رئیس صِدّیقی
[email protected]
تاریخ عالم میں ہر جنگ کسی نہ کسی مقصد کے لئے لڑی گئی ہے۔ کبھی کوئی جنگ بادشاہت کے لئے، تو کبھی زمین کے لئے، کبھی دشمنی کی بنا پر، توکبھی کسی سے انتقام لینے کی غرض سے، کبھی مذہب کے نام پر، توکبھی نسلی برتری کے لئے، کبھی زن کے لئے اورکبھی زر کے لئے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔
لیکن ۱۹ ؍ اگست ۱۳۸۸ءکو انگلینڈ میں ایک ایسی جنگ لڑی گئی جو صرف ’’ایک ریشمی رومال‘‘ کے لئے تھی!
ماضی کی یہ خونریز داستان، درحقیقت ۶؍ جولائی ۱۳۸۸ ء میں اس وقت شروع ہوئی، جب اسکاٹ لینڈ کا ایک طاقتور جاگیردار ’’ڈگلس‘‘
سیر و تفریح کے خیال سے ایک مختصر سی فوج کے ساتھ انگلینڈ میں داخل ہوا۔
’’انگلینڈ میں اس وقت رچرڈ دوئم کی حکومت تھی۔ان دنوں انگلینڈ میں فرانس کے حملہ کا اندیشہ تھا اور اس امکانی حملہ کے پیشِ نظر پورے ملک میں زبردست ہنگامی حالات اور نفسا نفسی کا عالم تھا۔
چنانچہ ، ڈگلس کی کسی جگہ مزاحمت نہیں کی گئی۔ لہٰذ ا وہ ’’ نیوکیسل‘‘ کی سرحد تک پہنچ گیا۔
ڈگلس کا مقصد ہر گز توسیعِ سلطنت نہیں تھا اور نہ ہی اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان وسیع پیمانہ پر جنگ چھڑنے کا کوئی امکان تھا۔
نیوکیسل‘‘ نامی قلعہ کے بڑے دروازے پر اس کی ملاقات ایک جاگیردار ’’ہنری پرسی‘‘ (Henry Persy)سے ہوئی۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
ہنری پرسی نے اپنے کمانڈر کے ساتھ آگے بڑھ کر ڈگلس سے نیوکیسل آنے کا سبب پوچھا۔
’’ڈگلس نے اس کی بات کا جواب دینے سے قبل ، اس انگریز جاگیردار ’’ہنری پرسی‘‘ کا ریشی رومال چھین لیا اور بڑی بے نیازی سے بولا۔
’’بس ۔۔۔ یوں ہی چلا آیا، سیر و تفریح کرتے ہوئے !۔
’’اتنا کہہ کر ڈگلس نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا کیونکہ اسکا ہنری پرسی سے لڑنے کا قطعی ارادہ نہ تھا۔ لہٰذا اسکاٹ لینڈ کی فوج نے نیوکیسل سے بتیس ۳۲ میل دور ایک قصبہ کے نزدیک پڑائو ڈالا۔
سورج غروب ہوچکا تھا اور آہستہ آہستہ رات کی گہری تاریکی نے پوری فضا کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ ڈگلس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ انگریز جاگیر دار ’’ہنری پرسی‘‘ کی فوج اس کے تعاقب میں آرہی ہے۔
دراصل ،پرسی کو یہ بات بہت ناگوار گذری کہ ڈگلس نے اس کا ’’ریشمی رومال‘‘ چھین لیا۔
ہنری پرسی فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اپنا ریشمی رومال ڈگلس سے واپس لے گا۔
بہر حال، ۱۵؍ اگست ۱۳۸۸ء کو ہنری پرسی اپنی فوج کے ساتھ ڈگلس کی فوج کے پڑائو کے بہت نزدیک پہنچ گیا۔
اس وقت تک ، ڈگلس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہنری پرسی کی فوج اس پر حملہ کرنے کی تیاری میں ہے۔
ادھر ہنری پرسی نے اپنی فوج کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی ۔ اس نے کہا۔ اسکاٹ لینڈ کے اس جاگیردار نے میرا ریشمی رومال چھین کر اس نے میرا ہی نہیں بلکہ تم سب کا مذاق اُڑایا ہے!
اب میں یہ فیصلہ کرچکا ہوں کہ ڈگلس سے اپنا ریشمی رومال واپس لے کر رہوں گا۔اس لئے میرے ساتھیو ۔۔۔ آگے بڑھو ۔۔۔ اور ڈگلس سے میرا رومال چھین لو ۔
ہنری پرسی کی اس تقریر کو اس کے سرداروں اور فوج کے سپاہیوں نے بالکل پسند نہیں کیا۔کیوں کہ صرف ایک ریشمی رومال کے لئے جنگ نہ انہوں نے کبھی پہلے سنی تھی، اور نہ کبھی سوچی تھی۔ انہوںنے بے دلی سے ہنری پرسی سے کہا۔
اگر یہ حملہ رات کی تاریکی میں کیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔
ہنری پرسی نے اپنی فوج کی یہ بات مان لی۔
ہنر ی پرسی کے ساتھ اس وقت تین ہزار فوج تھی اور ڈگلس کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔
ہنری پرسی کی فوج یہ سمجھتی تھی کہ وہ اپنی تعداد اور ڈگلس کی بے خبری کی وجہ سے پہلے ہی حملہ میں ڈگلس کا خاتمہ کردے گی۔
لیکن یہ اس کی غلط فہمی ثابت ہوئی۔
اب تک ، ڈگلس کو ہنری پرسی کے حملہ کی خبر مل چکی تھی اور وہ حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل تیار کھڑا تھا۔
ہنری پرسی کی تین ہزار فوج جیسے ہی ڈگلس کی فوج کے خیموں کے قریب آئی، اُن پر بے شمار اور لگا تار تیروں کی بارش شروع ہوگئی اور سینکڑوں اسکاٹس فوجی اپنی تلواریں تان کر ا نگریزی فوج پر ٹوٹ پڑے اور ہنری پرسی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا !
اسطرح، اس خوامخواہ کی جنگ میں ہزاروں بے قصور جانیں انا اور خودی کی بھینٹ چڑھ گئیں!
کبھی کبھی ،کسی شخص کی کوئی غیر مہذب حرکت ، غیر ضروری جنگ کو بھی جنم دیتی ہے!
( کہانی کار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ یافتہ ادیب اور ڈی ڈی اردوو آل انڈیا ریڈیو کے سابق آئی بی ایس افسر ہیں)