Home تجزیہ آر ایس ایس کی طرح کوئی مسلم تنظیم کیوں نہیں؟

آر ایس ایس کی طرح کوئی مسلم تنظیم کیوں نہیں؟

by قندیل


ڈاکٹر سید فاصل حسین پرویز(ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226)

مسٹر نریندر مودی کی تاریخ ساز کامیابی پر بحث جاری ہے۔ کامیابی کا سب کو یقین تھا مگر اتنی بھاری اکثریت سے وہ دوبارہ برسر اقتدار آئیں گے اس کا شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ کل ٹائم میگزین نے ٹائٹل اسٹوری مودی پر دی تھی جس کی سرخی تھی ”India’s Divider in Chief“۔ جس پر کافی ہنگامے ہوئے۔ اور جیسے ہی انتخابی نتائج کے اعلان ہوئے اُسی ٹائم میگزین نے مودی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے ہندوستان کو متحد کیا جیسا کسی اور وزیر اعظم نے نہیں کیا۔ بی جے پی کی کامیابی دراصل نریندر مودی کی شخصیت پر ہوئی ہے۔ ایسا میڈیا اور بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی کی کامیابی دراصل آر ایس ایس کی شبانہ روز محنت، اس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ آر ایس ایس نے حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد بی جے پی کی کامیابی کے لئے نہ صرف حکمت عملی بنائی بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے غیر معمولی محنت کی۔ سنگھ پریوار کے کارکن گاؤں، گاؤں، گلی گلی، گھر گھر پہنچے۔ انہوں نے ہر ووٹر کی تھوڈی کو ہاتھ لگایا۔ بزرگوں سے عاجزی کی۔ نوجوانوں کو ان کے مستقبل کے تحفظ کا یقین دلایا اور ووٹر کو گھر سے پولنگ بوتھ تک پہنچایا۔
سنگھ پریوار کے ایک سرکردہ کارکن نے انتخابی نتائج کے بعد یہ انکشاف کیا کہ جس وقت انتخابات میں حصہ لینے والے این ڈی اے امیدواربھی تھک کر سورہے تھے‘ اس وقت آر ایس ایس کے کارکن جاگ رہے تھے۔ اور رائے دہندوں کو این ڈی اے کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے آمادہ کررہے تھے۔ سنگھ پریوار نے جس طرح سے ہندوؤں میں ذہنی اور فکری انقلاب برپا کیا اس تنظیم سے لاکھ اختلافات کے باوجود اس کی تعریف کرنی پڑی۔ یقینا ٹائم میگزین نے صحیح لکھا ہے‘ مودی نے جو کام کیا ہے وہ ہندوستان کے کسی لیڈر نے نہیں کیا۔ انہوں نے ہندوؤں کو ذات پات سے بھید بھاؤ سے آزاد کیا۔ برہمن اور شودر کو ایک کیا اور سب نے مل کر بی جے پی کو کامیاب کیا۔ سنگھ پریوار کی تنظیمی صلاحیت‘ اس کا نیٹ ورک کیسا ہے اس کا 2014 اور 2019 کے انتخابات میں اندازہ ہوچکا ہے۔ آج ہر شعبہ حیات میں وہ غالب ہیں‘ عدالت کے ججس، وکلاء، پولیس، فوج سے لے کر نصب و نسق میں سنگھ پریوار سے وابستہ یا اس کی آئیڈیالوجی سے اتفاق کرنے والے موجود ہیں ورنہ سابق فوجی، پولیس‘ سربراہ یا عہدیدار ریٹائرمنٹ کے فوری بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار نہ کرتے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دوران ملازمت وہ ذہنی طور پر بی جے پی سے وابستگی کی تیاری کرچکے ہوتے ہیں۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد کابینہ کی تشکیل سے پہلے نریندر مودی اور امیت شاہ نے آر ایس ایس کے سربراہ سے مشاورت کی۔ کیوں کہ ہندوستان کا وزیر اعظم و صدر جمہوریہ‘ کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ یا کابینی وزراء کا انتخاب آر ایس ایس سربراہ سے مشورہ کے بغیر ممکن نہیں۔ آر ایس ایس کا ہندوستانی سیاست پر ایسا ہی اثر ہے جیسا عالمی سطح پر عالمی طاقتوں پر مختلف ممالک کے سربراہوں پر فری میسن کا اثر ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فری میسن نے یہودیوں کو دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ثابت کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک کے سربراہ چاہے وہ کسی اسلامی مملکت کے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں‘ کسی نہ کسی طرح سے فری میسن سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح یہودیوں نے 1870ء میں یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تعلیم، گولڈ مارکیٹ اور اقتدار میں اپنی برتری کی جائے گی اور اسی کے تحت ایک وسیع تر یہودی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پہلے انہوں نے دنیا بھر میں یہودیوں کو ایک مظلوم قوم کے طور پر پیش کیا۔ دنیا کی ہمدردی حاصل کی اور پھر آہستہ آہستہ وہ خود ظالم بن گئے۔ آج فری میسن کی رضا مندی کے بعد کسی ملک کا سربراہ زیادہ عرصہ تک رہ نہیں سکتا۔ بالکل اُسی طرح آر ایس ایس نے اُس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ بنایا اور قریب قریب 93سال تک محنت کی۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ اسکی کامیابی کا راز اس کی اجتماعی قیادت ہے۔ اس میں خاندانی وراثت کا نظام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1925ء میں جب اس کی بنیاد ڈالی گئی تھی تب سے لے کر آج تک یہ لمحہ بہ لمحہ مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ کبھی اس پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی مگر یہ محض ایک دکھاوا تھا۔ کیوں کہ پابندی عائد کرنیوالے بھی آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو ماننے والے تھے۔
2014ء اور پھر 2019ء میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کے بعد سب سے زیادہ کسی نے اپنے آپکو بے وزن بے قیمت محسوس کیا ہے تو وہ ہندوستانی مسلمان ہیں۔ مودی یا بی جے پی کی کامیابی چاہے کسی بھی وجہ سے کیوں نہ ہوئی ہو‘ ای وی ایم کرشمہ تھا یا بقول اسد اویسی ”ا ی وی ایم سے نہیں بلکہ مودی نے ہندوؤں کے ذہنوں سے چھیڑ چھاڑ کی اور اسی کا نتیجہ سامنے آیا ہو“ جس بھی نتائج اٹل حقیقت ہے کہ اب رونے دھونے سے کچھ حاصل ہرنے والا نہیں ہے۔
انتخابی نتائج کے بعد ایک خیال بار بار ضرور ذہن میں اُبھرتا رہا کہ آخر ہندوستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20کروڑ ور غیر سرکاری ریکارڈ کے بغیر 36کروڑ مسلمانوں کی آر ایس ایس جیسی کوئی تنظیم کیوں نہیں؟ جو مسلمانوں کی ذہنی اور فکری تربیت کی ذمہ داری قبول کرے۔ ہوسکتا ہے کہ ہر ریاست میں ایسی تنظیمیں ہوں گی مگر ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ جو تنظیمیں مسلمانوں کے فکری انقلاب کیلئے ذمہ دار سمجھی جاتی تھیں انہیں مختلف دہشت گردی کے واقعات میں ملوث قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کیلئے ان پر پابندی عائد کردی گئی۔یوں تو ہر دور میں ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں قوم کے مصلح اور ہمدرد رہے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی معاشی ترقی اور سیاسی شعور کی بیداری کیلئے تحریکات چلائیں، تنظیمیں قائم کیں۔ مسلم مجلس مشاورت، تعمیر ملت، مجلس اتحادالمسلمین ان میں قابل ذکر ہیں
آج ملک کے جو حالات ہیں‘ یقینا تقسیم وطن کے فوری بعد کے حالات سے بدتر تو نہیں ہیں۔ اُس دور میں جب مسلمان اپنی شناخت ظاہر کرنے کیلئے ڈرتا تھا اس دور میں دوسری ریاستوں کا تو راقم الحروف کو اندازہ نہیں ہے مگر جہاں تک حیدرآباد یا جنوبی ہند کا تعلق ہے اس دور میں ایک طرف کل ہند مجلس تعمیر ملت نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے ان کا حوصلہ بڑھانے عزت اور وقار کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کی ترغیب دی تو دوسری طرف مجلس اتحادالمسلمین نے بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں اور ذکر الٰہی کے محفلوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اُن کے ماضی سے واقف کروایا۔ اور ان میں سیاسی شعور بیدار کیا۔
