Home تجزیہ ریلیف یا خون بہا؟

ریلیف یا خون بہا؟

by قندیل

اشعر نجمی

مجھے آج بھی کانگریس کے "عہد زریں” میں ہونے والے عظیم الشان فرقہ وارانہ فسادات یاد آتے ہیں، بلکہ 1979 کے جمشید پور کے دنگے کو تو میں نے خود دیکھا بھی اور جھیلا بھی۔ کانگریس کے دور میں بھی پولیس کا وہی رویہ تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، البتہ اس وقت پولیس کانگریسی حکومت کے زیر اثر تھی اور آج بی جے پی کے انڈر وئیر میں ہے۔ خیر ہوتا یہ تھا کہ ہر فسادات کے بعد فوراً کانگریس کی ریلیف کمیٹیاں پہنچ جایا کرتی تھی اور دودھ اور شہد کی نہریں متاثرہ علاقوں میں بہا دیتی تھیں، کمبل تقسیم کیے جاتے تھے، مہلوکین اور زخمیوں کے لیے معقول رقموں کا اعلان کیا جاتا تھا، ہر محلے میں امن کمیٹیوں کا اعلان کیا جاتا تھا اور پھر وہی رٹے رٹائے فقرے دہرائے جانے لگتے تھے کہ اس کے لیے کوئی قوم ذمہ دار نہیں بلکہ ہر قوم کے مٹھی بھر لوگوں کا یہ کام ہے اور اس طرح بلی کی طرح اپنی غلاظت پر مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا جاتا تھا۔ ہر فساد کے بعد کانگریس مسیحا کا نیا اوتار لے کر ابھرتی تھی اور جھولیاں بھر بھر کے ووٹ بٹورتی تھی۔ پھر زمانہ بدلا، لوگوں میں سیاسی شعور کا تھوڑا بہت اضافہ ہوا، معاملے پر نظر رکھی جانے لگی اور پھر وہ گھڑی بھی آگئی جب یہ انکشاف ہوا کہ رات کے اندھیرے میں گھر جلانے والے ہی صبح لوگوں کو کمبل تقسیم کررہے ہیں۔

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اروند کیجریوال کانگریس کی اس وراثت کو آگے لے جانے کا کام کررہے ہیں لیکن ان کے حالیہ رجحان سے اتنا تو پتہ چلتا ہی ہے کہ وہ اس آزمودہ ٹرینڈ سے واقف بھی ہیں اور اس سے متاثر بھی ہیں۔ جس طرح اروند کیجریوال نے اپنے گھر پر پہنچے فریادیوں سے ملنے سے انکار کردیا بلکہ انھیں لاٹھیوں سے پٹوایا، جس طرح انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد یہ بیان دیا کہ دہلی میں فسادات کے دوران پولیس نے اپنا کام پوری ایمانداری سے کیا، جس طرح انھوں نے اس کنہیا کمار پر "دیش دروہ” کا مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی جس پر وہ دو سال پہلے ٹوئٹ کرچکے تھے کہ کنہیا نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کے لیے ان پر "دیش دروہ” کا مقدمہ چلایا جائے، حتیٰ کہ دہلی سرکار کے وکیل تک کہہ چکے تھے کہ کنہیا کمار پر لگے الزامات بے بنیاد ہیں، وہی کیجریوال جو بغیر کوئی جانچ کمیٹی بٹھائے مرکزی سرکار کو محض خوش کرنے کے لیے اپنے کاؤنسلر طاہر حسین کو پارٹی سے معزول کردیتا ہے جب کہ مرکزی سرکار عدالت کے انتباہ کے باوجود اپنے بدنام زمانہ نیتاؤں کو اپنی گود میں بٹھائے ہوئے ہے، وہ کیجریوال آج جب دہلی فسادات کے متاثرین کے لیے ریلیف کا کام کرتا ہے تو مجھے کانگریس کی یاد آجاتی ہے۔ گویا اپنے ہدف پر حملہ کرو اور جب وہ چیخنے یا رونے لگے تو اس کے منھ میں روٹی کا ٹکڑا ٹھونس دو تاکہ وہ چیخنا اور رونا بھول کر روٹی چبانا شروع کردے۔ مجھے کیجریوال سے زیادہ ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ روح میں لگے زخموں کا علاج خیرات کے چند ٹکڑوں سے ہوسکتا ہے۔ کیجریوال جسموں پر لگے زخموں پر مرہم لگا سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کا کیا کریں گے جن کا ان پر بھروسہ مجروح ہوا ہے؟ مرنے والوں کو پانچ لاکھ دس لاکھ دینا صرف سودے بازی ہو سکتا ہے، کسی مرنے والے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ کیجریوال کے کام کے طریقے پر اپنے ایک مضمون میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ ایک شاطر نیتا ہے، کرتے کم ہیں دکھاتے زیادہ ہیں۔ ان کی اس ریلیف کو ہی لے لیجیے،اس کی کچھ اس طرح اشتہار بازی ہو رہی ہے جس سے گمان ہوتا ہے جیسے "دہلی کا بیٹا” اپنے پاپوں کا پرائشچت کررہا ہو۔بلاشبہ مصیبت کی گھڑی میں لوگوں کی مدد کرنی ہی چاہیے جو دہلی سرکار کے اس میدان میں کودنے سے پہلے ہی لوگ انفرادی طور پر کر رہے ہیں جن میں سکھ قوم سب سے آگے ہے لیکن کیا ایک ریاست کی طرف سے خیرات کے نوالے ہی کافی ہیں یا ان دل گرفتہ اور ٹوٹے بکھرے لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنا بھی ریاست کا فرض اولین ہے؟ کیا کیجریوال کے پاس کوئی ایسا لائحہ عمل ہے جس پر وہ عمل درآمد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تاکہ مستقبل میں دوبارہ فرقہ پرست طاقتوں کے سر اٹھانے سے پہلے اسے کچلا جاسکے یا پھر ہم اگلے کسی فسادات کا انتظار کریں کہ ہمیں اپنے عزیزوں کے خون اور آبرو کے عوض چند ٹکڑے خیرات کے مل جائیں گے؟

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment