Home تجزیہ رشتوں کی معنویت اور ٹوٹ پھوٹ کا رجحان – عمیر کوٹی ندوی

رشتوں کی معنویت اور ٹوٹ پھوٹ کا رجحان – عمیر کوٹی ندوی

by قندیل

سماج کو بے شمار مسائل درپیش ہیں، ان میں ایک اہم مسئلہ رشتہ بھی ہے جو عرصۂ دراز سے ٹوٹ پھوٹ اور انتشارکا شکار ہے ۔دن بہ دن اس کا دائرہ سکڑتاجارہا ہے۔ایک وقت تھا جب خاص طور پر ہمارے ملک کے معاشرتی پس منظر میں اس کا دائرہ بہت وسیع تھا۔پورا کنبہ ایک ساتھ رہتاتھا،اس کا ایک نظام تھااور تمام افراد اس سے بندھے ہوتے تھے۔ کنبہ کا سربراہ بزرگ ترین شخصیت ہوتی تھی جو اپنے کنبہ کی سرپرستی کرتی تھی اور ہرمعاملہ میں اس کا فیصلہ آخری ہوتا تھا۔کنبہ کا ہر رشتہ اور ہر فرد اپنا ایک وجود اورمقام رکھتا تھا۔اس کی ذمہ داریاں اور ان کی ادائیگی اس کے کردار کواہم اور دیگر ارکان کے درمیان خاص بناتی تھیں۔کیا چھوٹے کیا بڑے ہر ایک کی تعلیم وتربیت پر سربراہ کی گہری نظر ہوتی تھی۔ہر ایک کی چھوٹی بڑی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشات اور دلچسپیاں بھی اس کی نظر میں ہوتی تھیں۔اس نظام کے تحت بزرگ خاتون صنفی امور کی نگہباں و سپرست ہوتی تھی۔بچیوں کی تعلیم وتربیت، ہنرمندی وسلیقہ مندی، امور خانہ داری سب ہی پران کی توجہ ہوتی تھی۔ خواتین میں جو جس فن میں ماہر ہوتی وہ دیگر خواتین بالخصوص تمام بچیوں کو اسے سکھاتی۔

کنبہ اپنے مضبوط رشتوں کی بنا پر پیچیدہ تر مسائل و معاملات کوہنستے کھیلتے حل کرلیتا تھا۔وہاں ہنسی مذاق اور تفریحات کو بھی ایک خاص جگہ حاصل ہوتی تھی۔لیکن رفتہ رفتہ رشتوں میں دراڑ پڑنے لگی اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے ہوئے یہ انتہائی مختصر ’سنگل فیملی‘ کے دائرہ میں مقید ہوگیا۔میاں بیوی اور بچوں تک محدود یہ ’سنگل فیملی‘بھی بہت دنوں تک شیر وشکر نہ رہ سکی۔مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ پےدرپے آنے والی پریشانیوں نے ’سنگل‘ کو ’تنہائی‘ سے دوچار کر دیا۔پورے سماج میں کسی بھی موقع پر اور کہیں پر بھی ہوں لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھنے کی ضرورت نہیں بس ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈال لیںیہ زبان حال سے بہت کچھ بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔پریشانی، بیچینی، اداسی،غم واندوہ، تفکرات، اندیشے، اجنبیت اور ویرانی کیا کچھ ان چہروں میں نہیں پایا جاتا۔ ہر طرف انسانوں کا بازار ہے، ہجوم اور مجمع ہے۔وسائل اورآرائش کا انبار ہے،اشیاء کی چمک ودمک ہے پران سب کے باوجود اجنبیت اور لاتعلقی کے سبب ہو کا عالم ہے۔رشتوں میں ویرانی اور گہرا سناٹا ہے۔ جھوٹی تسلی کے لیے ہی سہی دو الفاظ نہیں، درد کی دوا نہیں ، مدد کے لئے کوئی ہاتھ نہیں۔

رشتوں کی یہ ٹوٹ پھوٹ ’سنگل فیملی‘میں آکر رکی نہیں، آگے بڑھ کر یہ فرد کو فرد سے جدا کر رہی ہے۔ سماج کی موجودہ صورت حال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بھاگتا دوڑتا سماج اور اس کو قلم اور کیمرے کے ذریعہ قید کرتا میڈیا سب کچھ کھول کھول کر پیش کر رہا ہے۔ اس وقت کوئی بھی اخبار اٹھالیں اور کسی بھی نیوز چینل کو دیکھ لیں ، ایک اچٹتی سی نظر بہت کچھ دکھا دیتی ہے۔ ’سنگل فیملی‘ اپنے داخل میں تار تار ہوتے رشتہ کی وجہ سے بدترین بکھراؤ کی شکار ہے۔والدین اپنے بچوں سے ناراض اور بچے اپنے والدین سےغافل ہیں۔شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جدا سمتوں کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس تعلق سے لوگ ایک دوسرے کے خلاف تشدد کی راہ بھی اختیار کرلیتے ہیں۔حالت تو یہ ہو گئی ہے کہ اولاد، ماں ،باپ ، شوہر، بیوی،ہر ایک دوسرے کو اپنی زندگی سےالگ کرنے سے بھی آگے بڑھ کران کی زندگی لے لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے۔اس طرح کی باتیں پہلے کبھی کبھار ہی سننے میں آتی تھیں پر اب تو روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں، بلکہ الکٹرانک میڈیا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر سوشل میڈیامیں تو ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہیں۔

