اردو کے معروف صحافی،ادیب و شاعر اور متعدد کتابوں کے مصنف و مترجم رضوان اللہ فاروقی صاحب کل صبح انتقال کر گئے۔ ابوالفضل انکلیو،جامعہ نگر،اوکھلا میں ان کی رہایش تھی ،ان کی عمر تقریباً بانوے سال تھی۔ مرحوم کا اصل وطنی تعلق اعظم گڑھ کے کوڑیا پار سے تھا، مگر پچھلی چار دہائی سے زائد عرصے سے دہلی میں مقیم تھے۔ بٹلہ ہاؤس، ذاکرنگر، شاہین باغ و ابوالفضل انکلیو ان کی آنکھوں کے سامنے آباد ہوئے، وہ 1977-78میں اس علاقے میں آکر مقیم ہوئے تھے۔ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے گوشہ گیر ، خلوت گزیں اور اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے؛ اس لیے کم و بیش ستر سال تک سرگرم صحافتی اور ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کے باوجود عوامی، علمی و ادبی حلقوں پر وہ اس طرح نہیں چھاسکے، جس طرح بعض کوتاہ قد ، کوتاہ علم، کوتاہ فہم ، مگر تشہیری حربوں سے آگاہ لوگ چھائے رہتے ہیں ۔ اپنی شخصیت کا پروپیگنڈہ اور تضخیمِ ذات ایک مستقل فن ہے، جس میں عموماً جینوئن عالموں، ادیبوں اور تخلیق کاروں کا ہاتھ خاصا تنگ ہوتا ہے۔ ایڑیاں اچکاکر دراز قد نظر آنے والے لوگ ہمارے معاشرے میں بے شمار ہیں، جبکہ اپنی جگہ جم کر کھڑے ہوتے ہوئے لوگوں سے اپنی بلند قامتی تسلیم کروانے والے معدودے چند ہیں، رضوان اللہ صاحب بھی انھی گنے چنے لوگوں میں تھے۔
ان سے ہمارا تعارف مختلف اخبارات میں ان کے مضامین کے ذریعے کئی سال قبل ہوا، مگر چند ماہ قبل ان کی خودنوشت’اوراقِ ہستی‘ پڑھنے کا موقع ملا، تو ان کی شخصیت اور زندگی کے کئی پہلووں سے خوشگوار آشنائی ہوئی۔ اس عمر میں بھی ان کا ذہن و قلم ایکٹیو تھے اور 488صفحات پر مشتمل مذکورہ خودنوشت 2020میں شائع ہوئی ، جبکہ تبصروں کا ایک مجموعہ تو ابھی چند ماہ پہلے انھوں نے شائع کروایا تھا۔
اس کتاب کو انھوں نے چار اوراق میں تقسیم کیا ہے اور ہر ورق کے ذیل میں اپنی زندگی کے ایک حصے کا احوال بیان کیا ہے۔ ’پہلا ورق‘ ابتدائی حالات،خانگی کوائف ، ددیہالی و ننھیالی خاندان کی تفصیلات، تعلیمی سلسلوں ،جونپورو کانپور کے قیام ،بنارس و دیوریا کی ملازمتوں کے ذکر پر مشتمل ہے۔
’دوسرا ورق‘ ان کی صحافتی زندگی کو بیان کرتا ہے، جس کا باقاعدہ آغاز کلکتہ کے ’عصر جدید‘ سے 1951 میں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ’آزاد ہند‘ اور دیگر اخباروں میں بھی وہ ایڈٹنگ اور ترجمہ نگاری کا کام کرتے رہے۔ یہ حصہ 153 سے 282 صفحات تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں 1951ء سے 1975ء تک کی نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے نشیب و فراز کی داستان انھوں نے لکھی ہے؛ بلکہ اس کے بین السطور میں وہاں کی پچیس سالہ اردو صحافت کی پوری تاریخ سمٹ آئی ہے۔ جن اخباروں(خصوصاً عصر جدید اور آزاد ہند) میں انھوں نے کام کیے، وہاں کے اندرونی حالات، ان کے مالکان اور ملازموں کی کشمکش کی روداد، اخباری دفاتر کے اندر اور باہر چلنے والی بوگس سیاستیں اور ان سب کے ساتھ اس دوران ذاتی زندگی میں ہونے والی اتھل پتھل ؛سبھی کچھ اس حصے میں انھوں نے بیان کیے ہیں۔
کلکتہ میں قیام کے دوران ہی انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے جرنلزم میں پوسٹ گریجویشن کیا، گریجویشن وہ کرائسٹ چرچ کالج کانپور سے کرچکے تھے۔ 1957ء میں عصر جدید کے منیجر اشتہارات بھارتی جی کی معرفت ان کی رسائی امریکی دفتر اطلاعات تک ہوئی اور پھر ایک معقول ملازمت کی راہ نکل آئی، 1975ء تک تو اس کے لیے جزوقتی اردو ترجمہ و ایڈٹنگ کا کام کرتے رہے ، پھر اسی سال انھیں اس کے دہلی دفتر میں شعبۂ اردو کا ذمے دار بناکر بھیجا گیا۔ اپنی سوانح کے ’تیسرے ورق‘ میں ملازمت کے اسی دور کا انھوں نے احاطہ کیا ہے، جو 1992ء تک دراز ہے۔ اس دوران انھیں جن ذاتی واقعات و سانحات سے گزرنا پڑا، پیشہ ورانہ مصروفیتوں کے ذیل میں ملک اور ملک سے باہر جو اسفار کیے اور کس طرح مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، ان سب کا احوال اس حصے میں ہے، جبکہ ’چوتھا ورق‘ انھوں نے اسفار کی روداد کے لیے خاص کیا ہے۔ اس میں خود ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ افغانستان، پاکستان، برطانیہ و امریکہ وغیرہ کے اسفار کی روداد انھوں نے تحریر کی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ پروفیسرفیضان اللہ فاروقی پانچ بھائیوں میں ان کے سب سے چھوٹے بھائی تھے، جن کا 2020میں انتقال ہوا ہے ، وہ جے این یو کے شعبہ عربی سے ریٹائرڈ اور قدیم فاضل دیوبند تھے۔ اسی طرح ابتدائی حصے میں جو خاندان کا احوال انھوں بیان کیا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ اردو کے معروف دانش ور اور نقاد شمس الرحمن فاروقی کا تعلق بھی انھی کے خاندان سے تھا، وہ رشتے میں رضوان اللہ صاحب کے بھتیجے تھے، ان کے چچازاد بھائی خلیل الرحمن صاحب کے بیٹے تھے، شمس الرحمن فاروقی کے دادا مولوی اصغر گورکھپور گورنمنٹ اسکول میں اردو فارسی پڑھاتے تھے اور فراق گورکھپوری کے بچپن کے استاذ تھے۔ اس حصے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا خاندان کافی بھرا پُرا تھا اور بیشتر لوگ دینی و عصری ؛ ہر دو علوم سے آراستہ اور صاحبانِ وقار و اعتبار تھے۔ مجموعی طورپر ان کا خاندان مشرقی یوپی کے زمیندار خاندانوں میں سے ایک تھا۔
اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ رضوان اللہ صاحب نے اس میں زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے اور بہ تدریج و سلسلہ وار اپنا زندگی نامہ تحریر کیا ہے، ایک اور خاص بات یہ ہے کہ چوں کہ وہ ایک دیدہ ور صحافی ہیں اور اخباری صحافت کے علاوہ سفارتی صحافت سے بھی ان کا گہرا رشتہ رہا ہے؛ اس لیے وہ اپنے حالات کے ساتھ مختلف زمانی وقفوں میں رونما ہونے والے قومی و عالمی سانحات وواقعات کا تذکرہ و تجزیہ بھی کرتے ہیں ۔ ایک حسن اس کتاب کا زبان و بیان کی سلاست، شیرینی اور غیر معمولی روانی بھی ہے، چوں کہ رضوان اللہ صاحب محض روایتی قسم کے صحافی نہیں تھے، انھیں اردو کے علاوہ فارسی و انگریزی زبان پر بھی کامل عبور تھا اور ادبی و شعری ذوق بھی بڑا زرخیز تھا؛ اس لیے ان کی اس کتاب میں معلومات ، تجزیوں اور مختلف سیاسی و سماجی حالات پر چشم کشا تبصروں کے علاوہ اسلوب و ادا کی رعنائی و زیبائی بھی بخوبی پائی جاتی ہے۔ پڑھتے ہوئے کہیں طبیعت کو اضمحلال ،بوریت یا تکان کا احساس نہیں ہوتا۔
