Home قومی خبریں سیدہ مریم الٰہی کی کتاب’’تذ کرہ نگاری کی روایت اور تذکرۃ الخلیل‘‘ کا اجرا

سیدہ مریم الٰہی کی کتاب’’تذ کرہ نگاری کی روایت اور تذکرۃ الخلیل‘‘ کا اجرا

by قندیل

میرٹھ(پریس ریلیز):سیدہ مریم الٰہی اردو کی نو خیز محقق ہیں۔ نئے لوگوں کا تحقیق کی طرف آ نا میں بہت مستحسن خیال کرتا ہوں۔ ان کی کتاب ’’تذکرہ نگاری کی روایت اور تذکرۃ الخلیل ‘‘ کے لیے ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ زبان و بیان اور تحقیقی نقطۂ نظر سے یہ کتاب اپنے موضوع کا بجا طور پر حق ادا کرتی ہے۔ تذکرہ نگاری کی روایت سے جو غیر معمولی نقوش اردو تنقید اور تاریخ کے سلسلے میں قائم کیے ہیں ان پر بھی اس کتاب میں گفتگو کی گئی ہے۔یہ الفاظ تھے عالمی شہرت یافتہ معروف شاعرسابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی پروفیسر شہپر رسول کے جوشعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ،میرٹھ اور بین الاقوامی نوجوان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام سیدہ مریم الٰہی کی پہلی تحقیقی و تنقیدی کاوش ’’تذکرہ نگاری کی روایت اور تذکرۃ الخلیل ‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیدہ مریم الٰہی نے تذکرۃ الخیل کا بہتر انداز میں تجزیہ کیا ہے میں اس کے لیے مریم اور شعبۂ اردو کے تمام اراکین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اس سے قبل پرو گرام کا آ غاز حافظ حبیب الٰہی نے تلا وت کلام پاک سے کیا بعد ازاں فر ح ناز نے ہدیۂ نعت پیش کیا۔اس دوران سبھی مہمانان کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا اور مہمانوں نے مل کر شمع روشن کی۔اس موقع پر سعید احمد سہارنپوری نے اقبال کی غزل پیش کر محفل میں سماں باندھ دیا۔پرو گرام کی صدارت کے فرائض صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے انجام دیے۔ مہمان خصوصی کے بطور سابق نائب شیخ الجامعہ پروفیسر وائی وملا نے نے شر کت کی اور مہمانان اعزازی کے بطورجے این یو، دہلی سے سابق قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی ،پرو فیسر خواجہ اکرام الدین،شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی سے معروف ڈرامہ نویس پروفیسر محمد کاظم اورسابق وزیر ،حکومت اتر پردیش ڈاکٹر معراج الدین احمد شریک ہوئے۔ جب کہ مقررین کے بطور مولا نا مشہود الرحمن، (مہتمم مدرسہ امداد الاسلام، میرٹھ)، ڈاکٹر ہما مسعود(اسماعیل ڈگری کالج، میرٹھ) اور مفتی یاد الٰہی قاسمی(دار العلوم، دیوبند) اور مفتی راحت علی صدیقی،(کھتولی) نے شر کت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹرارشاد سیانوی، کتاب پر تبصرہ ڈاکٹر شاداب علیم اور شکریے کی رسم ڈاکٹر الکا وششٹھ اور نظا مت کے فرائض ڈاکٹر آ صف علی نے انجام دیے۔
اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ سر زمین میرٹھ کے علمی تسلسل میں ’’تذکرۃ الخلیل‘‘ کا نام منسلک ہو گیا ہے۔ تذکرۃ الخلیل اردو کے مذہبی ادب میں ایک اہم اضا فہ ہے۔ ایم فل کی سطح کا یہ کام بلا شبہ وقیع تحقیقی کاوش ہے۔ شعبۂ اردو اور سیدہ مریم الٰہی کو بہت بہت مبارک باد!
پروفیسر محمد کاظم نے کہ پرو فیسر اسلم جمشید پوری مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف محنت سے کام کرایا بلکہ اس کی اشاعت کے بعد آج کے جلسے کا اہتمام بھی کیا۔ سیدہ مریم الٰہی کی اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے ذریعے نہ صرف تذکرۃ الخلیل کا مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ تذکرۃ الخیل کے مصنف مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کا سوانحی تذکرہ بھی شامل کیاہے اور میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے خلیل احمد سہارنپوری صاحب جیسی شخصیت کو اردو دنیا سے از سر نو متعارف کروایا۔
