٭ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
اس بات کا اندیشہ تو پہلے سے ہی تھا کہ پورے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف جس طرح احتجاجی جلسوں اور مظاہرے میں اضافے ہو رہے ہیں اس سے حکومت پریشان ہے۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے کہ وہ تمام تر جمہوری آوازوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔لیکن بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یومِ شہادت کے موقع پر جامعہ جیسا واقعہ رونما ہوگا اس کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔البتہ اس کا اشارہ تو پہلے ہی مل گیا تھا کہ دہلی کے انتخابی جلسوں میں شاہین باغ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور وہاں کی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش ہو رہی تھی باوجود اس کے وہاں کی تحریک کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ گذشتہ ایک ماہ سے چلنے والی یہ جمہوری تحریک اپنے صحیح وسالم خطوط پہ چل رہی ہے۔ آئین کی حفاظت اور جمہوریت کی آواز کو زندہ رکھنے کے لئے اس تحریک نے پورے ملک میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ 30/ جنوری کو پورا ملک بابائے قوم کی شہادت کو یاد کر رہا تھا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہا تھا عین اسی وقت جامعہ نگر میں راج گھاٹ کو کوچ کرنے والی تحریک میں شامل ایک معصوم طالب علم کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی جان بچ گئی ہے اور وہ زندگی وموت کے درمیان زیر علاج ہے۔ گولی چلانے والا رام بھکت گوپال دہلی شہر کا نہیں ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق وہ اتر پردیش کے جیور کا ہے اور وہ بارہویں درجہ کا طالب علم ہے۔ ظاہر ہے اس وقت پورے ملک میں جس طرح منافرت کی فضا قائم کی جا رہی ہے اس میں اسی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں کہ گذشتہ تیس برسوں میں شدت پسند تنظیموں نے اپنے ہزاروں تعلیمی اداروں میں اس کی ذہن سازی کی ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ قاتل دن کے اجالے میں ہواؤں میں اپنی ریوالور لہراتا رہا اور دہلی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے فوٹیج میں دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی پولیس کس طرح گولی چلانے والے کو ہاتھ باندھے دیکھ رہی ہے۔ اب تفتیش کے بعد جو بھی نتیجہ آئے لیکن اتنی بات توطے ہے کہ اب پورے ملک میں چلنے والی جمہوری تحریک کو تشدد آمیز بنانے کی شروعات ہوگئی ہے۔ملک کے نامور وکیل پرشانت بھوشن کو بھی انڈیا گیٹ پر گرفتار کیا گیا کہ وہ گاندھی جی کی شہادت کو یاد کرنے کے لئے انڈیا گیٹ پر ”جن گن من“ گانے کے لئے پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء بھی تھے اور وقار شہری بھی۔لیکن دہلی پولیس انہیں گرفتار کر لے گئی۔ اسی طرح ملک کے مختلف حصے میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف چلنے والی تحریک میں شامل ہونے والے کئی لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیاہے۔یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ کسی کو بھی ملک مخالف نعرہ بازی کرنے یا ملک کی سا لمیت کے خلاف تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس بات کا خیال مظاہرین کو بھی رکھنا ہوگا کہ ہم آئین کی حفاظت کے لئے جمہوری طریقے سے ہی اپنا احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ اب جب کہ اس تحریک کو بدنام کرنے کے لئے یا پھر دبانے کے لئے نئی سازش شروع ہوگئی ہے تو ایسی صورت میں مظاہرین کو اور بھی چاق وچوبند اور ہوشیار رہنا ہوگا کہ جامعہ کا واقعہ کہیں بھی دہرایا جا سکتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کیوں کہ اس طرح کے لوگوں کے سر پر کس کا ہاتھ ہے وہ پوشیدہ نہیں ہے۔جس طرح دہلی کے انتخابی جلسوں میں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز نعرہ بازی و بیان بازی ہو رہی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب ملک میں نظم ونسق نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ فکر مندی کی بات تویہ ہے کہ قانون کے محافظ بھی تماشائی بن گئے ہیں بلکہ وہ غیر جمہوری طریقہ کار کے علمبرداروں کے معاون ہوگئے ہیں۔ اتر پردیش کے لکھنؤ میں پولیس کا رویہ کیا ہے وہ سب سامنے ہے اور دہلی میں کیا ہو رہاہے وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ مگر ہمیں اس ملک کو بچانا ہے کہ ملک کی سا لمیت ہی ہمیں امن وسکون عطا کر سکتی ہے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور نفرت کی سیاست کو ناکام کر سکتے ہیں۔صرف اور صرف عدمِ تشدد اور جمہوری طریقے سے۔یہ اور بات ہے کہ ملک میں ظاہری طورپر گاندھی کی مالا جپنے والے گوڈسے کی فکر ونظر کے علمبردار بن گئے ہیں اور ملک میں ہزاروں گوڈسے کو پیدا کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ ملک اب بھی گوتم بدھ اور گاندھی کا ہے، رام اور نانک کا ہے۔ یہاں اب بھی چشتی کے نام لیوا موجود ہیں اور یہ سب ستیہ اور اہنسا کی راہ کو بھولے نہیں ہیں۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ایک وہ تیس جنوری تھی جب 1948ء میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرونے باپو کے قتل کے بعد کہا تھا کہ ”روشنی گم ہوگئی ہے“۔ لیکن ہزاروں لوگوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ روشنی ہمارے دل میں مکیں ہے کہ روشنی کا کبھی قتل نہیں ہوسکتا۔ آج جب 30/ جنوری 2020ء کو گوڈسے ثانی نے ایک بار پھر چراغِ گاندھی کو بجھانے کی کوشش کی ہے تو چہار طرف سے صدا بلند ہو رہی ہے کہ ہم چراغِ امن کو بجھنے نہیں دیں گے۔ خواب باپو کو شرمندہ تعبیر کرکے رہیں گے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی کو ان کی 73ویں یومِ شہادت پر اس نظم کے ساتھ خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں کہ گاندھی ایک روشنی کا نام ہے اور روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا۔اس نظم کا عنوان بھی یہی ہے کہ ”روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا
روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!
(گاندھی جی کی 73ویں یوم شہادت پر)
ایک وہ تیس جنوری تھی /ایک یہ تیس جنوری ہے /اس دن کسی نے کہا تھا/”روشنی چلی گئی ہے ”/کہ سچ مچ/تا حد نظر پھیل گئی تھی تاریکی /
مگر نکل پڑا تھا ایک کارواں /شہر شہر،قریہ قریہ/کہ یہ سچ ہے /مسیحائے وقت رہا نہیں /لیکن / ہزاروں دل میں جل رہی ہے/
اس دیوتا ئے امن کی جیوتی /کہ روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!/اور / آج بھی تیس جنوری ہے /چہار طرف ہے آندھیوں کا زور /
اور لاکھوں چل پڑے ہیں / اس قطب نما کی جانب /کہ ضد ہے ان کی بھی /چراغ حیات جلانے کی /تیرگی جمہور مٹانے کی /
مگر پھر وہ اپنی تاریخ دہرا گیا ہے /فرمان شاہی سنا گیا ہے /ارادہئ وقت بتا گیا ہے /مگر آئینہ مسکرا رہا ہے /کہ اسے یہ معلوم نہیں /
اب بھی دیوتائے امن کی جیوتی /ہزاروں دل میں جل رہی ہے /کہ روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)