صابر کا مجموعۂ کلام ’ قسط ‘ : لفظ قیمتی بن گئے ہیں ! – شکیل رشید

صابر کو میں نہیں جانتا ۔ لیکن کیا کسی فنکار ، ادیب یا شاعر کو جاننے یا نہ جاننے سے اس کے فن میں کوئی کمی یا بیشی ہو جائے گی؟ شاید یہ سوال لوگوں کو غیر ضروری لگے ، لیکن یہ سوال ضروری ہے ، اس لیےکہ اب تعلقات ، اور واقفیت یا شناسائی ہی کسی ادیب ، فنکار اور شاعر کی اہلیت یا اس کے معیار کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ بن گئی ہے ۔ کبھی کبھی شناسائی کسی اہل کے لیے مصیبت لاتی ہے ، اور اکثر نااہلوں کے لیے باعثِ راحت بن جاتی ہے ۔ صابر کا ذکر کرتے ہوئے میں نے مذکورہ سطریں اس وجہ سے لکھ دیں کہ ان کا مجموعۂ کلام ’ قسط ‘ منظر عام پر آئے کم از کم ساڑھےتین مہینے بیت چکے ہیں ، لیکن اس پر ، چند دوستوں کی طرف سے سوشل میڈیائی ردعمل تو آیا ، لیکن اب تک کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہو سکی ہے ، یا اگر سنجیدہ گفتگو ہوئی ہے تو لوگوں تک اس کی خبر نہیں پہنچ سکی ہے ۔ یہ ایسا مجموعۂ کلام نہیں ہے جسے نظرانداز کیا جائے ، لیکن لگتا یوں ہے جیسے ادبی دنیا اس مجموعہ کے شائع ہونے سے بے خبر ہے ، جبکہ آئے دن خراب سے خراب شعری مجموعوں کی رونمائی کی خبریں آتی رہتی ہیں اور ان مجموعوں کے شعراء کو غالبؔ اور اقبالؔ نہ سہی پر اعلیٰ درجےکا شاعر ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ رویہ افسوس ناک بھی ہے اور اردو معاشرے کی بے حسی کا بیّن ثبوت بھی ۔ خیر چلیں جانے دیں ، بے حسی کی بات چھوڑیں ، بات ’ قسط ‘ کی کریں ۔ جب مجھے یہ مجموعہ ملا تھا تب اس کے سرورق نے مجھے چونکایا تھا ۔ چونکنے کی وجہ سرورق پر جَلی حروف میں ’ قسط ‘ لکھا ہونا ، اور خفی حروف میں شاعر ’ صابر ‘ کا نام لکھا ہونا تھا ۔ یہ آج کے دور میں ، جبکہ کچھ لوگ سرورق پر موٹے موٹے حروف میں صرف اپنا نام لکھا دیکھنا چاہتے ہیں ، میرے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا ۔سرورق کی طرح پس ورق بھی سادہ ہے ،بغیر شاعر کی تصویر کا ، تصویر کے نام پر ملگجے میں کھڑے ہوئے کسی شخص کا بے چہرہ اسکیچ ہے ،جو کچھ دور پر ایستادہ ایک درخت کو تکے جا رہا ہے ، اور ایک خوبصورت سا شعر ہے ؎
میں قسطوں میں سہی لیکن تجھے لوٹایا جاؤں گا
کسی دن ہو ہی جاؤں گا ترا سارے کا سارا میں
یہ شعر اس مجموعہ کو پڑھنے کی تحریک دیتا ہے ۔ میری نظر میں شاعری نام ہے، لفظوں کو فنکاری کے ساتھ یوں برتنے کا ،کہ شاعر کے خیالات ، احساسات ، کیفیات اور اس کےجذبات ایک تصویر کی طرح سامنے آجائیں ، اور ایک طرح کی تحریک یا جذبہ ہمیں اپنی گرفت میں لے لے ۔ اگر لفظوں کو خوبصورتی کے ساتھ برتنا کسی ’ شاعر ‘ کو نہیں آتا ہے تو مان لیں کہ وہ شاعری نہیں تُک بندی کر رہا ہے ، اور شاعری کے نام پر جو کچھ بھی پیش کر رہا ہے وہ ’ لایعنی ‘ ہے ، ’ بے معنی ‘ ہے ۔ صابر کے یہاں لفظوں کو برتنے کا اپنا ایک خاص انداز ہے ، جو کسی لفظ کو ضائع ہونے نہیں دیتا ، ہر لفظ کو قیمتی بنا دیتا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