مفتی راحت علی صدیقی نے کہا کہ اس کتاب میں تذکرۃ الخیل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کے تمام پہلو ئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے زبان و بیان اسلوب و مشمولات سے متعارف کرایا گیا ہے، اس کی ادبی اقدار کا تعین کیا گیا ہے، تذکروں کے مفہوم اور روایت پر روشنی ڈالی گئی اور مولانا عاشق الٰہی کے سوانحی نقوش پیش کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر ہما مسعود نے کہا کہ سیدہ مریم الٰہی نے بزرگان دین کے تذکروںکو پیش کرتے ہوئے میرٹھ کی تاریخ کا بھی سر سری جائزہ لیا ہے ساتھ ہی زندگی کی پاکیزگی اور ماحول کو بخوبی پیش کیا ہے۔ یہ کتاب سیدہ مریم الٰہی اور ان کے خاندان کے مذہبی افکار کو بھی بخوبی پیش کرتا ہے۔
مفتی یاد الٰہی قاسمی نے کہا کہ تذکرہ نگاری ایک خشک موضوع ہے۔ اس پر مقالہ لکھنا اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ اللہ نے بھی اپنے عزیز بندوں کا تذکرہ فر مایا ہے۔ دیوبند کے علماء حضرات نے بہت سے تذکرے قلم بند کیے ہیں۔ یہ ایک اہم موضوع ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اسلم صاحب کے ذریعے اس طرح کے مو ضو عات پر کام ہوتا رہے گا۔
مولانا مشہود الرحمن نے کہا کہ ہر کام کی ابتدا رب کائنات کے نام سے کر نی چاہئے۔ اس نوع کے کاموں کی حیثیت اکابرین اور زعمائے قوم کے کوا ئف اور کارناموں کو محفوظ رکھنے کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہے۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر سیدہ مریم الٰہی کو دل کی گہرا ئیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے مستقبل میں علمی شغف کو فزوںتر کرنے میں کامیاب ہوں۔
ڈاکٹر معراج الدین احمد نے کہا کہ اردو کے طالب علم کو آج کے حالات کے مطابق اپنا ذہن تبدیل کرنا چاہئے۔نئی تکنیک، کمپیوٹر اور نئی معلومات کے ساتھ آگے بڑھیں یہ ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے کہ سبھی لوگ وقت کی رفتار کے ساتھ اپنی رفتار ملائیں۔
اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ’’تذکرہ نگاری کی روایت اور تذکرۃ الخلیل‘‘ سیدہ مریم الٰہی کا ایم فل کا مقا لہ ہے۔اردو میں تذکرہ نگاری کی روا یت قدیم اور مستحکم رہی ہے۔ تذکروں سے ہی اردو تنقید کی راہ نکلی ہے، اس کتاب میں اردو میں تذکرہ نگاری کی روایت کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔یہ کتاب سیدہ مریم الٰہی کی محنتشاقہ کا ثمرہ ہے۔ انہوں نے واقعی تحقیقی و تنقیدی نظر سے کام لیتے ہوئے’تذکرۃ الخلیل‘ کا جائزہ لیاہے۔ ان کا طرزِ استدلال اور طرزِ نگارش متاثر کن ہے۔
اس مو قع پرڈاکٹر فر حت خاتون، ڈاکٹر سیدہ ، ڈاکٹرشبستاں آس محمد،ڈاکٹر ودیا ساگر،آفاق خان، ذیشان خان،بھا رت بھوشن شرما،مولانا انعام الٰہی قاسمی، مولانا منظور الٰہی،حافظ انیس الدین ،مولوی مسیح الدین، رفیع الدین،سید سیف الدین، عر فان الٰہی، عرف اعظمی،سیدسیف الدین،سید ذکی الدین،سید مسیح الدین، بھوت،فرح ناز، سمیت عمائدین شہر اور کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔

You may also like

Leave a Comment