آرایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر کچھ دنوں پہلے اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کرلوگوں کو چونکا دیا تھاکہ ہنگامی صورت حا ل میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20لاکھ سوئم سیوکوں (رضاکاروں) کو جمع کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جبکہ فوج کو صف بندی اور تیاری میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں، وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھےکہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے-
آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔
آر ایس ایس میں شامل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودا بین کو شادی کے چند سال بعد ہی چھوڑدیاتھا، آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ غیر شادی شدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو شاکھا کہتے ہیں، ایک شہر یا قصبہ میں کئی شاکھائیں ہوسکتی ہیں، ہفتےمیں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ شاکھائیں
ڈرل کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو کراٹےاور یوگا کی مشق کا اہتمام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں-
اس تنظیم کی بنیاد ہی فرقہ واریت ، جمہوریت کی مخالفت اور فاشزم پر رکھی گئی ہے، سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے اس لئے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجائے اس نے 1951میں جن سنگھ اور پھر 1980میں بی جے پی تشکیل دی۔
بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماؤلی چندر ا شرما ، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔
اڈوانی کا قصور تھا کہ 2005میں کراچی میں اس نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔
آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔
جیسےکہ سیاسی میدان میں بی جے پی،حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (دوسرے لفظوں میں غنڈہ گردی کے لیے) بجرنگ دل ، مزدورں یا ورکروں کے لیےبھارتیہ مزدور سنگھ ، دانشوروں کے لیے وچار منچ ،
غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے، حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔
ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے اور ان کے لئےا سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔
آج کے دن اس کی کل شاکھاؤں کی تعداد84877 ہے، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں اور ہندو تہذیب و ثقافت کے نام پر دقیانوسیت اور توہمات و تخیلات کا پابند بناتی ہیں، پوری دنیا میں زبردستی منواسمرتی نافذ کرنے اور لوگوں کو زبردستی اس کا پابند کیسے بنایا جائے،یہ سکھایا جاتا ہے، برین واش کرکے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اچھوت اور مجرم بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
20 سے 35 سال کی عمر کے تقریباً 1/ لاکھ نوجوانوں نے پچھلے ایک سال میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی ہے،اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میں اپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے۔
قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک تیار کیے ہیں۔
ہندوستان سے باہر ان کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں، یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔
اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگانڈا،ماریشس اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے۔
بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو ہیں ، جو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیر اعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں۔
( منقول ازمعروف قلمکار اور قانون داں اے جی نورانی کی کتاب The RSS: A Menace to India)
آر۔ایس۔ایس کے خلاف محاذ کھڑا کرنے سے پہلے اس تنظیم کے بارے میں جاننا ضروری ہے:
آج راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) کا نیٹ ورک دیکھ کر
Cambridge; Harvard، Oxford ، IIM ، IIT، BIT، NIT
حتیٰ کہ پوری دنیا حیران ہے، آخر کیوں ؟ آپ بھی جان لیجئے! ملک کے صدر، وزیر اعظم ، نائب صدر ، وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ اور دیگر کئی وزرا، علاوہ ازیں
18 وزیر اعلیٰ ، 29 گورنر ،
01 لاکھ شاخوں میں 15 کڑور خدمات انجام دینے والے ، 01 لاکھ سرسوتی ودیا مندرمیں کم و بیش 01 کروڑ طلبا۔02 کروڑ بھارتیہ مزدور سنگھ کے اراکین ۔ 01 کروڑ ABVP کے خدمت گذار ۔ 15 کروڑ بی۔جے۔پی کےممبران ۔ 09 ہزار پورے طور سے اور 07 لاکھ سابقہ فوجی بطور معاون ۔01 کروڑ وشو ہندو پریشد کے اراکین ۔ 30 لاکھ بجرنگ دل کے ہندوتو خادم ۔18 صوبوں میں 5۔1 لاکھ امدادی،303 لوک سبھا ممبران ، 68 راجیہ سبھا ممبران،
1200 اشاعتی اداروں سے شائع ہونے والے نامور رسالے ، اخبار مندرجہ ذیل :
ونواسی کلیان آشرم ، ونبندھو پریشد، سنسکار بھارتی، وگیان بھارتی ، لگھواودیوگ بھارتی ، سیوا سھیوگ ، سیوا انٹرنیشنل، راشٹریہ سیویکا سمیتی ، آروگیے بھارتی ، درگا واہنی، سماجیک سمرستہ سمیتی۔ سم درشٹی وکاس اینو انوسندھان منڈل۔آرگنائزر۔ پنچ جنیہ۔ شری رام جنم بھومی مندر نرمان نیاس ۔ دین دیال شودھ سنستھان۔ بھارتیہ وچار سادھنا۔ سنسکرت بھارتی۔ بھارت وکاس پریشد۔ جموں کشمیر سٹڈی سرکل۔ درشٹی سنستھان۔ ہندو ہیلپ لائن۔ ہندو سنویے سیوک سنگھ۔ ھندو مننانی۔ اکھل بھارتیہ ساہتیہ پریشد۔ وویکانند کیندر۔ ترون بھارت۔ ھندوستان سماچار۔ وشو سنواد کیندر۔ جن کلیان پیڈھی۔ اتییھاس سنکلن سمیتی۔ استری شکتی جاگرن۔ ایکل ودیالیہ۔ دھرم جاگرن۔ پتت ہاون سنگھٹنا۔ ھندو ایکتا۔ساورکر ادھیان۔
بھارت بھارتی۔ شیواجی ادھیان۔ اور ایسی کئی دیگر تنظمیں جو ہندو مذہب کی بقاوسلامتی کے لئے مشترکہ طور سے کام کر رہی ہیں ۔ شب و روز ہندووں کے motivation کا کام منظم طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔ آر۔ایس۔ایس کے تقریباً 10 لاکھ افراد نے مذہب کے حفاظت کے لئے تا حیات غیر شادی شدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندوستان کے تقریبا سبھی مندر میں اس تنظیم کے لئے پیسہ اکٹھا کیا جاتا ھے اس کے علاوہ بیرونی ممالک سے بے حساب پیسہ تنظیم کے کھاتوں میں جمع ہوتا ہے۔
آنے والے وقت میں ہمارے سامنے ایک بہت بڑی چنوتی ہے، ہمارے سماج میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب تاجر پیشہ افراداپنے آپکو محفوظ سمجھ رہے ہیں، جو مستقبل کا سراب ہے، اس لئے بہت ضروری ہے کہ ہم سب مل کر اتحاد کو قائم کریں اور کوئی تفریق کئے بنا سماج کے سبھی لوگوں کے دکھ درد کا حصہ بنیں، اپنی سوچ کا دائرہ بڑھائیں کہ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے!!