ہم نے فارسی زبان سے واقفیت کے ساتھ ہی اس زبان کے جن کلاسکس کے بارے میں سنایا پڑھا،ان میں مولانا روم کی مثنوی خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ایک زمانے میں یہ کتاب درسِ نظامی کا حصہ رہی ہے، اب شایدبرصغیر کے کسی مدرَسی نصابِ تعلیم میں شامل نہیں ہے،البتہ ہمارے بہار کے ضلع سیتامڑھی کی نمایاں تعلیم گاہ جامعہ اشرف العلوم میں اس کے کچھ حصے اب بھی پڑھائے جاتے ہیں۔بہر کیف ہم نے جب بھی اس کتاب کے بارے میں سنا یایا پڑھا یا خودگاہے بگاہے اس کتاب کے مختلف حصے پڑھے،تویہی محسوس ہوا کہ رومی کی یہ کتاب تربیتِ نفس اور تعلیمِ اخلاق کی کتاب ہے،جس میں حکائی انداز میں مختلف نبیوں،دیگر کرداروں کے واقعات بیان کرکے انسانی زندگی،کردار و اطوار سے متعلق اہم اسباق دیے گئے ہیں اور مختلف عملی و اخلاقی موضوعات پر بہت جامع نصیحتیں اس مثنوی میں موجود ہیں۔اسی وجہ سے اہلِ فارس اس مثنوی کو’’ زبانِ پہلوی میں قرآن‘‘ کا درجہ دیتے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ رومی نے اس کتاب میں انہی مضامین کو آسان شعری موضوعات اور حکایات وواقعات کے ذریعے بیان کیاہے،جنھیں قرآن کریم میں بیان کیاگیا ہے۔حتی کہ اس کتاب کی ترتیب بھی قرآن کریم کی طرح ہی ہے،یعنی ایسا نہیں ہے کہ یکے بعد دیگرے ترتیب کے ساتھ مختلف موضوعات کے مضامین بیان کیے گئے ہیں؛بلکہ کیف مااتفق بیان کیے گئے ہیں ۔ شروع سے لے کر اب تک مثنوی مولانا روم کا اسلامی اہلِ دانش کے نزدیک ایک خاص مقام ہے اور تربیتِ نفس و اخلاق کے سلسلے میں اس سے خصوصی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے تصوف اور تربیت اخلاق کے علاوہ مثنوی کوتوحید،ذات و صفاتِ باری تعالیٰ،نبوت،معجزات،روح،معاد،جبروقدرجیسے مسائل کی تفہیم کے حوالے سے بھی عمدہ کتاب قرار دیاہے اور اس کے مختلف اشعار سے ان مسائل پر استدلال کیا ہے۔ایشیاکے عظیم مفکر،فلسفی و شاعر اقبال نے تو رومی کو اپنا روحانی مرشد مانا ہے اوراسی مثنوی کی تقلید میں اپنی مثنوی’’اسرارِ خودی‘‘اور’’رموزِ بے خودی‘‘ لکھی ۔
یوں تو مولانا رومی کی تصانیف میں ان کے ملفوظات پر مشتمل ’’فیہ مافیہ‘‘،مجموعۂ غزلیات و منظومات ’’دیوانِ شمس تبریز ‘‘اور خطبات کا مجموعہ ’’مجالسِ سبعہ‘‘بھی ہیں،مگر زیادہ شہرت مثنوی کو ہی حاصل ہے؛بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ادب و شعر کی دنیا میں رومی اسی کی وجہ سے زندہ ہیں اور اسی کی وجہ سے ان کی تعلیمات و افکار کوبھی بقا حاصل ہے۔ کشف الظنون کے مطابق مثنوی میں کل اشعار26660ہیں۔رومی کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ انھوں نے یہ مثنوی اپنے مرید حسام الدین چلپی کی فرمایش پر لکھی،چلپی رومی کے خاص مرید تھے؛بلکہ رومی کے دل میں ان کے تئیں احترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب مثنوی کے پہلے دفترکے پایۂ تکمیل کو پہنچنے کے بعد حسام الدین کی بیوی کا انتقال ہوگیا،تواس سانحے کا اثر رومی کے ذہن و دماغ پر بھی بہت زیادہ ہوا اور مسلسل دوسال تک انھوں نے کچھ نہیں کہا،دوسال کے بعد بھی جب حسام الدین نے درخواست کی تب رومی کی زبان کی کھلی۔