محلہ عثمان پاڑہ سے ہے۔ اوپر کوٹ کچھ بلندی پر آباد ہے۔ عموماً پرانے زمانے میں شہر بلندی پر آباد کیے جاتے تھے تاکہ کوتاہ قد والے بھی دور سے آنے والے کو بآسانی دیکھ لیں۔ دہلی سے قریب ہونے کے سبب سلاطین کی بھی علی گڑھ پر نظر تھی۔ یہاں سلطان قطب الدین ایبک نے حسام الدین البک نامی شخص کو گورنر مقرر کیا تھا۔ ابراہیم لودھی کے زمانے میں یہاں قلعہ تعمیر کیا گیا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں ثابت خاں نے یہاں موجودہ جامع مسجد بنائی، جس میں بہت زیادہ سونا لگا ہوا ہے۔ ابن بطوطہ نے بھی اس شہر کا ذکر اپنے سفرنامہ میں کیا ہے۔ اس کا قدیم نام کول ہے۔ اٹھارہویں صدی میں نجف خاں نے حضرت علی ؓسے عقیدت کے سبب علی گڑھ نام دیا۔ اس شہر کی فصیل کے بھی مختلف شہروں کے نام سے دروازے تھے۔ پروفیسر اختر الواسع کی رہائش گاہ دہلی گیٹ کے قریب تھی۔ محلہ بنی اسرائیل بھی اُن کے قریب تھا، شاید بنی اسرائیل کے باشندگان کو اسلامی تعلیم دینے کی غرض سے پروفیسر اختر الواسع نے دینیات کی تعلیم حاصل کی۔

 

 

اختر الواسع سے ہماری واقفیت اس وقت ہوئی جب وہ طلباء یونین میں سرگرم ہوئے۔ ان کے والد سے ہم پہلے سے واقف تھے۔ دراصل ان کے والد مرحوم حیرت بن واحد اور ہمارے والد مرحوم کنول ڈبائیوی ایک ہی استاد علامہ ابراحسنی گنوری کے شاگرد تھے۔ استاد بھائی ہونے کے سبب دونوں میں برادرانہ رشتہ تھے۔ ہم بھی شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے۔ حیرت صاحب کی ملازمت بھی یونیورسٹی میں ہی تھی۔ گھر کا ماحول شاعرانہ اور ادبی ہونے کے سبب اختر الواسع کو اردو زبان پر خاص قدرت حاصل تھی۔ ابتدائی تعلیم محلے کے ایک اسکول میں مکمل کرکے چھٹی جماعت میں یونیورسٹی کے سٹی اسکول میں آگئے۔ سٹی اسکول یونیورسٹی کیمپس سے الگ نمائش گراؤنڈ کے پاس ہے۔ ہم بھی چھٹی جماعت ہی میں یونیورسٹی کے دوسرے اسکول منٹو سرکل میں داخل ہوئے تھے۔ یونیورسٹی اسکول کے بچوں کی اپنی ذہانت اور شرارت کی وجہ سے کیمپس میں کافی شہرت رہتی تھی۔ اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی کی حدود میں پہنچنے تک اختر الواسع کی پرواز میں بلندی اور مزاج میں شاہینی صفات نمودار ہونے لگی تھیں۔ اس زمانے میں طلبا کی اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے جدوجہد شباب پر تھی۔ یہ بھی ایک سرگرم مجاہد بن گئے۔ آواز میں قوت، زبان پر قدرت اور خطابت میں مہارت کے سبب بہت جلد طلبا کے لیڈر بن گئے۔ جس زمانے میں یہ طلباء یونین کے جنرل سکریٹری بنے، طلباء یونین کے صدر کیرالہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خاں تھے۔ آٹھویں دہائی میں یونیورسٹی کی سیاست میں چند اہم ناموں میں سے ایک نام اختر الواسع کا بھی ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ والدین جنھیں اولاد کی وجہ سے بھی عزت ملتی ہے۔ اختر الواسع کے والد اکثر طلباء سے کہتے تھے کہ اختر الواسع میرا بیٹا ہے۔

 