اس خودنوشت کے علاوہ ان کا ایک شعری مجموعہ’ متاعِ سحر‘ ہے، جس میں اردو نظموں، غزلوں کے علاوہ ان کا فارسی کلام بھی شامل ہے۔ ایک کتاب’ کلکتہ کی اردو صحافت اور میں‘ ہے، جس میں کلکتہ کی اپنی صحافتی سرگرمیوں اور وہاں کی مجموعی اردو صحافت کے اور چھور پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ’ہمارے گاؤں ہمارے لوگ‘ میں اپنے گاؤں اور وہاں کے بعض مخصوص لوگوں کا خاکہ کھینچا ہے۔’اوراقِ مصور‘ ان کی ایک طویل مثنوی اور دو نظموں کا مجموعہ ہے۔’عکس خیال‘ دو لسانی(اردو و انگریزی) نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔’بے ادبیات‘ ان کی ایک دلچسپ کتاب ہے، جس میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور منظومات جمع ہیں، اس کتاب کا مقدمہ پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا تھا ، ابھی وفات سے چند ماہ قبل ان کی ایک کتاب’تبصراتِ کتب‘ شائع ہوئی تھی ، جس میں انھوں نے ایک منفرد تجربہ کیا ہے۔ کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں خود اپنی کتابوں پر مختلف لوگوں کے لکھے ہوئے تبصروں کو شامل کیا ہے، جن کی تعداد سولہ ہے اور دوسرے حصے میں دوسرے مصنفین کی کتابوں پر اپنے تبصرے شامل کیے ہیں اور ان کی تعداد ستائیس اٹھائیس ہے۔
لکھنے کے ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری بھی رضوان اللہ صاحب کا کل وقتی مشغلہ تھا؛ اس لیے انھوں نے پیشہ ورانہ تراجم کے علاوہ خود اپنی بہت سی تحریروں کے انگریزی ترجمے کیے اور دوسرے مصنفین کی متعدد کتابوں کے ترجمے بھی ان کے قلم سے منظر عام پر آئے، ان میں سے ایک اقبال سہیل کی مشہور کتاب’ ربا کیا ہے؟‘ کا انگریزی ترجمہ What is Rebaاور ابوالفضل انکلیو کے بانی ابوالفضل فاروقی کی خود نوشت سوانح’ نشیب و فراز‘ کا انگریزی ترجمہ Ups and Downs خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ پروفیسر مقبول احمد کی متعدد تصانیف اور مختلف نصابی کتابوں کے اردو سے انگریزی ترجمے کیے۔
الغرض رضوان اللہ صاحب کی شخصیت بڑی ذوجہات اور علم و قلم کے کئی گوشوں کو اجالنے والی تھی، زندگی انھوں نے بڑی بھرپور ، بافیض اور ماجرا پرور گزاری ،اردو صحافت کا وقار بن کر رہے اور اپنے پیچھے منثور و منظوم تخلیقات و تراجم کا قابلِ قدر ذخیرہ چھوڑ گئے۔ مضمون کے عنوان میں جو فارسی مصرعہ میں نے استعمال کیا ہے، وہ رضوان اللہ صاحب ہی کی رباعی کا ہے،مکمل رباعی یوں ہے:
ما چراغ ہستیم و پروانہ خودیم
طرفہ خود آگاہ و دیوانہ خودیم
پاسدارِ آبروے دردِ خویش
ما صدف ہستیم و دردانہ خودیم
(ہمیں چراغ ہیں اور ہمیں پروانہ ہیں، عجب یہ ہے کہ ہم خود آگاہ بھی ہیں اور ہم پر دیوانگی بھی طاری ہے، ہم اپنی آبروے درد کے محافظ ہیں، ہمیں صدف ہیں اور ہمیں موتی ہیں)