رومی نے اپنی مثنوی گو کہ حکیم سنائی کی ’’حدیقہ‘‘ اور شیخ فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘کو سامنے رکھ کر لکھی ،مگر اس کے باوجود اس میں مضامین و طرزِ پیش کش وغیرہ کے اعتبار سے ایسی انفرادیت تھی کہ اسے جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی،وہ پہلے یا بعد میں اس موضوع کی کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔شبلی نے مجمع الفصحا کے حوالے سے لکھاہے کہ ایران میں چار کتابوں کو جو شہرت و مقبولیت ملی،وہ کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی: شاہنامہ، گلستاں، دیوانِ حافظ اور مثنوی مولانا روم۔ مگر ان چاروں میں بھی زیادہ مقبولیت اور اہلِ نظر کے یہاں اعتبار و اعتنا مثنوی کو ہی حاصل ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی اس کی تشریح و توضیح پر علما نے خصوصی توجہ دی اور کئی لوگوں نے اس کے ترجمے کیے ہیں۔ شبلی نے اس کی چودہ شرحوں کا ذکر کیاہے،جن میں سے کچھ تو مکمل مثنوی کی شروحات ہیں،باقی مختلف اجزا کی تشریحات پر مشتمل ہیں۔ایک شرح علائی بن یحی واعظ شیرازی کی ہے،جس میں صرف مثنوی میں وارد ہونے والی آیاتِ قرآنی و احادیث کی تشریح کی گئی ہے۔ (سوانح مولانا روم،ص:65۔67،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ)قاضی سجاد حسین نے ان چودہ کے علاوہ مزید پانچ کتابوں کا ذکر کیاہے ،جو مکمل مثنوی یا اس کے بعض اجزا کی شرحیں ہیں۔(مثنوی مولوی معنوی،ص:11-12،ط:حامد اینڈ کمپنی،اردوبازار لاہور) اردو زبان میں غالبا سب سے ضخیم شرح مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھی ہے ،ان کی شرح’’کلیدِ مثنوی‘‘چوبیس جلدوں اورچھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔رومی کی تفہیم کے حوالے سے مولانا تھانوی کوعلما اوراہلِ تصوف کا ایک بڑا حلقہ تو تسلیم کرتاہی ہے،مگر اس سلسلے میں رومی کے’’ مریدِ ہندی‘‘ علامہ اقبال بھی ان کے مقلد ہیں اور اس کا انھوں نے بہ قلم خود اظہار کیا ہے۔ ان کے اس اظہار کا پس منظر جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔خواجہ حسن نظامی حضرت نظام الدین اولیا کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اپنے دور کے مشہور ادیب،صحافی و صوفی تھے۔اقبال کےممدوحین میں تھے اورہر سال اپنے اخبار’’خطیب‘‘میں متحدہ ہندوستان کی اہم شخصیات کو ان کی مختلف خدمات کے عوض الگ الگ خطابات سے نوازا کرتے تھے،مارچ 1915 میں انھوں نے اقبال کو’’سرالوصال‘‘کے خطاب سے نوازااور اپنے نوٹ میں اقبال کو’’ مسلمانوں ہی نہیں کل ہندوستان کا قومی شاعر‘‘ قرار دیااور لکھاکہ:’’اگر آپ کے خیالات رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح انگریزی میں ترجمہ ہوکر یورپ میں شائع ہوتے تو یقینا اہلِ یورپ بھی انہی کو ہندوستان کا ملکی شاعر تصور کرتے‘‘۔( خرم علی شفیق،اقبال:درمیانی دور(1914سے1922تک) ، ص:104،ط:اقبال اکادمی،پاکستان)مگر اسی سال ستمبر میں جب مثنوی اسرارِ خودی چھپ کر آئی اور خواجہ صاحب نے اسے دیکھا،تو نظریۂ وحدت الوجود اور حافظِ شیراز پر اقبال کی چوٹ نے انھیں چراغ پا کردیا۔30نومبر1915کو ’’خطیب ‘‘میں سید محمد شاہ ذوقی کے نام سے ’’اسرارِ خودی‘‘پر ایک تنقید شائع ہوئی۔