افسانہ:خلیل جبران
ترجمہ:احمد سعید قادری بدایونی
رات کے اندھیرے میں ہم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں، چیختے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں لیکن کوئی فریاد رسی کو نہیں آتا اور موت کا سایہ ہمارے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، اُس کے سیاہ پنکھ ہمارے سروں پر شامیانے کی صورت پھیلنے لگتے ہیں، اُس کا خوف ناک شکنجہ ہماری روح کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے اور اُس کی انگارے کی طرح بھڑکتی ہوئی آنکھیں دور سے ہمیں گھورنا شروع کردیتی ہیں۔
جب رات اپنے تاریک لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے تو آگے آگے موت چلتی ہے اور اُس کے پیچھے ڈرے سہمے، روتے بلکتے ہم چلتے جاتے ہیں، نا ہم میں سے کوئی رکنے کی ہمت رکھتا ہے اور نا ہی کوئی رکنا چاہتا ہے۔
ظلمت و یاس سے بھری رات میں، موت ایک قائد کی طرح نکلتی ہے اور ہم اُس کے پیچھے چلنے لگتے ہیں جب جب موت پیچھے پلٹ کر دیکھتی ہے تو سڑک کے دونوں کناروں پر ہزاروں افراد گر جاتے ہیں اور جو بھی گرتا ہے وہ ایسی نیند سوتا ہے کہ کبھی اٹھتا ہی نہیں اور جو نہیں گرتے اُن کے حوصلے یہ سوچ کر ہی ٹوٹنے لگتے ہیں کہ وہ بھی گریں گے اور سونے والوں کے ساتھ دائمی نیند سو جائیں گے لیکن ان سب باتوں کا موت پر کوئی اثر نہیں ہوتا وہ مسلسل چلتی رہتی ہے اور دور سے ہمیں گھورتی رہتی ہے۔
سیاہ رات میں بھوک و فاقہ کے عالم میں بھائی بھائی کو بلاتا، باپ اپنے بیٹوں کو آواز دیتا تو کوئی ماں اپنے بچّوں کو پکارتی نظر آتی لیکن ایک موت تھی کہ اُسے نہ بھوک لگتی تھی اور نا ہی پیاس کا احساس اُس کے پاس سے ہو کر گزرتا پھر بھی وہ ہمارے جسم و روح کو جلانے، ہمارے خون اور آنسوؤں سے بھرا ہوا جام پینے کے بعد بھی نا تو شکم سیر ہوتی اور نا ہی اُس کی پیاس بجھتی۔
رات کے پہلے پہر جب بچّہ اپنی سے ماں سے کہتا، "ماں مجھے بھوک لگی ہے” تو ماں کہتی, "میرے بچے تھوڑا رک جا”.
