Home نقدوتبصرہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی ضلع جون پور کے مثالی پچاس سال – حبیب الرحمٰن الاعظمی ابراہیم پوری

مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی ضلع جون پور کے مثالی پچاس سال – حبیب الرحمٰن الاعظمی ابراہیم پوری

by قندیل

جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور

ہندوستان کے دینی مدارس کی اہم اور نمایاں کڑیوں میں مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی ضلع جون پور اپنی روشن تاریخ اور مثالی خدمات کے لیے مشہور و معروف ہے ، جسے عارف باللہ مرشد الامت حضرت اقدس مولانا عبدالحلیم صاحب امبیڈکرنگری (فیض آباد) ثم جون پوری نوراللہ مرقدہ (متوفیٰ: 1420ھ / 1999ء) نے اب سے پچاس سال قبل ماہ صفر 1393ھ مطابق 1973ء میں بڑی جاں فشانی اور بظاہر بڑے مشکل حالات میں قائم کیا تھا۔ الحمدللہ یہ ادارہ روز اول سے ہی اپنے بانی مرحوم کے اخلاص و توکل ، جہد مسلسل اور دعائے نیم شبی کی برکت اور اراکین و اساتذہ و محبّین مدرسہ کی بے پایاں کاوشوں سے ترقیات کی شاہ راہ پر روز افزوں رواں دواں ہے۔

مدرسہ ریاض العلوم کے قیام سے تاحال اس کی جو عظیم الشان دینی و علمی ، فقہی و تاریخی خدمات اور اس کے فضلا و فیض یافتگان کے جو گوناگوں اور ہمہ جہت کارنامے ہیں ، واقعی بڑی ضرورت تھی کہ انھیں کتابی شکل میں مکمل طور پر لکھ کر محفوظ کردیا جائے ، تاکہ جہاں یہ کتاب مدرسہ ہذا کی تاریخ و تاسیس اور تعلیمی و تعمیری ترقیات کو بیان کرے ، وہیں اس کے بانی مرحوم کے حالات ، ادارہ کے قیام و ترقی کے لیے ان کی شبانہ روز جاں فشانی ، مخلص اراکین کی محنت و دل سوزی ، اساتذۀ کرام کے تعارفی حالات اور ان کی لازوال جد و جہد اور تعلیمی و تدریسی خدمات ، ادارہ کے فضلا و فیض یافتگان کا جامع و مختصر تعارف اور فضلائے ریاض العلوم کی دینی و علمی ، ادبی و تاریخی ، سیاسی و سماجی خدمات و مآثر کو بھی عیاں کرے اور ساتھ ہی مستقبل کے لیے ایک علمی و تاریخی دستاویز بھی ثابت ہو ؛ جس کے ذریعہ ادارہ کے وابستگان بھی اپنے مدرسہ کی وسیع تر خدمات کو جان سکیں اور مدرسہ کے فضلاء و فیض یافتگان کے لیے بھی اپنی مادر علمی سے قلبی عقیدت و محبت کے اظہار کا خوبصورت سامان فراہم ہوسکے۔