مجلس آج ایک طاقتور سیاسی جماعت ہے جسے حیدرآباد کے مسلمانوں کی اکثریت پسند کرتی ہے اور اس حق میں ووٹ کا استعمال بھی کرتی ہے مگر حالیہ عرصہ کے دوران مسلم رائے دہندوں کو انتخابات سے دلچسپی نہیں رہی۔ حالانکہ وہ ہر حال میں اس جماعت کی کا میابی چاہتی ہے۔ چوں کہ ووٹرس کو گھر سے پولنگ بوتھ تک لانا اصل کارنامہ ہے۔ جس میں مجلس کے بشمول سبھی مسلم اور سیکولر جماعتیں ناکام رہیں۔ تعمیر ملت تقریباً ختم ہوچکی ہیں‘ اب اس کا وجود صرف سالانہ جشن رحمت للعالمین اور یوم صحابہ تک محدود رہ گیا ہے۔ اور بھی مسلم جماعتیں کاغذی سطح پر ہیں۔ ان کے قائدین باصلاحیت ہیں مگر ان کے پاس وسائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ چاہتے ہوئے کچھ نہیں کرسکتے۔ موجودہ حالات میں کیا ایسا ممکن نہیں کہ مسلمانوں کی ایسی غیر سیاسی جماعت بنائی جائے جو آر ایس ایس کی طرح فرقہ پرست نہ ہوں مگر اس کی طرح منظم ہوں جس سے وابستہ عہدیدار ایک مخصوص میعاد تک اپنے عہدوں پر فائز رہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر مسلم جماعتوں کے سربراہ قبر میں جانے تک اپنے عہدوں پر برقرار رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اُن جماعتوں سے وابستہ نوجوان نسل آہستہ آہستہ دور ہوتی جاتی ہے۔ ایک ایسی مسلم جماعت کی ضرورت ہے جس کی قیادت اجتماعی ہو‘ جس میں شوری کا نظام ہو۔ اگرچہ کہ جماعت اسلامی ہے‘ مگر عقائد کی بنیاد پر یہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرسکتی۔ آج ایسی جماعت کی ضرورت ہے جس میں دیوبندی مسلک کے ماننے والے بھی ہوں‘ بریلوی مسلک پر چلنے والے بھی ہوں‘ اعتدال پسند بھی اور شدت پسند بھی۔ ان کے عقائد کے اصول ان کے ذاتی ہوں۔ جب مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کا معاملہ آجائے تو وہ متحد ہوکر کام کرے۔ ان میں قیادت اور شہرت کی حرص نہ ہو بلکہ اپنے قوم کے لئے ایثار مرمٹنے کا جذبہ ہو۔
جن میں ملت کے نام پر چندے، عطیات اکٹھا کرکے اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی فکر نہ ہو بلکہ پوری ملت کو جگانے اور اسے مستحکم بنانے کی جستجو ہو۔ اس تنظیم کے لئے کام کرنے والے بے لوث کارکنوں‘ کی گذر بسر کے لئے تنظیم کی جانب سے تنخواہیں مقرر کی جائیں تاکہ معاشی فکر سے آزاد ہوکر وہ قوم و ملت کے لئے کام کرسکیں۔ اس تنظیم کے اثرات میڈیا پر بھی ہوں‘ سیاست دانوں پربھی‘ عدلیہ پولیس ہر شعبہ حیات میں بھی۔ یقینا آج یہ بات خیالی سی لگ رہی ہو مگر ناممکن نہیں۔ ا سکے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے وابستہ ہر فرد چاہے وہ کسی بھی عمر کا کیوں نہ ہو اپنی اس تنظیم کے اصولوں پر چلتا رہے۔ آج آر ایس ایس کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ صبح 4بجے سے وہ اٹھ کر پریڈ کرتے ہیں‘ اپنی صحت پر توجہ دیتے ہیں اور جس قوم کو علی الصبح اٹھنے کی تاکید کی گئی ہے وہ قوم چار بجے رات تک جاگتی ہے‘ فجر سے پہلے سو جاتی ہے۔ مسلمانوں کو پریڈ پر پابندی ہوسکتی ہے۔ مگر ان کی اسپورٹس سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں ہوسکتی۔ مارشل آرٹس سیکھنے پر کوئی پابندی نہیں صبح سویرے دوڑنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ جسم مضبوط ہوگا تو دماغ بھی تازہ رہے گا۔ اور ایک صحت منت فرد صحت مند سماج کی اکائی ہے۔ اور صحت مند سماج سے الجھنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوسکتی۔ اگر واقعی حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو پہلے ہم اپنے گھر سے شروعات کریں۔ اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔ مایوسی کے خول سے نکلنے کے لئے ہم اپنے بچوں کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف کروائیں۔ انہیں ہر اُس ہنر سے واقف کروائیں جس میں مہارت کی بدولت ہمارے اسلاف نے دنیا پر حکومت کی تھی۔

You may also like

Leave a Comment