اس میں مضمون نگار نے لکھا:’’اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ مثنوی اسرارِ خودی میں آزارِ خودی کی جن تیوروں سے حمایت کی گئی ہے،وہ باعتبار اپنے نتائج کے ایک حملہ ہے،جو اسلام پر،اسلام ہی کی آڑ میں ہوا ہے۔عوام الناس میں عموماً اور انگریزی داں طبقہ میں خصوصاً نہ معلوم کیوں اقبال کو دلدادۂ تصوف ہونے کی شہرت حاصل ہے‘‘۔(ایضا،ص:177-178)پھر30جنوری1916کے ’’خطیب‘‘کے شمارے میں خود خواجہ حسن نظامی نے’’سرِ اسرارِخودی‘‘کے نام سے ایک مضمون لکھا اور اسرارِ خودی پر متعدد اعتراضات کیے۔اسی مضمون میں خواجہ حسن نظامی نے اقبال پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اقبال نے مولانا روم کو خواب میں دیکھا،ان کی مثنوی کو بیداری میں نہ پڑھا۔اگر وہ ایسا کرتے ،توقرآن کے خلاف نہ چلتے؛بلکہ قرآن کے اصول کو اپنی مثنوی میں لکھتے‘‘۔(ایضا ،ص:203)اس کے جواب میں اقبال نے بھی مضمون لکھا،جو ’’وکیل‘‘امرتسر کے 9فروری1916 کے شمارے میں شائع ہوا۔اقبال نے اس مضمون میں بالترتیب خواجہ صاحب کے بیان کردہ ان اسباب کی تردید کی،جن کی وجہ سے انھوں نے مثنوی اسرارِ خودی کو’’غیر ضروری‘‘اور’’نامعقول‘‘وغیرہ قرار دیاتھا۔مولانا روم کے تعلق سے خواجہ صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا:’’حضرت!میں نے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور باربار پڑھاہے۔آپ نے اسے شاید حالتِ سکر میں پڑھاہے کہ آپ کواس میں وحدت الوجود نظر آتا ہے۔مولوی اشرف علی صاحب تھانوی سے پوچھیے ،وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں؟میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں‘‘۔(مقالاتِ اقبال،مرتب :سید عبدالواحد معینی،محمد عبداللہ قریشی،ص:221،ط:القمر انٹرپرائزیز،غزنی اسٹریٹ،لاہور2011)
مولانا تھانوی کے علاوہ قاضی سجاد حسین نے مثنوی کا ترجمہ مع حواشی شائع کیاہے،اس کا نام’’مثنویِ مولویِ معنوی‘‘ ہے۔1974میں دفترِ اول کا ترجمہ مع حواشی شائع ہوا اورجون 1978میں دفترِ ششم کا۔کل چھ جلدوں اور تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ مولاناتھانوی کے مرید وں کے مرید حکیم محمد اختر صاحب نے بھی ایک شرح لکھی ہے،جو’’معارفِ مثنوی‘‘کے نام سےپہلی بار 1996میں کتب خانہ مظہری،کراچی سے شائع ہوئی ہے ۔ابھی پچھلے سال ایم آر پبلی کیشنز دہلی سے ڈاکٹر مغیث احمد کی کتاب ’’مولانا جلال الدین رومی- احوال و آثار ‘‘ شائع ہوئی ہے،جس کے مراجع میں انھوں نے عربی ،فارسی ، اردو و انگریزی میں مکمل مثنوی یا اس کے بعض اجزا کے پچاس سے زائد تراجم اور شرحوں کا ذکر کیاہے۔ترکی کے شہر قونیہ(جہاں مولانا نے عملی زندگی گزاری اور جہاں مدفون ہیں)کی میونسپلٹی کی جانب سے2005سے باقاعدہ ایک ٹرانسلیشن پروجیکٹ پر کام ہو رہاہے،جس کے تحت دنیا کی پچاس زبانوں میں مثنوی کا ترجمہ کیا جانا ہے۔دسمبر 2018تک اس پروجیکٹ کے تحت 26زبانوں میں مثنوی کے ترجمے ہو چکے تھے،جن میں ترکی،انگریزی ،عربی و اردو کے علاوہ جرمن ، سویڈش ، اطالوی ، فرانسیسی ، جاپانی ، البانوی ، ہسپانوی ، ترکمانی ، قزاقستانی ، ازبک ، چینی ، یونانی ، روسی ، آزربائیجانی ، ملائی ، سواحلی ، کرد ، بوسنین ، ڈچ ، کرغیزی ،پولش اورامہری تراجم شامل ہیں۔
رومی کی مثنوی اور اس کے تراجم و تشریحات – نایاب حسن
previous post