کچھ ذرا اور بڑھے شور کا بے معنی پن
میری خاموشی بہت صاف سنائی دے گی
میں جسے ازبر ہوں ، اُس دنیا کے نخرے دیکھیے
نام میرا پوچھ کر پھر سوچتی بھی ہے بہت
دل اگائیں گے تیرے سینے میں
شرط اتنی ہے بیج بونے دے
سیاہی ختم ہوئی ، خشک ہوگئے اوراق
دعا کے چاک پہ پھرتی ہے آس کی مٹی
مذکورہ اشعار میں شور – خاموشی ، ازبر – سوچتی ، اگائیں – بیج ، اوراق- چاک یہ الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں بنتے ، یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن جاتے ہیں ۔ اور شاعر اِن لفظوں سے ایک ایسی دنیا خلق کرتا ہوا نظر آتا ہے ، جس میں معنی کا ایک جہان آباد ہو ۔ الفاظ معنی بدل بدل کرہمارے سامنے آتے ہیں ،’ کسی کے سینے میں دل اگانا ‘ استعارہ بن جاتا ہے ’ بے حسی ‘ کا ، اور ’ بیج ‘ کے معنی ’ محبت ‘ کےہوجاتے ہیں ۔ ظاہر ہے ، محبت کے بغیر دِل کا کوئی تصور نہیں ہو سکتاہے ۔ صابر کے یہاں علامات ، استعارات اور تشبیہات کا استعمال اشعار کو چیستاں نہیں بناتا ہے ، ان کا اسلوب اور ڈکشن اس قدر واضح ، ایسا صاف اور شفاف ہے کہ اشعار کی تفہیم میں بظاہر (اس بظاہر پر آگے بات ہوگی) نہ استعارے حائل ہوتے ہیں اور نہ ہی علامات اور تشبیہات ۔ ان کے یہاں آگ ، مٹّی ، شور ، ورق ، تنہائی ، سمندر ، زمین ، آسمان ،دھوپ ، دعا اور ایسے ہی دوسرے الفاظ بار بار آئے ہیں ، کبھی علامت کے طور پر ، کبھی استعارے اور تشبیہ کے طور پر ، اور کبھی اپنے حقیقی معنی میں ، لیکن اِن لفظوں کو انہوں نے خود پر حاوی ہونے نہیں دیا ہے کہ کوئی انہیں اور ان کی شاعری کو بس ان ہی لفظوں کے اردگرد گھومتا ہوا سمجھ لے ۔ ان کی شعری کائنات میں لفظیات اور تراکیب کا اہم کردار ہے ، عملی کردار ۔ چند اشعار ملاحظہ کریں :
مجھ کو ہر دَم ایک سی لگتی ہے اونچائی مِری
یا الٰہی ! ہر گھڑی سایہ بدلتا کون ہے
جو کھیلتا تھا آگ سے اسی کی راکھ اڑ گئی
دھواں دھواں پکارتا خلا میں گم ہوا تھا وہ
تم جو آؤ دشت میں چنگاریوں کا رقص ہو
جھاڑ کر چقماق ، تاپیں ہاتھ ، سردی ہے بہت
اسی اِک پَل میں باقی عمر جی لوں
وہ دستک دیتے دیتے رک گیا ہے
کبھی مَیں نے بھی کسی آسماں کی طلب میں چھوڑی تھی یہ زمیں
مِرے بال و پَر بھی تھے خوش گماں ، مِرا دل بھی مست و خراب تھا
جیسے کچے گھر پہ برسے قہر بارش کا
سچ بتاؤ ٹوٹ کر ہم سے ملے کیوں ہو
