Home نقدوتبصرہ تاریکی میں روشنی کا استعارہ: جمیل اختر شفیقؔ ـ کامران غنی صبا

تاریکی میں روشنی کا استعارہ: جمیل اختر شفیقؔ ـ کامران غنی صبا

by قندیل

جمیل اختر شفیق کا تعلق نئی نسل کے بیدار مغز قلم کاروں سے ہے۔ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنی ہی اچھی نثر بھی لکھتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کا نام مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے وہیں ان کے فکری مضامین، اصلاحی کہانیاں اور انشائیہ کا رنگ لی ہوئی تحریریں ادب کے سنجیدہ قارئین کو اپنی طرف ملتفت کرتی ہیں۔ جمیل اختر شفیق کی حساسیت انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جو شعرا عوامی مقبولیت رکھتے ہیں انہیں سنجیدہ حلقوں میں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ وہ خود بھی عوامی شہرت اور مالی منفعت سے مغلوب ہو کر اپنے تخلیقی معیار یہاں تک کہ بسا اوقات اپنے شخصی معیار سے بھی سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ جمیل اختر شفیق اس اعتبار سے بھی دوسروں سے منفرد و ممتاز ہیں کہ انہوں نے اپنی شخصیت اور فن میں توازن برقرار رکھا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی شاعری عوامی سطح پر مقبول ہے لیکن عوامی مقبولیت کے حصول کے لیے وہ ادب کے معیار سے سمجھوتا نہیں کرتے ہیں۔ دوسری طرف وقتاً فوقتاً اپنے سنجیدہ مضامین، کہانیوں، انشائیوں اور افسانوں وغیرہ کے توسط سے وہ شعر و ادب کے سنجیدہ قارئین سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں۔ ادب اطفال کے حوالے سے بھی ان کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی کہانیاں بہار کے کثیر الاشاعت اردو روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ کے ہفتہ وار ایڈیشن ’’بچوں کا صفحہ‘‘ میں پابندی سے شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ملک کے مقتدر اخبارات و رسائل میں ان کی مختصر اخلاقی اور اصلاحی کہانیاں شائع ہوتی رہتی ہیں اور پسند کی جاتی ہیں۔
اس وقت میرے پیش نظر ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’روشنی کا سفر ‘‘ ہے۔ کتاب کا عنوان انتہائی معنی خیز ہے۔ روشنی زندگی کی علامت ہے۔روشنی آگہی کا استعار ہ ہے۔ روشنی عزم و ااستقلال کی پیام بر ہے۔روشنی حق و صداقت کی آواز ہے۔آپ کسی ویران اور سنسان علاقے میں چل رہے ہوں۔ دور بہت دور کہیں کوئی شمع ٹمٹماتی ہوئی نظر آ جائے ، آپ پر امید ہو اٹھیں گے کہ جہاں شمع جل رہی ہے وہاں زندگی ہے، وہاں انسانیت ہے۔ ’’روشنی‘‘ اپنے اندر مفاہیم کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ تبھی تو شاعر رب سے دعا مانگتا ہے تو اپنی زندگی کو مثل شمع بنانے کی التجا کرتا ہے ـ: ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘
جمیل اختر شفیق نے اپنی کہانیوں کے مجموعہ کا نام ’’روشنی کا سفر‘‘ بہت سوچ سمجھ کر رکھا ہے۔ اس عنوان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کتاب میں شامل کہانیاں زندگی گزارنے کا شعور سکھاتی ہیں۔ ان میں آگہی ہے۔ عزم و حوصلہ ہے۔حق و صداقت ہے۔ایمان و ایقان ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنا بڑوں کے لیے لکھنے سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔بچوں کی عمر، ان کا ذہنی و فکری معیار، ان کی دلچسپی، ان کی زبان کو مدنظر رکھے بغیر ہم بچوں کا ادب تخلیق ہی نہیں کر سکتے۔ بدلتے ہوئے وقت کے مطابق بچوں کے لیے لکھنا دن بہ دن مزید دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ کتابوں کی جگہ موبائل اور اسمارٹ فون نے لے لی ہے۔ بچوں کا گلہ کون کرے۔ اب تو بڑے بھی مطالعہ سے جی چرانے لگے ہیں۔ ایسے میں بچو ں کے لیے لکھنا اور صرف لکھنا ہی نہیںبلکہ انہیں پڑھنے پر بارضا مجبور کرنا، اس عہد کے قلم کاروں اور تخلیق کاروں کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تحریر میں زبان و بیان کی چاشنی،سلاست و روانی، تجسس اور تحیر میں ڈال دینے والا انداز نہ ہو تو بچے تحریر کی طرف جلد ملتفت نہیں ہوتے۔ جمیل اختر شفیق کی شخصیت کے ایک پہلو کا ذکر میں نے اوپر قصداً نہیں کیا تاکہ بوقت ضرورت اس پہلو پر روشنی ڈال کر میں اپنی بات میں وزن پیدا کر سکوں۔ ان کی شخصیت کا ایک قابل قدر گوشہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک اچھے استاد بھی ہیں۔ بلکہ سچی بات تو یہی ہے کہ حقیقت میں وہ ایک استاد ہی ہیں، شاعری، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری تو ان کا شوق ہے، جنون اور دیوانگی ہے۔ تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ چوں کہ جمیل اختر شفیق ایک تجربکار استاد بھی ہیں، اس لیے بچوں کی پسند و ناپسند اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ان کی ضرورتوں کا انہیں بخوبی اندازہ ہے۔ بچوں کی نفسیات کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں بچوں کو اپیل کرتی ہیں۔ان کی تحریروں میں نہ تو ضرورت سے زیادہ نصیحتوں کا بوجھ ہوتا ہے کہ بچے اکتا جائیں اور نہ بھاری بھرکم الفاظ کا غیر ضروری مظاہرہ۔وہ اپنی کہانیوں کے ذریعہ جو پیغام دینا چاہتے ، بہت خوب صورتی اور مہارت سے دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انہیں پند و نصیحت کے لیے الگ سے الفاظ ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ بین المتون وہ جو کہنا چاہتے ہیں وہ بہت آسانی سے قاری کے ذہن و دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔
’’روشنی کا سفر‘‘ کی کہانیاں آپ کے سامنے ہیں۔ آپ انہیں پڑھیں اور ایمانداری سے بتائیں کہ جمیل اختر شفیق کی کہانیوں کے تعلق سے میں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کس حد تک درست ہیں؟ اگر آپ کو میری باتوں سے اتفاق ہو تو آپ کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ جمیل اختر شفیق کی کہانیوں کوقوم کے نونہالوں تک پہنچائیں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کاوش جہاں آپ کے نونہالوں میں اخلاقی قدروں کے فروغ کی ضامن بنے گی وہیں ادب اطفال کی ٹوٹتی ہوئی کڑیوں کو جوڑنے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔

You may also like

Leave a Comment