اختر الواسع نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں اسلامیات اور دینیات میں حاصل کیں۔ مذکورہ مضامین کو اختیار کرنے کے بعد کچھ تہذیبی، سماجی اور اخلاقی تقاضے بھی ہوتے ہیں، جیسے حافظ اور امام کے لیے داڑھی چہرے کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح دینیات اور اسلامیات کا لحاظ رکھتے ہوئے اختر الواسع نے داڑھی جیسی سنت پر عمل کیا۔ اگرچہ چہرے پر داڑھی کے قابض ہونے کے بعد صنف نازک کی توجہ اس طرف کم ہوجاتی ہے، لوگ شرفاء میں شمار کرنے لگتے ہیں۔ داڑھی شرافت کی سند سمجھی جانے لگتی ہے، جبکہ صاحب داڑھی کے باطن کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔ دہلی آنے تک اختر الواسع کے چہرے پر کافی سیاہ گھنی داڑھی تھی، لیکن جیسے جیسے درجات بلند ہوتے گئے وہ مختصر ہوتی چلی گئی۔ اب برائے نام رہ گئی ہے۔ یہی حال ڈاکٹر ذاکر حسین کا ہوا تھا، جب تک علی گڑھ اور جامعہ ملیہ سے وابستہ رہے، قابل ذکر اور قابل دید داڑھی چہرہ کی زینت بنی رہی، لیکن راشٹرپتی بھون پہنچنے تک اس کی حیثیت علامتی رہ گئی۔ فی الوقت پروفیسر اختر الواسع کے چہرے پر بھی ماہر اسلامیات اور دینیات ہونے کے سبب علامتی داڑھی موجود ہے۔ عربوں کے پاس بھی جب تک دولت نہیں تھی، بڑی بڑی داڑھیاں تھیں، لیکن دولت آتے ہی برائے نام رہ گئیں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ سنت پر عمل نہیں ہورہا۔ دکھائی دے یا نہ دے، کہی تو داڑھی ہی جائے گی۔ اللہ نیت دیکھتا ہے، داڑھی کی لمبائی چوڑائی نہیں۔
علی گڑھ میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں جو طالب علم طلباء یونین سے وابستہ تھے، وہ کسی نہ کسی بڑے مرتبے پر پہنچے۔ پروفیسر اختر الواسع کے درجات کی بلندی سب کو معلوم ہے۔ عارف محمد خاں، محمد اعظم خاں، جاوید حبیب اور زیڈ کے فیضان کے مراتب سے بھی سبھی واقف ہیں۔ اس دہائی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹر عبدالعلیم اور پروفیسر علی محمد خسرو فعال اور مستقل وائس چانسلر رہے۔ جزووقتی تو نظام سقّہ کی طرح تقریباً آدھا درجن پروفیسر وائس چانسلر رہے جو اب اپنے نام کے ساتھ سابق وائس چانسلر لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اختر الواسع کی سیاسی زندگی کا آغاز ڈاکٹر عبدالعلیم کے عہد میں ہوا اور پروفیسر خسرو کے زمانے میں عروج پر پہنچا۔ خسرو صاحب ماہر اقتصادیات کے علاوہ فنون لطیفہ کے بھی دلدادہ تھے۔ تدریسی اور غیر تدریسی طبقہ کے علاوہ طلباء میں بھی بے حد مقبول تھے۔ ویسے بھی حکام کی کامیابی کا انحصار ہر طبقہ کی روداد سنجیدگی سے سننے پر ہی ہے، چاہے اس پر عمل کیا جائے یا نہیں۔ خسرو صاحب کرتے اپنے من کی تھے، لیکن سنتے سب کی دل سے تھے، اسی لیے کامیاب تھے۔ طلباء سے اچھے رشتے رکھنے ہی میں انھیں عافیت نظر آتی تھی۔ اختر الواسع اور خسرو صاحب کے رشتے علی گڑھ میں اتنے مضبوط ہوگئے کہ دہلی آکر بھی قایم رہے۔ میں اکثر دیکھتا تھا کہ سورج کے طلوع ہونے سے قبل خسرو صاحب کی کار بٹلہ ہائوس کی گلی نمبر ایک کے آگے آکر کھڑی ہوجاتی تھی، جہاں اختر الواسع کا کرایہ خانہ تھا۔ اختر الواسع کے ساتھ خسرو صاحب علی الصباح پرانی دہلی نہاری کھانے جایا کرتے تھے۔