اِن اشعار میں ہم استعاروں ، تشبیہات اور علامتوں کے بیچ سے آسانی سے گذر جاتے ہیں ، اشعار کی تفہیم میں ، جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں بظاہر کوئی دشواری نہیں ہوتی ، لیکن اِن اشعار میں معنی کی ایک زیریں لہر بھی ہے جو انہیں ، بلکہ صابر کی پوری شعری کائنات کو ، ظاہر سے علیحدہ کر کے باطن کی طرف یا کہہ لیں باطن میں چھپے معنی کی طرف لے جاتی ہے اور پڑھنے والا جب دھیان گیان کرتا ہے ، تو وہ سوچتا ہے ’ کچا گھر ‘ ، ’ قہر بارش کا ‘ اور ’ ٹوٹ کر ملنے‘ کا کیا مطلب ہے ، کیوں الٰہی ! کو پکار کر سوال کیا جا رہا ہے کہ ’ ہر گھڑی سایہ بدلتا کون ہے ‘ اور یہ ہر گھڑی ’ اونچائی ایک سی کیوں لگتی ہے ‘ ؟ ’ کون ہے جودستک دیتے دیتے رک گیا ہے ، کیوں رکا ہے ، اور کیوں اس پَل میں کوئی باقی عمر جی لینا چاہتا ہے ‘ ؟ یہ سوال سامنے کے نہیں ہیں ، اسی لیے اشعار پڑھ کر بظاہر یوں لگتا ہے کہ سب صاف ہے ، واضح ہے ، لیکن یہ جو ’ واضح ‘ ہے ، اتنا واضح بھی نہیں ہے ! گیان دھیان میں ڈوب کر ہم سوالوں سے دوچار ہوتے ہیں ، اسی لیے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے کہ ’ شاعر اپنے لفظوں سے ایک ایسی دنیا خلق کرتا ہوا نظر آتا ہے جس میں معنی کا ایک جہان آباد ہو ۔‘ صابر کی شاعری میں ’ آج ‘ بھی نظر آتا ہے اور ’ گذرا ہوا کل ‘ بھی ۔ اور ’ آنے والا کل ‘ بھی ۔ اس میں اندیشے بھی ہیں ، تشویش بھی ، اور صبر بھی ۔ میرے لیے ان کے یہ اشعار ؎
آواز دے رہا ہے مجھے حادثہ کوئی
کہرا چھٹے تو آئے نظر راستہ کوئی
اے خدا ! ہم بھی کسی غار میں سو جائیں گے
کسی خوشحال زمانے میں جگانا ہم کو
جانے پھر کس موڑ پر مل جائے کوئی آشنا
گھر سے ہم نکلے تو ہیں لیکن بہت سہمے ہوئے
آج کا سچ ہیں ۔ ایسا سچ جو اندیشوں سے بھرا ہوا ہے ، لیکن صابر کے یہاں ’ یاس ‘ کے ساتھ ’ آس ‘ بھی ہے ، وہ بظاہر تو مایوس سے لگتے ہیں ، لیکن ان کے یہاں یہ مایوسی جب امید کا روپ لیتی ہے تو ان کے قلم سے نکلتا ہے:
ایک دن ہم پہنچ جائیں گے درد کے خزانے تلک جس کے وارث ہیں ہم
نقشہ مبہم سہی ، راہ الجھی سہی ، منھ چڑاتی ہوئی ہر نشانی سہی
یہ شاعری اس قابل ہے کہ سراہی جائے ، پڑھی جائے ۔ یقیناً میری طرح بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے صابر کے مجموعۂ کلام کو دیکھا اور پڑھا ہوگا ، اور ان میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے میری طرح اس مجموعہ کی کشش کو محسوس کیا ہوگا ، اور میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آئندہ جو اسے پڑھیں گے ، وہ بھی اس شاعری کی کشش سے متاثر ہوں گے ۔ تین اشعار اور ۱۴۶ غزلوں پر مشتمل یہ مجموعہ ، آج کے دور میں ، جب اچھی شاعری پڑھنے سے آنکھیں یا سننے سے کان محروم ہیں ، سخن نوازوں ایک بہترین تحفہ ہے ۔ یہ مجموعہ ’ اَپلائڈ بکس ، نئی دہلی ‘ نے خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے ۔ صفحات 196 ہیں ، قیمت 300 روپیہ ہے ۔ انتساب ’ بابا کے نام ‘ ہے ۔آخر میں مزید دو شعر ملاحظہ کرلیں :
آج تم پھر چائے اور اخبار لائیں ایک ساتھ
کل بھی تھی میری زباں پر خوں کی تلخی دیر تک
صدیوں صدیوں میں عاصی
لمحہ لمحہ اَرحم تو ( حمد )