حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کانپور
انسان کی شخصیت سازی میں کئی افراد کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ اس میں سب سے پہلا کردار والدین کا نظر آتاہےاور ان کے بعد اساتذہ کا کلیدی کردار رہتا ہے ۔ یہ کردار بہت اہم ہے، اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے بغیر انسان کی تکمیل ہی نہیں ہوسکتی، کیوں کہ یہ استاد ہی ہے جو ایک انسان کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے قالب میں ڈھالتا ہے، جہالت کی تاریکی سے نکالکر علم کے روشنی عطا کرتا ہے، لاشعور سے نکال کر شعور سے نوازتا ہے، کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے کراتا ہے، مادی و روحانی سیر کراتا ہے، زندگی کے عظیم مقصد سے واقف کراتا ہے، خالق کی عظمت دلوں میں موجزن کرتا ہے، انسانی حقوق سے واقف کراتا ہے، غرض کہ ایک انسان کی مادی، روحانی، اخلاقی، سماجی، ہر طرح کی نشو و نما ایک استاد کی ہی رہین منت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ قوم کے معمار کہلاتے ہیں، کسی بھی قوم کا مستقبل اس کے قابل استاتذہ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ہر عظیم انسان کی زندگی میں ایک استاد ایسا ضرور رہا ہے جس نے اس کو عظیم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صحابہ کرام جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، اگر ان کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں تو معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے، آپ نے ان کی تعلیم وتربیت اس انداز سے کی تھی کہ اسلام لانے کے بعد وہ کارنامے انجام دیے کہ پوری دنیا حیرت و ششدر رہ گئی، مختصر سی مدت میں آپ نے اپنے وفا دار شاگردوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی عظیم ریاست قائم کردی کہ اس وقت کی موجودہ دنیا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی ۔
اگر انسان کی زندگی سے استاذ کا تصور نکال دیا جائے تو انسان ویرانیت اور جہالت کا مجموعہ بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک استاد کی غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے، ایک مثالی استاد اور شاگرد کے درمیان محبت کا ایک ایسا رشتہ پروان چڑھتا ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ استاد کا ادب و احترام کرنا ہر شاگرد پر اخلاقا فرض ہے، ان کی عظمت و محبت ہمیشہ دلوں میں رہنا چاہیئے ، ایک استاد اور شاگرد کے درمیان پایے جانے والی محبت فطری ہوتی ہے، اس محبت کو کسی مشین یا کسی ٹیکنیک سے پیدا نہیں کیا جاسکتا، یہ محبت دنیا کی انوکھی محبت ہے ۔ ایک ایسی محبت ہے جو نہ کسی رسم و تقریب اور نہ کسی خاص دن کی محتاج ہے کہ اس دن اپنے اساتذۂ کو خراج عقیدت پیش کیا جائے،کچھ محبت کے گیت گنگنا لیےجائیں، رقص و موسیقی کی محفلوں کا انعقاد کرکے ایک رسمی کیک کاٹ دیا جائے، کچھ ہدیہ و تحائف پیش کردیئے جائیں اور بعد میں حاشیہ خیال سے نکال دیا جائے ۔
جہاں آج کی ترقی پذیر دنیا کاہر شعبہ اخلاق و آداب، سنجیدگی و شائستگی کے بحران کا مسلسل شکار ہے۔ ہر شعبہ میں انسانوں نے احترام و محبت کا سبق بھلا دیا ہے، معاشرہ میں جن کے جو حقوق اور عزت و احترام تھا اس سے کنارہ کش ہورہے ہیں، دنیا کی سب سے عظیم نعمت ماں باپ کی ناقدری کی جارہی ہے، وہیں تعلیم و تعلم کا عظیم شعبہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اساتذہ و طلبہ میں وہ محبت و الفت نظر نہیں آرہی جو ہونی چاہیے، اساتذہ کی بے ادبی و ناقدری کے روح فرسا واقعات آیے دن سامنے آتے رہتے ہیں ۔ آخر استاد اور شاگرد کے اس عظیم رشتے کو گھن کیسے لگ گیے؟ کیا اسباب و عوامل، و محرکات ہیں جو شاگردوں کو اپنے اساتذہ کے خلاف کھڑا کررہے ہیں؟