پھر جب دوسرے پہر بچّہ ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا، "ماں مجھے بھوک لگی ہے کُچھ کھانے کو دو” تو ماں کہتی ہے میرے جگر کے ٹکڑے کُچھ کھانے کو نہیں ہے”۔
یہاں تک کہ رات کے تیسرے پہر موت اُس ماں اور بچّے کے پاس سے گزرتی ہے اور اُن دونوں کو اپنے پر سے اچھال دیتی ہے جس سے وہ دونوں تو سڑک کنارے پڑے سو جاتے ہیں لیکن موت دور سے اُنہیں گھورتی ہوئی آگے بڑھ جاتی۔
ایک آدمی صبح روٹی کی تلاش میں اپنے کھیت جاتا ہے، جِسے وہاں سوائے مٹی اور پتھر کے کُچھ ہاتھ نہیں آتا اور دوپہر کے وقت وہ غریب اپنی بیوی بچوں کے پاس جھکے کندھوں کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آ جاتا ہے۔
رات کو جب موت اُس آدمی اور اُس کے بیوی بچّوں کے پاس سے گزرتی ہے تو انہیں سوتا ہوا دیکھ ہنستی ہے اور دور شفق سے گھورتی ہوئی گزر جاتی ہے۔
صبح صبح ایک کسان اپنی جھوپڑی سے اپنی ماں اور بہن کے زیور لیکر شہر جاتا ہے تاکہ اُن کو بیچ کر کچھ غلہ خرید سکے لیکن جب شام کو وہ گاؤں لوٹتا ہے تو نا اُسکے پاس غلہ ہوتا ہے اور نا ہی زیور۔
وہ مایوس خالی ہاتھ گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ماں اور دونوں بہنیں سوتی ہوئی ملتی ہیں لیکن ان کی آنکھیں ایک لا حاصل شی کے انتظار میں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں یہ دیکھ کر بیچارہ کسان اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور یکایک اتنی تیزی سے نیچے کرلیتا ہے جیسے پرندہ شکاری کا تیر لگنے سے گرتا ہے۔ رات کے قریب موت اُس لاچار کسان، اُس کی ماں اور بہنوں کے پاس سے مسکراتے ہوئے گزر جاتی ہے اور دور سے اُن کو تکتے رہتی ہے۔
یہ اندھیری رات کے گھنے سائے جو ایک نہ ختم ہونے والی دنیا کی طرح ہیں جس کے تاریکی کے بھنور میں پھنسے ہوئے، او دِن کی روشنی میں محو سفر رہنے والوں! ہم تمہیں مسلسل آواز دیتے رہتے ہیں، کیا تمہیں ہماری آہیں سنائی نہیں دیتیں؟
ہمارے مُردوں کی روحوں نے تمہیں پیغام بھی بھیجے، کیا تم پر اُن پیغاموں کا کوئی اثر نہیں ہوا؟
مشرقی ساحل کی ہواؤں نے ہماری سانسوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر تمہاری طرف کوچ کیا تھا تو کیا اب وہ تمہارے کنارے پہنچ گئیں؟ کیا انہوں نے ہماری سانسوں کا بوجھ تمہارے سامنے ڈال دیا؟
کیا تمہیں ہماری تکلیف کا احساس ہو گیا ؟ کیا تم ہمیں نجات دلانے کی کوشش میں لگ گئے؟ یا پھر چونکہ تم آسائش و آرام اور سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہو اِس لئے یہ کہہ کر ہماری فریادوں اور آہوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے کہ "روشنی میں سکون سے بیٹھنے والے اندھیروں کے مسافروں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ اس لئے اُن کے مُردوں کو اپنے مُردوں کو دفن کرنے دو اور یہی اللہ کی مرضی ہے”.
ہاں! یہ بات تو تم نے سچ کہی کہ سب اللہ کی مرضی ہے لیکن کیا تم اتنی ہمت رکھتے ہو کہ اپنی جانوں کے خیال سے اوپر اٹھ کر کُچھ دیکھ سکو ؟ تاکہ تمہارے لئے اللہ کی مرضی بدلے اور ہمارے لئے مدد کی شکل اختیار کر لے۔
سچ تو یہی کہ رات کے اندھیروں میں ہم بے بس و بے کس لوگ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں۔ اِس رات کی تاریکی میں بھائی بھائی کو، ماں بیٹے کو، شوہر اپنی بیوی کو اور محب اپنی محبوبہ کو پکارتا ہے اور جب اِن سارے لوگوں کی آواز ایک دوسرے سے ملکر فضاؤں کا سینہ چیرتی ہوئی بلند ہو جاتی ہے تو موت اُس کو سن کر کُچھ دیر تک ہم پر ہنستی ہے، ہمارا مذاق اُڑاتی ہے اور پھر حسبِ عادت آگے بڑھ کر دور شفق سے ہمیں گھورتی رہتی ہے۔
(نوٹ : یہ افسانہ خلیل جبران نے اپنے فاقہ کشی کے دِنوں میں سپردِ قرطاس کیا تھا)