email:[email protected]
راشڑیہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی عمر 95سال ہوگئی۔اس کا قیام ستمبر 1925میں ہواتھا۔ روز اول سے یہ ایک متنازعہ جماعت رہی ہے۔ اس کے نظریات کو خطرناک قرار دیا جاتا رہا ہے اور اس کی سرگرمیوں کو شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں پر شدت پسندی کے الزامات لگے۔ الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ آرایس ایس کو مسلمانوں سے نفرت ہے اور وہ مسلمانوں کو نیست ونابود کرنا چاہتا ہے۔ اس پر کئی دوسرے سنگین قسم کے الزامات بھی لگے اور دو دوبار پابندیاں بھی عائد ہوئیں مگر اس کے باجود اس کے ممبران اور خیرخواہوں نے پوری لگن اور دلجمعی کے ساتھ اپنے مقصد کو سامنے رکھا،قربانیاں دیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ آج آرایس ایس کا ملک کے اقتدار پر قبضہ ہے۔ وہ بھارت کے سیاہ وسفید کی مالک ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کر رہی ہے۔آرایس ایس کے تعلق سے منفی باتیں لکھی جاتی رہی ہیں مگرہم یہاں اس کے کچھ مثبت پہلووں کی جانکاری دینا چاہتے ہیں۔مثلاً وہ ملک کاسب سے بڑا این جی او بھی ہے۔ اس کے کروڑوں ممبران اور خیرخواہان پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں جوشعبہئ تعلیم سے لے کرشعبہئ زراعت تک مختلف تنظیموں کی شکل میں سرگرم ہیں۔حادثات،سیلاب، طوفان،آسمانی آفات وغیرہ کے موقع پر عموماً راحت رسانی کے کاموں میں سنگھ کے ممبران کو پیش پیش دیکھا جاتا ہے۔ آج اگر بی جے پی اقتدار میں ہے تو اس میں آرایس ایس کی زبردست تنظیم کا بڑا یوگدان ہے۔
بین الاقوامی روابط
اپنے قیام کے دن سے آج تک سنگھ نے دنیا بھر میں کروڑوں ہندووں کو خود سے جوڑنے کا کام کیا ہے۔ راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نظریاتی لحاظ سے ایک ہندتووادی جماعت ہے اور اس پہلو کو اس نے چھپانے کے بجائے فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ایسے میں سنگھ کے نظریات سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے مگر اسی کے ساتھ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سنگھ بڑے پیمانے پر سماج کی خدمت میں بھی مصروف ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے سماجی اداروں میں سے ایک ہے اور بھارت کا سب سے بڑا این جی او ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ سنگھ کو سماجی خدمات کے لئے ساری دنیا سے پیسے ملتے ہیں۔ اسے بیرون ملک سے سالانہ کروڑوں روپئے ملتے ہیں۔ یہ پیسے کسی ایک تنظیم کے نام پر نہیں آتے بلکہ مختلف تنظیموں کے نام پر آتے ہیں۔ پیسے دینے والوں میں تمام ہندو یا ہندوستانی نہیں ہوتے ہیں بلکہ بعض بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بھی اسے فنڈ ملتا ہے۔ ادھر حال ہی میں مرکزی حکومت نے سینکڑوں فلاحی اداروں کو غیرملکی فنڈ لینے سے محروم کردیا ہے مگر آرایس ایس اور اس کے ذیلی اداروں کی بیرون ملک سے فنڈنگ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ سنگھ، بہ ظاہر سماجی خدمات میں مذہب، ذات اور رنگ ونسل کی تفریق نہیں کرتا بلکہ سماج کے سبھی طبقوں کے بیچ کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے کارکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے بیچ بھی کام کرتے ہیں۔ ویسے آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں میں سے ایک مسلم راشٹرمنچ بھی ہے جو خاص مسلمانوں کو سنگھ سے قریب لانے کے لئے قائم کی گئی ہے۔