بڑی خوشی کا مقام ہے کہ مدرسہ ریاض العلوم گورینی ضلع جون پور کے ہی تین فیض یافتہ نوجوان : (1) مولانا مفتی عبید اللّٰہ شمیم صاحب قاسمی اعظمی زیدمجدہ استاذ جامعہ اسلامیہ مظفر پور ضلع اعظم گڑھ ، (2) مولانا مفتی محمد اظہارالحق صاحب قاسمی بستوی زیدمجدہ استاذ و مفتی مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ ، (3) مولانا مفتی محمد طٰہٰ صاحب قاسمی جون پوری زیدمجدہ امام و خطیب دھان باڑی مسجد ، بوری محلہ ، بھنڈی بازار ممبئی ، یہ تینوں حضرات علم و قلم کے میدان کے شہ سوار کہے جاسکتے ہیں ، جو اپنے ادارہ کی تاریخ سے خاصی دل چسپی رکھتے ہیں اور گراں قدر دینی و علمی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ، اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں یہ داعیہ پیدا کیا کہ وہ اپنے مادرعلمی مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے پر ایک یادگار خصوصی دستاویزی کتاب مرتب کرکے شائع کریں ، جو مدرسہ سے متعلق تمام گوشوں کو محیط ہو ، دلوں کے ارادوں نے قوتِ فکر و عمل کو مہمیز لگائی اور اس طرح ایک طویل جد وجہد اور تحریک مسلسل کے نتیجے میں مدرسہ ریاض العلوم گورینی جون پور کی ابتداء سے اب تک پورے پچاس سال کی شان دار ضخیم تاریخ "مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے مثالی پچاس سال” کے نام سے شائع ہوکر گزشتہ دنوں منظر عام پر آگئی۔ فللہ الحمد و لہ المنة۔

کتاب میں موجود اہل علم کے مقالات کو دس گوشوں (مرکزی عناوین / ابواب) میں مرتب کرکے پیش کیا گیا ہے ، گوشہ نمبر ایک کا عنوان ہے: بانی مدرسہ کی زندگی کی چند نمایاں جہتیں ، جس میں آٹھ مقالات شامل ہیں ، جن میں مولانا عبدالحلیم صاحب نوراللہ مرقدہ کے سوانحی حالات و خدمات ، بیعت و سلوک کے منازل اور طریقے ، تعلیمی و تدریسی خدمات ، مدرسہ کے قیام اور تعمیر و ترقی کے لیے قربانیاں اور ملک کے بڑے اداروں سے ان کے خاص اور قریبی تعلقات وغیرہ کو جامع انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس گوشے میں مفتی صفوان احمد صاحب حلیمی قاسمی کا مفصل مضمون "حضرت مرشد امتؒ : آئینہء حیات” بہت پُرتاثیر اور اہم ہے ، دوران مطالعہ کئ جگہ مجھے بھی آبدیدہ ہونا پڑا۔

واضح رہے کہ حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب رحمة اللہ علیہ کے حالات و خدمات پر مدرسہ ریاض العلوم گورینی سے شائع ہونے والے مجلہ "ریاض الجنة” نے بھی آپ کی وفات کے بعد "مرشد امت نمبر” کے نام سے آپ کی سوانحی زندگی اور خدمات کو شائع کیا ہے ، جس کے حوالے کتاب میں بھی جا بہ جا موجود ہیں ، یہ خاص نمبر بشکل پی ڈی ایف بھی موجود ہے۔

گوشہ نمبر 2 میں ریاض العلوم کی تاریخ ، مزاج اور منہاج کا عنوان قائم کرکے پانچ مقالات کو جگہ دی گئی ہے ، جس میں مولانا محمد معاویہ سعدی گورکھ پوری زیدمجدہ کا مضمون "مدرسہ ریاض العلوم کا مسلک و مشرب” بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

گوشہ نمبر 3 میں "مدرسہ کے شعبہ جات کا تعارف ، ان کے امتیازات اور طریقہء کار” عنوان کے تحت مدرسہ کے تعلیمی و انتظامی شعبوں کی تفصیلات ، تعلیمی خصوصیات ، طریقۂ تعلیم ، طلبۂ مدرسہ کی انجمن تہذیب اللسان اور اس کا ترانہ ، طلبہ کے دیواری پرچوں کا اجمالی تذکرہ وغیرہ 22 مقالات کے تحت ذکر ہیں ، جن سے مدرسہ کے شعبوں کی تفصیلی خدمات سامنے آجاتی ہیں۔

گوشہ نمبر 4 کے تحت "شعبۂ افتاء اور فتاوی ریاض العلوم” کو مستقلا الگ سے ذکر کیا گیا ہے ، جس میں چار اہم مقالات ہیں ، جن میں تدریس افتاء اور مفتیان کرام کا منہج نیز فتاوی ریاض العلوم کا تعارف اور اہل علم کی آرا کو ذکر کیا گیا ہے۔