انسانی سماج میں ٹوٹتے ہوئے یہ رشتے فرد کی ذات اور انفرادی زندگی تک ہی محدود نہیں ہیں۔اجتماعی زندگی میں بھی بدترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔اس کا مشاہدہ ہم گھر سے لے کر بین الاقوامی سطح پر ہر کہیں اور ہرجگہ کرتے ہیں۔خاندان، قبائل، ذات برادری،علاقہ ، رنگ ونسل، وطن، قوم،ملک اور بین الاقوامی وابستگی کی بنیاد پر رشتے ٹوٹ رہے ہیں۔نظریہ، فکر،مذہب، تہذیب و روایات ، توہمات و تصورات کی بنیاد پر بھی انسانی رشتے بدترین انتشار اورتقسیم کا شکار ہیں۔اس تقسیم میںعلاحدگی، لاتعلقی ، نفرت وتشدد اپنے عروج پر ہے۔اس صورت حال کو سب اپنی آنکھوں سے اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف منصوبہ بندی، اقدام ، خون خرابہ ،فتنہ وفساد کیا نہیں ہوتا اور ہم کیا کچھ نہیںدیکھ رہے ہیں اور کیا باقی رہ گیا ہے جس کا انسانوں کو سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔رشتوں کے بکھراؤ اور ٹوٹ پھوٹ کے انتہائی کربناک دور سے گزرنے کے باوجود حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگ اس کے اسباب ومحرکات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

رشتوں کے بکھراؤ کے اس دور میں انتہائی ضروری ہے کہ اس کے اسباب ومحرکات پر توجہ دی جائے اور انہیں سمجھا جائے۔ کسی بھی مسئلہ کا حل صرف اسی صورت میں نکالا جاسکتا ہے جب اس کو سمجھ لیا جائے۔رشتوں میں دراڑ کیوں پیدا ہو رہی ہے،اس کی وجہ صاف ہے۔ لوگ حد سے زیادہ اپنی ذات کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اس سوچ نے انہیں مفاد پرست اور موقع پرست بنا دیا ہے۔ پریشانی اور ضرورت پیش آنے پر ’وقت ‘کا صحیح ’استعمال‘ کرنا خوبی ہے اور ضرورت کا پورا کرلینا اور پریشانی کو دور کرلینا کامیابی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘یہ بات زمانۂ قدیم سے سماج میں بہت مشہور ہے اور وقتا فوقتالوگ اسے دہراتے رہتے ہیں۔لیکن کیا یہ بھی درست ہے کہ مجبوری، پریشانی یا حالات کو اپنے لیے ’موقع‘ خیال کرلیا جائے اور باضابطہ اسے اپنے مفادات کے حصول کےلیے ایک حکمت کے طور پر استعمال کیاجائے۔ یہ دانشمندی نہیں ابن الوقتی ہے جو سماج کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ دوسروں کا خیال نہ رکھنا بلکہ دوسروں کو قربان کرکے بھی اپنے مفادات اور تن آسانی کا سامان فراہم کرنا’موقع پرست‘ ذہنیت کا بدترین مظہر ہے اور اس وقت یہ اپنے شباب پر ہے۔

اخلاقیات کا دیوالیہ پن بھی رشتوں کے بکھراؤ کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔یہ دیوالیہ پن تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کے درمیان فرق کو مٹا دیتا ہے بلکہ اخلاقیات سے آزاد تعلیم تو اس بکھراؤ سمیت موجودہ سماجی تباہی وبربادی میں سب سے بڑا حصہ ڈال رہی ہے۔بدعنوانیوں، تباہ کاریوں اور فحاشی وبے راہ روی میں اخلاقیات سے دست برداری کا اہم رول ہے۔ان کاتباہ کن تماشہ اور فرد سے لے کر عالمی پیمانے پر ان کا کاروبار، پھر اس کاروبار میں دنیا کے بڑے بڑے اداروں، کمپنیوں اور شخصیات کی شمولیت تعلیم سے نہیں اخلاقیات سے کورے لوگوں کا کام ہے۔ تعلیم بلاشبہ ضروری ہے لیکن اخلاقیات سے آزاد نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ہو، یہ زیادہ ضروری ہے۔عدم برداشت بھی بڑا مسئلہ ہےاور رشتوں میں دراڑ کا اہم سبب ہے۔معمولی معمولی باتوں میں لوگ آپا کھودیتے ہیں۔ اعتماد ووفا جنہیں نظر انداز کیا جارہا ہے وہ بھی رشتوں کے اہم اراکین ہیں لیکن صورت حال یہ ہےکہ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے لوگ اس کو بے حقیقت تصور کرتے ہوئے اس سے صرف نظر کرنے لگیں۔ اپنی ذات اور اپنا فائدہ کے تصور نے ایثار وقربانی کو بھی بے حقیقت بنانے اور اس کو لوگوں کی نظروں میں کم تربنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔سمجھنے اور غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ سماج کا ہر فرد اور ہر اکائی ہی نہیں تمام شعبے، ادارے رشتوں کی اہمیت کو جانیں ۔انسانی سماج میں رشتہ کے بغیر کسی بھی فرد کے لیے زندگی کی باڑ کو کھینچنا تو دور چند قدم آگے بڑھنابھی مشکل ہے اور اس سے غفلت برتتے ہوئے ایک صحت مند سماج تشکیل نہیں دیا جاسکتا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like