پروفیسر اختر الواسع سے ہماری ملاقاتیں دہلی آنے کے بعد زیادہ ہوئیں۔ ہم 1978 میں دہلی آئے اور وہ 1980 میں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درمیان محبت کا ایسا رشتہ ہے کہ علی گڑھ اپنا تیار شدہ مال جامعہ روانہ کردیتا ہے۔ جامعہ نگر یعنی اوکھلا میں بیشتر تعلیم یافتہ مہاجر قیام کرتے ہیں۔ اُس زمانہ میں بٹلہ ہائوس ہی ایک ایسی آبادی تھی جہاں مہاجرین کو پناہ ملتی تھی۔ اختر الواسع پہلی گلی میں رہتے تھے اور ہم آخری یعنی ساتویں گلی میں۔ پورا بٹلہ ہائوس سات گلیوں پر مشتمل تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بیشتر تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین بٹلہ ہائوس میں مقیم تھے۔ دہلی آکر اس وقت زیادہ تر علی گیرین بٹلہ ہائوس ہی میں رہائش تلاش کرتے تھے۔ اس وقت نہ ابوالفضل انکلیو تھا اور نہ شاہین باغ۔ ذاکر نگر کی بنیاد پڑی تھی، لیکن جوگابائی کے کیکروں کے جنگل کے سبب وہاں جاتے ہوئے لوگ ڈرتے تھے۔ دہلی وہ جگہ ہے جہاں ہر فن کے ماہرین جمع ہیں۔ اختر الواسع نے طالب علمی کے زمانے میں تقریر کا فن سیکھ لیا تھا، ان کی آواز بلند ہے، کیونکہ اوپر کوٹ کے رہنے والے ہیں، اوپر والے کی آواز جب تک بلند نہیں ہوتی، نیچے والے تک نہیں پہنچتی۔ اردو اُن کی مادری ہی نہیں بلکہ پدری زبان بھی ہے۔ اُن کے والد اپنے کلام سے مشاعرے لوٹتے تھے۔ اختر الواسع نے لوٹنے کا یہ ہنر اپنے والد سے سیکھا اور اپنے بیان سے مجمعوں کو لوٹنا شروع کیا۔ اسکول کے زمانے ہی میں تقریریں شروع کردیں، جو آج تک جاری ہیں۔ یوں بھی پروفیسروں کو بولنے ہی کی تنخواہ ملتی ہے جو جتنا زبان دراز ہوگا اتنا ہی اچھا استاد ہوگا۔ اپنے اسی ہنر کے سبب پہلے علی گڑھ اورجامعہ میں، پھر دہلی اور اب پورے ہندوستان میں اُن کی کشادگیٔ زبان اور طلاقتِ لسانی کی شہرت ہے۔ تقریروں میں بے خوفی، بیباکی اور کچھ زیادہ حق گوئی کے سبب کئی بار قیدخانے کی بھی زیارت کی۔ اربابِ قید و بند قید خانہ میں ان کی گفتگو سے پریشان ہوکر انھیں بار بار باہر بھیج دیتے تھے، لیکن جب باہر زبان چلنے سے باز نہیں آتی تھی تو اندر بھیج دیئے جاتے تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں یہ چور سپاہی کا کھیل چلتا رہا۔ پروفیسر اختر الواسع اگر اٹھارہویں یا انیسویں صدی عیسوی میں ہوتے تو داستان گوئی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔خطابت کی دقیقہ رسی،وسعت نظر، نکتہ سنجی ، قوت متخیّلہ اور الفاظ کا جو ذخیرہ اختر الواسع کے پاس ہے وہ قابل ستائش و رشک ہے۔ ان کی فصاحت نمک خوان تکلم ہے، بلاغت کے سبب معاصرین کے ناطقے بند ہیں، عبارت کی رنگین بیانی سے سننے والوں کے رنگ اُڑ جاتے ہیں۔ قطرے کو قلزم، ماہ کو مہر اور ذرّوں کو انجم کرنے میں اختر الواسع کو کمال حاصل ہے۔ ان کے بیان میں شرفاء کا روزمرہ، الفاظ کی چستی اور برجستگی کمتر مضمون کو بھی عالی کردیتی ہے۔ انہی صفات کی وجہ سے پروفیسر اختر الواسع دہلی کی نوے فی صد علمی، ادبی اور مذہبی محفلوں میں مہمان خصوصی یا صدر ہوتے ہیں،میزبان کوتواچھابولنے والا چاہیے جوکوزے میں سمندربھردے اور رائی کوپربت کردے۔