آرایس ایس کی سماجی خدمات
آرایس ایس کی خدمات سے دنیا واقف ہے اور اسے بڑے پیمانے پر ملک وبیرون ملک سے فنڈ ملتا ہے۔سنگھ کے رضاکاروں کو خدمت خلق کی بھی تعلیم دی جاتی ہے جس کی بہت سے زندہ مثالیں موجود ہیں۔فی الحال اس کے سماجی خدمات سے لاکھوں لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سنگھ کے تحت سو سے زیادہ تنظیمیں کام کرتی ہیں، ہزاروں اسکول چلتے ہیں جن میں لاکھوں بچوں کی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ان اداروں میں بلاتفریق مسلم بچے بھی تعلیم پاتے ہیں۔ اس کے تحت سماجی کام کرنے والی تنظیموں میں سیوا بھارتی، ونواسی کلیان آشرم، اترانچل اتھان پریشد قابل ذکرہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے دورا فتادہ گاؤں، پہاڑی علاقوں اور جنگلات کے اند ر رہنے والوں تک پہنچتی ہیں، جہاں دوسرے این جی او نہیں پہنچتے۔ان تنظیموں کے لوگ آدیباسیوں، دلتوں، چائے باغات میں کام کرنے والوں اور پہاڑیوں کے بیچ پہنچتے ہیں اور اپنی خدمات سے ان کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیلاب،قحط، زلزلہ، قدرتی آفات اور حادثات کے موقع پر دوسروں سے پہلے آرایس ایس کے لوگ پہنچتے ہیں اور مصبیت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اتراکھنڈ کی باڑھ میں سنگھ کے کارکن
ماضی قریب میں ہر قدرتی آفت کے وقت سنگھ رضاکاروں کو مصروف عمل دیکھا گیا۔چند سال قبل کیدارناتھ اور دوسرے پہاڑی علاقوں میں زبردست باڑھ آئی جس نے بہت سی زندگیاں نگل لیں۔اس موقع پر آرایس ایس کے رضاکاروں کو راحت کام کرتے ہوئے دیکھا گیا۔متاثرین کے لئے سنگھ رضاکاروں نے طبی خدمات، خوراک اور رہائش کا انتظام کیا۔اس سیلاب میں جو بچے یتیم ہوگئے تھے ان کے لئے سنگھ نے یتیم خانے قائم کئے، اسکول کی تعلیم کا انتظام کیا اور تکنیکی تعلیم اور اعلی تعلیم کی سہولیات فراہم کیں۔
کیرل کے سیلاب میں
کیرل کے خوفناک قدرتی سیلاب میں جب پورا صوبہ زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہا تھا اور بہت سے لوگوں نے اپنی جانیں دیدی تھیں تو یہاں بھی راحت کے کام میں آرایس ایس کے لوگ پہنچے اور اپنی روایت کے مطابق نہ صرف باڑھ میں پھنسے لوگوں کو بچایا بلکہ ان کے لئے کھانے، کپڑے اور تمبو وغیرہ کا انتظام کیا۔سنگھ کے لاکھوں رضاکار ملک بھر میں کھانے کی اشیاء، خیمے، ٹارچ، جوتے، کپڑے وغیرہ جمع کرتے نظر آئے۔
مزدوروں اور کسانوں کے بیچ
آسام کے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ملی جیت پر بہتوں کو حیرت ہوئی تھی مگر یہاں کے حالات سے واقفیت رکھنے والے بتاتے ہیں کہ آرایس ایس نے جو زمینی سطح پر کام کیا تھا،اسی کے نتیجے میں اسے جیت ملی تھی۔ خاص طور پر چائے کے باغات میں سنگھ کے کارکنوں نے اترکر مزدوروں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ان کی ہمدردی بھاجپا کے لئے ووٹ میں تبدیل ہوئی۔آرایس ایس اترپردیش میں بھی کسانوں اور مزدوروں کے بیچ کام کر رہا ہے۔ کسانوں کے قریب آنے کے لئے سنگھ کی ذیلی تنظیم بھارتیہ کسان سنگھ کام کرتی ہے جس نے حالیہ ایام میں مرکزی سرکار کے زرعی بل کو کسان مخالف قراردیتے ہوئے مخالفت کی ہے۔
مسلمان بھی اٹھاتے ہیں فائدہ