گوشہ نمبر 5 کو "کاروان باصفا” کا عنوان دے کر اس میں 15 مقالات کو شامل کیا گیا ہے ، جن میں مدرسہ کے موجودہ مہتمم مولانا عبدالرحیم صاحب دامت برکاتہم اور اساتذۀ مدرسہ کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اور ریاض العلوم میں خدمات انجام دینے والے اہل علم ، اراکین و اساتذہ کی خدمات کو ذکر کیا گیا ہے۔

گوشہ نمبر 6 کو "پس مرگ زندہ” کا عنوان دے کر اس میں ریاض العلوم گورینی کے جلیل القدر عظیم المرتبت مرحوم اساتذۀ کرام کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے ، جن میں مولانا مفتی محمد حنیف صاحب جونپوریؒ ، مولانا ضیاءالحق صاحب فیض آبادیؒ ، مولانا عبدالرشید صاحب بستویؒ ، مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب قاسمی بھاگل پوریؒ ، حافظ محمد نسیم صاحبؒ ، مولانا اکرام اللہ صاحب فیض آبادیؒ ، مولانا امان اللہ صاحب مظاہریؒ ، منشی عبدالقدوس صاحبؒ ، مولانا حافظ محمد عمر صاحبؒ ، قاری ضیاءالدین صاحبؒ ، مولانا قاری انیس الرحمٰن صاحبؒ ، حاجی رضوان اللہ صاحبؒ اور شاعر اسلام حکیم قاری عبدالسلام صاحبؒ مضطر وغیرہ کے حالات و خدمات موجود ہیں۔ اس گوشے میں کل 16 مقالات ہیں۔

گوشہ نمبر 7 "برگ و بار” عنوان سے ہے ، جس میں تین مقالے ہیں ، جن میں ممتاز فضلائے ریاض العلوم ، ابنائے ریاض العلوم کی تصنیفی اور تدریسی خدمات وغیرہ کو اجاگر کیا گیا ہے۔

گوشہ نمبر 8 کو "مادر علمی کی یاد” عنوان دے کر اس میں چار اہل علم کے مقالات شامل کیے گئے ہیں ، جن میں ادارہ کے فیض یافتگان نے زمانہء طالب علمی کی اپنی حسین یادوں اور نقوش و تاثرات کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے ، اس میں ایک مقالہ "مادر علمی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم” کے عنوان سے مخدوم مکرم قائد قوم و ملت مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی مبارکپوری زیدمجدہ (ناظم اعلی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور) کا بھی ہے ، جو کتاب کے پانچ صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

گوشہ نمبر 9 کے تحت "منظومات” کو جگہ دی گئ ہے ، جس میں مدرسہ کے تعارف پر مشتمل سات نظمیں اور ترانے شامل ہیں۔

گوشہ نمبر 10 کو "اساتذہ و فضلائے ریاض العلوم” کا عنوان دیا گیا ہے ، جس کے تحت شعبہء عربی ، حفظ و قرات اور پرائمری و انگریزی کے سابق و موجودہ اساتذہ ، ملازمین و کارکنان ، اراکین مجلس شوری کے اسمائے گرامی مع سن ہجری و عیسوی مذکور ہیں ، پھر 1404ھ مطابق 1984ء سے لے کر 1443ھ مطابق 2022ء تک کے فضلائے دورہء حدیث اور فضلائے افتاء کے اسمائے گرامی مع ولدیت و سکونت مذکور ہیں اور آخر میں قیام مدرسہ سے سن 1443ھ تک کے شرکائے تجوید و قرات کی تعداد کی ایک اجمالی فہرست سن وار شامل ہے۔

