روزہ کی مقبولیت ایمان و احتساب کے ساتھ مشروط ہے. جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دییے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ احتساب کس طرح کیا جائے؟ احتساب کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم غور کریں، اپنا جائزہ لیں کہ روزہ کے جو تقاضے ہیں وہ پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ روزہ رکھنے کے نتیجے میں جو صفات ہمارے اندر پیدا ہونی چاہئیں وہ صفات پیدا ہو رہی ہیں یا نہیں؟
روزہ ہمارے ایمان کی کسوٹی ہے. حالت روزہ میں ہم تنہائی میں بھی کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں گویا ہمیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے. یہ تصور بسا اوقات دیگر معاملات میں قولی اعتبار سے نہ سہی عملی اعتبار سے کمزور ہو جاتا ہے. ہم میں سے بیشتر لوگ عام دنوں میں بااطمینان غیبت کرتے ہیں، دوسروں کا حق غصب کر جاتے ہیں، چھوٹ بول دیتے ہیں، رشتہ داروں سے قطع تعلق کر بیٹھتے ہیں،اس وقت اگر ہمارے اندر یہ تصور پیدا نہیں ہو پا رہا ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے یا ہمیں اس کے سامنے جوابدہ ہونا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ روزہ میں تنہائی میسر آنے کے باوجود ہم نے کھانا پینا چھوڑے رکھ کر اپنے ایمان کا ثبوت تو پیش کر دیا لیکن احتساب کے عمل سے خود کو نہیں گزار سکے۔
روزہ ہمیں قوت برداشت سکھاتا ہے۔مسلسل کئی گھنٹے بھوکے رہنے کے نتیجے میں ہمیں ان لوگوں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہوتا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں. ہمارے گاؤں محلے میں اب بھی کئی گھر ایسے ضرور مل جائیں گے جہاں دو وقت روٹی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ اگر روزہ رکھنے کے بعد بھی ہم ان افلاس زدہ افراد کی تکلیف کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو احتساب کا عمل ناقص رہ جائے گا۔
ہمارے آس پاس بے شمار بچے اچھی تعلیم سے محروم ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں بھی ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو مضطرب ہو اٹھتے ہیں. اپنی زبان اور قلم سے مظلومین کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے آس پاس کے بے شمار مظلومین اور محرومین پر ہماری نظر التفات نہیں ہو پاتی ہے. ہم صرف اپنے آس پاس کا جائزہ لیں تو ہمیں بے شمار ایسے لوگ مل جائیں گے جو ہماری توجہ کے مستحق ہیں. روزہ کے احتساب کے نتیجے میں ایسے لوگوں کے تئیں عملی اعتبار سے پیش قدمی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے روزے مقبولیت کے معیار کو پورا کر رہے ہیں۔
روزہ کے ساتھ ایمان و احتساب کی شرط کوئی معمولی شرط نہیں ہے۔ یہ شرط اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ عملی اعتبار سے ہم ان شرائط کو کس حد تک پورا کر رہے ہیں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قول حق ہے کہ "جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو” تو ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ کیا ہم اس قول حق کو اپنے عمل سے اس طرح ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے لیے جس تھان کے کپڑے خریدے ہیں اپنے گھر میں کام کرنے والے/والیوں اور ماتحتوں کے لیے بھی اسی تھان سے کپڑے خرید سکتے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو جس اسکول میں پڑھاتے ہیں اسی اسکول میں اپنے ملازم کے بچے کو پڑھا سکتے ہیں؟ علی ھذا القیاس دیگر معاملات میں بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ روزہ کا انعام احتساب کے ساتھ مشروط ہے. اگر ہم انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو احتساب کے عمل سے گزارنا ہوگا۔