 

 

کسی زمانے میں سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کی تصویر روزانہ اخباروں کی زینت بنتی تھی۔ فی الوقت ہمارے موجودہ وزیراعظم کے تقریباً روز ہی درشن ہوجاتے ہیں۔پہلے بادشاہوں میں جھروکہ درشن کارواج تھااب اخبارات اس کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ اردو اخبارات میں سب سے زیادہ خبروں میں رہنے والی شخصیت پروفیسر اختر الواسع کی ہے۔ سال کے تین سو پینسٹھ دن میں بہت کم ایسے بدقسمت دن ہوتے ہیں، جن میں تصویر کے ساتھ پروفیسر صاحب کی خبر نہیں ہوتی۔ عموماً رمضان کے مہینے میں یہ سلسلہ بندرہتا ہے، کبھی کبھی تو اردو اخبارات کے قارئین ان کی خبر یا تصویر اخبار میں نہ دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور لوگوں سے معلوم کرتے ہیں کہ خیر تو ہے ، کیا واسع صاحب شہر میں نہیں ہیں،دراصل پروفیسر اخترالواسع کی لغت میں لفظ انکار نہیں ہے، وہ کسی کا دل نہیں توڑتے۔ مشاعرہ ہو یا مسالمہ ،قوالی ہو یامیلاد، رسم اجرا ہو یا مجرا، محفل للّن خاں کی ہو یا ببّن خاںکی، مقام کی کوئی قید نہیں، عزت ملنی چاہیے۔کسی کی دل آزاری منظور نہیں، آخراسلامیات کے استاد ہیں، اُن کی تقریر کو لوگ جمعہ کے خطبہ کی طرح سنجیدگی سے سنتے ہیں۔ اُن کے لفظوں کے طلسم میں کھوجاتے ہیں۔ بیشتر میزبان انھیں اسلامیات کا نہیں، اردو کا پر وفیسر سمجھتے ہیں، اس لیے بھی کہ اردو اداروں سے ان کی وابستگی زیادہ رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اگر پروفیسر اختر الواسع ملک کی آزادی سے قبل پیدا ہوگئے ہوتے تو جنگ آزادی میں اپنی تقریروں سے مجاہدین آزادی میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کرتے۔ علی برادران کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلتے اور خلافت عثمانیہ کو دوبارہ بحال کرنے میں معاونت کرتے۔ ویسے انھوں نے بعد میں ترکی زبان سیکھ کر خلافت کی بحالی کی کوشش بھی کی۔ ترکی والوں نے انھیں وظیفہ دے کر اپنے یہاں اس امید پر بلایا بھی، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔
پروفیسر اختر الواسع کو اللہ نے بہت عزت دی ہے، علی گڑھ سے جو عزت اور وزن لے کر آئے تھے۔ دہلی آکر اس میں مزید اضافہ ہوا۔ داڑھی ہلکی ہوئی بدن بھاری ہوگیا، البتہ قامت جوں کے توں رہی، شیروانی لمبی ہوگئی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جب تک وابستہ رہے۔ جامعہ کی شان رہے۔ جتنے وائس چانسلر آئے انھیں اپنی تقریر سے مرعوب کیا ویسے تو زیادہ تر علی گڑھ سے ہی آئے تھے اور علی گڑھ والے اُن کے مجاہدانہ جوش سے واقف تھے۔ اس لیے مفاہمت کا ہی راستہ اختیار کرنے کو بہتر سمجھتے تھے۔ ویسے استاد بننے کے بعد پروفیسر اختر الواسع نے احتجاج اور مزاحمت کے جذبے میں کچھ تخفیف اختیار کرلی تھی۔ امن و آشتی کے لیے صلح کل کے راستے پر چلنے لگے تھے۔ جماعت سیاسی ہو یامذہبی یا ادبی، کسی سے اختلاف نہیں کیا۔ کانگریس نے بھی انھیں عزت بخشی اور بی جے پی نے بھی، بریلویوں سے بھی وابستگی رہی اور دیوبندیوں سے بھی، ترقی پسندوں سے بھی رشتے اچھے رہے اور جدیدیوں اور مابعد جدیدیوں سے بھی۔ ہمیشہ مولانا حالی کی اس بات پر عمل کیا ع ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔زندگی کو اگر خوش گوار بنانا ہے تو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ جامعہ میں ڈین بھی رہے، صدر شعبہ بھی اور ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر بھی۔ ملک اور بیرون ملک کے متعدد سفر کیے، متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازے گئے۔ تقریباً تین درجن کتابوں پر مصنف، مرتب اور مؤلف کی حیثیت سے نام درج ہے۔ بس ایک خواہش مکمل نہ ہوسکی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں بحیثیت شیخ الجامعہ جانے کی۔ لیکن جودھپور راجستھان کی مولانا آزاد یونیورسٹی نے اپنے یہاں صدر قوسین میں وائس چانسلر کے عہدے سے نوازکر اس خواہش کی تکمیل کی بڑی حد تک کوشش کی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس منصب تک پہنچنے کے لیے کسی سیاسی جماعت کا احسان بھی نہیں اُٹھانا پڑا۔ پروفیسر اختر الواسع پہلے اسلامیات کے اسکالر ہیں، جنھیں حکومت ہند نے پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔ خدا جانے کن کن ملک اور بیرون ملک کے اداروں سے وابستگی رہی اور آج بھی ہے، سب کا ذکر کروں تو خاکہ طویل ہوجائے گا۔ ہم تو آج بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ طلباء یونین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تقریر کررہے ہیں اور ہم یونین ہال میں سامعین میں بیٹھے محظوظ ہورہے ہیں۔ ہمارا اور پروفیسر اختر الواسع کا رشتہ آج بھی وہی ہے جو علی گڑھ برادری کا ہوتا ہے۔ خدا سلامت رکھے :
دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے
اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے

 

You may also like

Leave a Comment