عموماًآر ایس ایس اپنی خدمات دیتے وقت کسی کی ذات، مذہب،رنگ ونسل اور ووٹ بینک نہیں دیکھتا۔سنگھ پر اگرچہ مسلم مخالف ہونے کا الزام لگتا رہا ہے مگر اس کے باجود اس سے مستفید ہونے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے۔ سنگھ کے اسکولوں میں جو بچے تعلیم پاتے ہیں ان میں ہزاروں مسلمان بچے بھی شامل ہیں۔ پچھلے دنوں آسام میں دسویں کلاس کا ٹاپر ایک ایسا مسلمان لڑکا تھا جس نے آرایس ایس کے ماتحت چلنے والے ایک اسکول میں تعلیم پائی تھی۔ یہی نہیں آرایس ایس ایسے کوچنگ سنٹر بھی چلاتا ہے جن میں سول سروسیز کے امتحانات کی تیاریاں کرائی جاتی ہیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ان میں کئی مسلمان امیدواروں کو کامیابی بھی ملی ہے۔
جھارکھنڈ میں مسلم بھی ہورہے سنگھ کی خدمات سے مستفید
اطلاعات کے مطابق پورے جھارکھنڈ میں سنگھ کی جانب سے140 بال سنسکار کیندر اور 18 سلائی ٹریننگ سینٹر چلائے جا رہے ہیں، جن میں ہندواور مسلمان بچوں کی تعلیم ہورہی ہے نیز ہندو خواتین کے ساتھ ساتھ مسلم عورتیں بھی سلائی کی تربیت لے رہی ہیں۔سنٹرس میں ہردن کا آغاز ”سرسوتی وندنا“ سے ہوتا ہے اور اس میں ہندو بچوں کے ساتھ ساتھ مسلم بچے بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ سنٹر عموماً بے حد غریب علاقوں اور جھگیوں میں قائم ہوتے ہیں۔ رانچی کے الٰہی نگر کے بال سنسکار کیندر سے بہت سے مسلم بچوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ جب کہ ہرمو کے آزاد ہند نگر سلائی سنٹر سے بہت سی مسلم لڑکیوں اور خواتین نے سلائی کی ٹریننگ لی ہے اور لے رہی ہیں۔
سنگھ غریبوں کے ساتھ
مدھوپور میں چلنے والے سینٹر سے اب تک سینکڑوں مسلم خواتین خود کفیل ہوچکی ہیں۔ آر ایس ایس کے ایک سینئر کارکن اور ان مراکز کے نگراں گروشرن پرساد کہتے ہیں کہ آر ایس ایس ہمیشہ پسماندہ اور استحصال زدہ لوگوں کے استحکام کے لئے کام کررہا ہے۔ سیوا بھارتی تنظیم ان کے درمیان کام کرتی ہے، چاہے وہ کسی مذہب اور فرقے سے ہوں۔یہی سبب ہے کہ آر ایس ایس کے تحت چلنے والے سنٹرس پر مسلم خواتین اور بچے بھی آتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان بچوں کوپانچویں کلاس تک کی تعلیم دی جاتی ہے اور سرکاری اسکولوں میں داخلہ کے انتظامات بھی کئے جاتے ہیں۔گروشرن پرساد کے مطابق، جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں بہت سے مسلم بچے آتے ہیں جب کہ راجستھان میں چلنے والے اسکولوں میں بھی بڑی تعداد میں مسلمان بچے آتے ہیں۔
کوئی بھید بھاؤ نہیں
رانچی کے آزاد ہند نگر میں واقع سلائی ٹریننگ مرکز میں تربیت حاصل کرنے والی رخسار پروین کا کہنا ہے کہ اس مرکز میں تربیت حاصل کرنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہے۔ یہاں کوئی بھیدبھاؤ نہیں ہے۔ میں تمام مسلم خواتین کو بھی یہ کہنا چاہتی ہوں کہ سیوا بھارتی کی طرف سے چلائے جانے والے سینٹرس میں جائیں اور تربیت حاصل کریں اور خود کفیل بنیں۔ اس نے مزید کہا مجھے گائتری منتر اورسرسوتی وندنا پڑھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ یہ یہاں کی روایت کا حصہ ہے۔ رخسار انگریزی سے بھی گریجویٹ ہے اور یہاں سلائی کی تربیت لے رہی ہے۔ریجون بی بی ان پڑھ ہے مگر اس نے سیوابھارتی کے تحت چلنے والے سلائی ٹریننگ سنٹر سے کپڑے سینا سیکھا ہے اور اپنے پریوار کا خرچ چلا رہی ہے۔ وہ اس مرکز کی تعریف کرتی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)