منصور قاسمی (ریاض،سعودی عرب)
اس ملک میں انصاف ابھی زندہ ہے،عدالت کا احترام کرو، عدالتی فیصلوں کو بسر و چشم قبول کرو، ان جملوں کو ہوش وحواس سنبھالنے کے بعد سے ہی سن رہاہوں، آنکھ پر کالی پٹی اور ہاتھ میں میزان عدل لئے کھڑی انصاف کی دیوی کاکئی بار انصاف بھی دیکھ چکا ہوں؛ تاہم گزشتہ چند سالوں میں یکے بعد دیگرے عدالت سے کچھ اہم فیصلے ایسے آئے، جن کی وجہ سے اعتماد کو ٹھیس لگی ہے۔ماہرین قانون، دانشوران قوم و ملت، سیاسی قائدین سبھوں نے ان پرتشویس کا اظہار کیا ۔آپ کویاد ہوگا! جنوری ۸۱۰۲ میں عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی چیف جسٹس (دیپک مشرا)کے خلاف چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کر کے عدالت کے طریقہئ کارپر سوالات اٹھائے تھے،جن میں ایک جج رنجن گگوئی بھی تھے جو بعد میں چیف جسٹس دیپک مشرا کی جگہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے،۔مسٹرگگوئی جب مسند عدل پر براجمان ہوئے توسبھوں کو لگا کہ اب بغیر کسی دباؤ اور جھکاؤ کے عدالت کام کرے گی؛ مگر یہ امیدیں اس وقت ٹوٹ گئیں جب گگوئی بھی حکومت کی کٹھ پتلی بنتے اور اشاروں پر رقص طاؤس کرتے نظرآنے لگے۔کشمیر سے دفعہ ۰۷۳ ہٹا دیا گیا، عدالت نے دخل اندازی نہیں کی، ٹرپل طلاق کو غیر قانونی کہہ کر مذہبی آزادی پر قدغن لگا دیا،سی بی آئی آلوک ورما پر کوئی دلچسپی کا نہیں لی،جنگی طیارہ رافیل گھوٹالوں کی خرید و فروخت میں ہوئی بدعنوانی کی تحقیق پر گگوئی نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ”آم اور املی کی قیمت برابر نہیں ہو سکتی،،جبکہ جسٹس جوزف نے کہا تھا: کسی تفتیشی ایجینسی سے اس کی تفتیش کرائی جا سکتی ہے۔بابری مسجد جس کی تعمیر ۸۲۵۱ میں ہوئی تھی، جس کی ایک شاندار تاریخ ہے، جہاں سے اذان کی صدائیں آتی تھیں اس کے اندر متشدد و متعصب ہندوؤں نے ۹۴۹۱ میں مجرمانہ طور پر مورتیاں رکھنے کے بعد اس کو حاصل کرنے کے لئے سیاسی اور مذہبی تحریک چھیڑ دی تھی، جس کا فیصلہ ۹ نومبر ۹۱ کو سناتے ہوئے گگوئی نے بھی مانا ہے کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی، بابری مسجد کو توڑنا ایک مجرمانہ عمل تھا اس کے باوجود بابری مسجد کی زمین رام جنم بھومی نیاس کے حوالے کردی اور کہا: مندر کی تعمیر کے لئے مرکزی حکومت جلد از جلد ٹرسٹ بنائے اور تین مہینے کے اندر مندرکامنصوبہ بنائے! اس کے بعد چیف جسٹس صاحب اپنے معاونین ججوں کے ساتھ جشن منانے تاج مان سنگھ ہوٹل چلے گئے۔دنیانے دیکھا،یہ فیصلہ کم حکم نامہ زیادہ تھا، آستھا اور عقیدے کے آگے دلائل و شواہد بے حیثیت ہو گئے تھے۔جس طرح اپنے ریٹائرمنٹ سے پہلے رنجن گگوئی کو بابری مسجد پر فیصلہ سنانے کی جلدی تھی اور جس طرح سے فیصلہ سنایا، اس پر دنیا چونک اٹھی، اہل دانش وبینش اتنا تو سمجھ رہے تھے کہ دال میں ضرورکچھ کالا ہے مگر پوری دال ہی کالی تھی یہ اب نظر آئی،عزت مآب صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے سبکدوشی کے صرف چار ماہ بعدہی راجیہ سبھا کے لئے منتخب کرکے گگوئی کی جو عزت افزائی کی ہے اس سے انصاف و عدل کی دیوی یقینا اپنی بے عزتی محسوس کررہی ہوگی۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے اس پر کہا:یہ صرف رنجن گگوئی کے ذاتی جو ڈیشیل ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے، انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھنے والے سبھوں ججوں کی آزادی اور غیر جانب داری پر سوالیہ نشان لگا دیا،،۔