موجودہ تعلیمی نظام کا اگر جائزہ لیا جائے تو مختلف اسباب وعوامل سامنے آتے ہیں جو اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مستقل دوریاں پیدا کر رہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی وجہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات کا علم کش و اخلاق سوز ماحول ہے، ان درسگاہوں کی نصابی کتابوں سے اخلاقی مواد نکال کر تعلیم کو یکسر تجارتی بنا دیا گیا ہے ، ان کا روحانیت سے رشتہ بالکل منقطع کردیا گیا ہے، محض مادیت کی تعلیم دی جاتی ہے، جس کا لازمی اور حتمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اساتذہ و طلبہ میں کوئی لگاؤ اور محبت باقی نہیں رہ گئی ۔حلقہ تلمذ سے نکلنے کے بعد جانبین میں کسی بھی قسم کا ربط و ضبط نہیں رہتا ہے۔ غیر تربیت یافتہ افراد کا مقام تدریس پر فائز ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے، ایسے افراد کا مقصد انسانوں کو سنوارنا نہیں بلکہ پیسہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے افراد جن کو تعلیم سے محبت ہی نہیں وہ طلبہ کے ساتھ وہ تعلق کیسے قائم کرسکتے ہیں جو ایک استاد اور طالب علم کے درمیان ہونا چاہیے ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے طلبہ کے اندر ذرا سا علم و معلومات میں اضافہ ہوا یا کسی اہم ڈگری سے سرفراز ہوئے، ان کے اندر کبر و غرور پیدا ہوجاتا ہے جو انہیں اساتذہ کی ناقدری پر آمادہ کرنے میں ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ایک وجہ اساتذہ کا منفی رویہ اور کہیں کا غصہ کہیں پر اتارنے کے لیے طلباء کو تختہ مشق بنانا بھی ہے، عمومی مشاہدہ ہے کہ جو اساتذہ الفت و محبت کے ساتھ پڑھاتے ہیں ان کی زیادہ قدر کی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ایک کامیاب شخصیت کے پیچھے مختلف اساتذہ کا کردار ہوتا ہے،لیکن عمومی مشاہدہ ہے کہ انسان اپنے ان اساتذہ کی بہت زیادہ قدر کرتا ہے، جو اعلی کتابیں پڑھاتے ہیں اور ایک انسان کو کرنا بھی چاھئے لیکن اس سے یہ جواز نہیں ملتا ہے کہ اس کی نگاہ میں ان اساتذہ کی قدر و منزلت نہ ہو جنہوں نے اسے بنیادی تعلیم دی، بالفاظ دیگر لکھنا پڑھنا سکھایا۔ حالانکہ بنیادی اساتذہ ہی کا کردار ہے کہ وہ شخص اس لائق بنا کہ اعلی کتابیں پڑھ اور سمجھ سکے۔ لہذا قدر و منزلت اور عزت و احترام میں دونوں یکساں ہیں اور کردار سازی میں دونوں طرح کے اساتذہ کا کردارہے۔
بہرحال، اساتذہ کامیاب معاشرہ کے اہم ستون ہیں۔ ان کی محنتوں اور کاوشوں کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کو ہمیشہ دلوں میں رکھا جائے، ان کی دی ہوئی تعلیم سے ہر تاریک موڈ پر روشنی حاصل کی جائے، وہ درس جو انہوں نے دیا ہے دنیا کو بھی اس سے روشناس کراجایے، ہر قدم پر یاد کیا جایے، اپنی خوشی میں انہیں شریک کیا جائے اور ان کے غم میں شریک ہوا جائے، ان کے لیے دعائیں کی جائیں اور ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی مدد بھی کی جائے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں اور ایک مثالی استاد کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں ۔