کتاب کا آغاز حضرت اقدس مولانا عبدالرحیم صاحب دامت برکاتہم مہتمم مدرسہ ہذا کے دعائیہ کلمات سے ہوتا ہے ، جس میں حضرت نے اپنے والد گرامی مولانا عبدالحلیم صاحبؒ (بانیء مدرسہ) کی جہد مسلسل بھری زندگی کے ساتھ قیام مدرسہ کے پس منظر پر بھی اجمالی روشنی ڈالی ہے اور آخر میں مرتبین کے کام کی نوعیت کو ذکر کرکے ان کی کاوشوں کی سراہنا کی ہے۔

حضرت مہتمم صاحب کے "دعائیہ کلمات” کے بعد مولانا جمال احمد صاحب ندوی مئوی کا پیغام تہنیت اور مفتی رضوان اللہ صاحب حلیمی کے کلمات تبریک ہیں ، مقدمہ کے عنوان سے مولانا سعادت علی صاحب کی اہم تحریر ہے ، اس کے بعد "عرض مرتبین” کے عنوان سے تینوں مرتبین حضرات کی مشترکہ تحریر ہے ، جس میں مدارس اسلامیہ کی عظمت بھری تاریخ ، مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے قیام اور بانی مدرسہ کی جہد پیہم نیز مدرسہ کی تعمیر و ترقی کا تذکرہ ہے ، اس کے بعد مدرسہ کے قیام کو پچاس سال مکمل ہونے پر مدرسہ کی مثالی خدمات کو کتابی شکل میں مرتب کرنے کے سلسلہ میں اپنی انتھک کوششوں اور طویل محنتوں کا تذکرہ ہے ، ایک جگہ لکھتے ہیں:

"ہمارا یہ خصوصی شمارہ "مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے مثالی پچاس سال” بھی اصطلاحاً مدرسے کی باقاعدہ تاریخ نہیں ہے ؛ مگر اس میں ریاض العلوم کی تاریخ کے جملہ نقوش ثبت کرنے کی بھر پور کوشش کی گئ ہے ، اس شمارے میں 70 سے زائد عناوین پر ماہر و جدید قلم کاروں نے مادر علمی کے تئیں اپنے جذبات دروں کو پرکیف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، موضوعات اور تحریروں کا تنوع ان شاء اللہ قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہوگا۔ کوشش کی گئ ہے کہ مادر علمی کے جملہ گوشوں کو اس کے فضلاء اور فیض یافتگان کی نگاہ سے پیش کیا جائے ، گویا یہ مادر علمی کو اس کے فضلاء کی طرف سے پچاس سال کی تکمیل پر بہترین خراج عقیدت اور پچاس سالہ یادگاری مجلہ ہے۔” (صفحہ 20)

تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب خوبصورت اور پرکشش سرورق ، عمدہ کاغذ اور اعلی طباعت کے ساتھ سال رواں (1444ھ / 2023ء) کے آغاز میں شائع ہوئ ہے ، جس پر کتاب کے مرتبین اور "ابنائے مدرسہ ریاض العلوم گورینی” بہت بہت مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔ ان شاء اللہ یہ تاریخی و دستاویزی کتاب مستقبل کے لیے بھی عظیم سرمایہ ثابت ہوگی۔

راقم السطور حبیبؔ اعظمی کو یہ کتاب رفیق گرامی قدر مرتب کتاب مولانا مفتی اظہارالحق صاحب قاسمی بستوی زیدمجدہ کی جانب سے مولانا عبیداللہ شمیم صاحب اعظمی زیدمجدہ کے ذریعہ رفیق مکرم مولانا محمد شاہد صاحب مظاہری مبارکپوری اور مولانا مفتی محمد سالم صاحب قاسمی سریانوی کے بدست 25/ فروری 2023ء شنبہ کو احیاءالعلوم مبارکپور میں حاصل ہوئ۔ فجزاھم اللہ خیر الجزاء فی الدنیا والآخرة۔

You may also like

Leave a Comment