سینئر وکیل گوتم بھاٹیا نے ٹویٹ کیا:چیزوں کو کھل کر سامنے آنے میں کچھ وقت ضرور لگا اور اب کھل کر سامنے آ گیا لیکن ان سب کے بعد آزاد عدلیہ کی موت ہو گئی،،۔بار ایسو ایشن کے سربراہ دشینت دوے نے کہا: یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ عدلیہ کو کس طرح پامال کیا جا رہا ہے، یہ عدالتی آزادی کی عدم موجودگی کا واضح ثبوت ہے،،۔ سابق چیف جسٹس مار کنڈے کاٹجو نے کہا: گزشتہ بیس سالوں سے بیس ججوں کو دیکھا، کئی اچھے اور کئی برے ججوں کو جانتا ہوں لیکن ہندوستانی عدلیہ میں رنجن گگوئی جیسے بے شرم اور ذلیل جج نہیں دیکھا،،۔ گگوئی کے ساتھی جسٹس مدن بی لوکر نے کہا: آخری ستون بھی گر گیا۔
۰۳ ستمبر ۲۱۰۲ میں سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا: دو طرح کے جج ہوتے ہیں، ایک جو قانون جانتے ہیں اور ایک جو قانون منتری کو جانتے ہیں، ریٹائر ہونے سے پہلے دیئے فیصلے ریٹائر منٹ کے بعد ملنے والے سے متاثر ہو تے ہیں،،۔کاش! آج ارون جیٹلی باحیات ہوتے، تو ضرورپوچھتا: گگوئی صاحب قانون جاتے تھے یا قانون منتری کو، اور یہ راجیہ سبھا کی سیٹ کس فیصلے سے متاثر ہو کر دی جا رہی ہے؟خود رنجن گگوئی نے بھی ۷۲ مارچ ۹۱۰۲ کو کہا تھا: ریٹائر منٹ کے بعد ملنے والا عہدہ عدلیہ کی آزادی پر داغ ہے،،۔ جسٹس گگوئی نے راجیہ سبھا کی سیٹ قبول کر کے خود کو اور عدلیہ کو تو داغدار کیا ہی، پس پردہ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ کام حکومت کی خواہش کے مطابق کروگے تو انعام ملے گا، ورنہ جسٹس لویا کی طرح پراسرار موت ہی ملے گی۔ کہا جاتا ہے جسٹس لویا کو وزیر داخلہ امیت شاہ کے مقدمہ سے دستبرداری کے لئے ۰۰۲ کروڑ اور ممبئی میں عالیشان فلیٹ کی پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں نے عدل و انصاف کے ترازو کو جھکنے نہیں، اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا،نتیجہ موت۔جسٹس ایس مرلی دھر نے دہلی فساد پر جب دہلی پولیس کو زبردست پھٹکار لگائی اور تین بی جے پی نیتاؤں کے خلاف ایف آئی درج کرنے کی ہدایت دی تو راتوں رات ان کا ٹرانسفرہو گیا۔
ایک کہاوت ہے: توے کی تیری، ہاتھ کی میری.. مطلب ہے زیادہ فائدہ میرا اور تھوڑا تیرا…یہی کھیل بی جے پی حکومت اور جسٹس رنجن گگوئی میں کھیلا گیا، گگوئی نے ٹرپل طلاق سے لے کر رافیل اور رام مندر تک حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تو حکومت نے اس عورت سے چھٹکارا دلانے میں ان کی مدد کی؛ جس نے ۲۲ ججوں کو خط لکھ کر اکتوبر ۸۱۰۲ میں رنجن گگوئی پر جنسی استحصال کا کا الزام لگایا تھا،و ہ عدالت میں جونیئر کورٹ اسٹنٹ کے عہدہ پر فائز تھی۔پھریوں ہوا کہ جولائی ۹۱۰۲ میں ہریانہ کے نوین نامی شخص نے اس عورت پر ۰۵ ہزار روپئے رشوت لینے اور دھمکانے ڈرانے کا مقدمہ کردیا،وہ گرفتارہوئی، عدالتی حراست میں دو دن رہی، ۶۱ ستمبر کو نوین مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے: اس معاملے کی تفتیش سے میں مطمئن ہوں اس لئے کلوزر رپورٹ قبول کر لیا جائے۔ اسی درمیان سپریم کورٹ کے انٹرنل چانچ کمیٹی کے ذریعہ چیف جسٹس رنجن گگوئی کو کلین چٹ دے دی جاتی ہے،وہ عورت کہتی ہے میرے ساتھ ناانصافی ہوئی، میرا ڈر سچ ثابت ہو گیا، ملک کی اعلیٰ عدالت سے انصاف کی امید ختم ہو گئی،،۔اور اب راجیہ سبھا کی سیٹ… فائدہ کس کو زیادہ اور کس کو کم ہوا فیصلہ آپ کیجئے!
بہرحال! چیف جسٹس آتے جاتے رہیں گے، عہدے ملتے اور ختم ہوتے رہیں گے،مگر عدلیہ اور خود کی ایمانداری سے گگوئی نے جو سمجھوتہ کیا ہے،سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا!
[email protected]