( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
رمضان المبارک شروع ہونے کو ایک روز بچا ہے ۔ یہ عبادت اور غمخواری کا مہینہ کہلاتا ہے لیکن افسوس کہ اسے چندے کے دھندے کا مہینہ بنا لیا گیا ہے ۔ رمضان المبارک کے ایّام میں ، ممبئی میں متعدد جعلی سفراء پکڑے جاتے ہیں ۔ ماضی میں جعلی سفرا کی نہ جانےکتنی ٹولیوں کا پردہ فاش ہوا ہے ، لیکن یہ ٹولیاں اب بھی سرگرم ہیں ۔ یہ ٹولیاں اپنی جھولی میں کروڑوں روپے کی زکوٰۃ،خیرات،چندہ اورامداد بٹورکر واپس اپنےاپنے ٹھکانوں کو بھاگ لیتی ہیں ۔ عموماً جعلی سفراء کی بڑی تعداد بہار اور یوپی کے مغربی اضلاع سے آتی ہے ، ان میں مغربی بنگال اورجنوبی ہند اورمہاراشٹرا کے’ دھوکے باز ‘ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے ذمہ داران نے بیتے ہوئے سالوں میں متعدد جعلی اورفرضی سفراء کو پکڑا ہے ۔ پکڑے جانے والوں کے پاس نہ مدرسوں کی زمینوں کے کاغذات تھے اورنہ ہی ان کا حساب کتاب درست تھا ، چند معاملات میں کاغذات اوردستاویزات میں تحریف کی گئی تھی ۔ چند سال قبل ایک صاحب مولانا محمودمدنی اورایک صاحب مولانا سیدارشدمدنی کی فرضی تصدیقات لے آئے تھے ، اکثرایسے تھے جنہوں نے تصدیق نامے کی زیراکس کرا کر مدرسوں کے نام اوراپنے نام ،بغیر تصدیق کرائےدرج کردئیے تھے اورانہیں لے کر لوگوں سے روپئے وصولتے پھررہے تھے ۔ کوئی اندازہ نہیں لگایاجاسکتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں ممبئی میں کتنے جعلی سفراء ، اورکتنے دھوکے بازگروہ سرگرم رہتے ہیں ، لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ یہاں آنے والے سفراء کی تعداد ہزاروںمیں ہوتی ہے ۔ جمعیتہ علماء کے دونوں گروپوں سے کم از کم پانچ ہزار سفراء کو تصدیق نامے جاری کیے جاتے ہیں ۔ تین سال قبل تقریباًپانچ سو سفراء کو ناکافی دستاویزات یامشتبہ کاغذات کی وجہ سے واپس کیا گیا تھا ، ان میں اکثروہ تھے جن کے پاس کاغذات تھے ہی نہیں ، ورنہ ناقص کاغذات والوں کو بھی عارضی تصدیق نامہ جاری کیا جاتا ہے ۔ اہلِ سنت الجماعت کے بریلوی مکتب فکر کے بھی تقریباً ڈھائی تین ہزارسفراء ممبئی آتے ہیں ۔ رضا اکیڈمی ممبئی کی طرف سے تصدیق کاانتظام کیا جاتا ہے ، مساجد کے ائمہ کرام بھی تصدیق کرتے ہیں اورمفتیان کرام بھی ، لہٰذا واقفیت کی بناپر بھی تصدیق کردی جاتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہوناچاہیے ۔اہل حدیث اورشیعہ مسلک کے اداروں کے بھی سفراء آتے ہیں مگروہاں صورتحال دوسری ہے ۔ ایک نظام بنا ہوا ہے جو دھوکے بازوں کی سرگرمیو ں کوصد فیصدنہ سہی پر بڑی حد تک قابو میں رکھتا ہے ۔ شیعہ فرقے کے بس گنتی ہی کے سفراء آتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں زکوٰۃ اورخمس کی رقم اداروں کوخود سے پہنچا دی جاتی ہے ، اور جو سفراء آتے ہیں ان کی باقاعدہ تصدیق ہوتی ہے اور تصدیق جاری کرنے والے ، جہاں یہ سفراء جاتے ہیں ،وہاںان کی اطلاع پہنچا دیتے ہیں ، اس لیے دھوکے دھڑی کااحتمال نہیں رہتا ۔ بوہرہ سماج میں باقاعدہ ایک مرکزی نظام ہے ۔ ان کے یہاں زکوٰۃ وغیرہ کی رقم ایک جگہ اکٹھا کی جاتی ہے اوروہیں سے مستحقین کو تقسیم کردی جاتی ہے ۔ مگراہلسنت والجماعت میں چونکہ کوئی مرکزی نظام نہیں ہے اس لیے دھوکے بازوں کی ٹولیاں خوب سرگرم رہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ، باوجود اس کے کہ ممبئی کے مسلمان تمام مسالک کے مدارس کی ، ایک کثیر رقم کے ذریعے کفالت کرتے ہیں، چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے ، چھوٹے مدارس اور بڑے مدارس ، جو واقعی دینی خدمت کرتے ہیں ، اپنے اخراجات پورے نہیں کر پاتے ۔ممبئی سے کروڑوں روپیے مدارس کو جاتے ہیں ۔ جمعیتہ کے ایک ذمہ دار گلزار اعظمی کا دعویٰ ہے کہ ایک ارب تک روپیہ مدارس کے لیے نکلتا ہے ۔ اب ذرا حساب لگائیں کہ اس میں سے کم از کم 25 فیصدرقم دھوکے باز اورجعلی سفراء ہڑپ لیتے ہیں ، باقی بچی 75 فیصد رقم میں سے سفراء کاکمیشن نکلتا ہے جو کم از کم 35 سے40فیصدہوتا ہے ، نتیجہ سامنے ہے ۔ ایک ارب روپئے جو مدارس کو ملناتھے اس میں سے تقریبا ً50 فیصد رقم دھوکے بازوں اورکمیشن پر چندہ وصولنے والوں کی جیب میں پہنچ جاتی ہے۔نقصان میں مدارس ہی ہوتے ہیں۔ماناکہ سفراء ’خالص اللہ کے لیے‘کام کریں گے توپیٹ کیسے بھریں گے ، لہٰذا کمیشن ضروری ہے ۔ پرکمیشن کے ساتھ یومیہ اخراجات بھی یہ چندے ہی کی رقم سے کرتے ہیں!ویسے بھی 30‘سے 40فیصداورکہیں کہیں 50فیصدکمیشن ،مدارس سے بھی اور زکوٰۃ،چندہ اورامداد دینے والوں سے بھی ایک مذاق ہے ۔ یہ مذاق مزید بھدا اس وقت ہوجاتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ تصدیق شدہ مدرسہ کے تصدیق شدہ سفیر جو رقم لے کر گئے وہ طلباء اورتعلیم پر نہیں صرف تعمیر پر خرچ کی گئی ہے۔اوریہ مذاق اس وقت مزیدگھناؤنا ہوجاتاہے جب پتہ چلتا ہے کہ جس تصدیق شدہ مدرسہ کے لیے تصدیق شدہ سفیر رقم لے کر گئے ہیں اس تصدیق شدہ مدرسہ کی عمارت پر باہر دارالعلوم کابورڈ لگا ہے اوراندرسب ’خالی‘ہے یاچند گنتی کے بچے ہیں ۔ فراڈوں کے یہ گروہ ایماندار اورمخلص سفراء کو بھی مشتبہ بنا دیتے ہیں ۔ یقیناً ایماندارانہ طور پر جو سفراء آتے ہیں ان کا امت پر احسان ہے کہ اگر وہ تقاضہ نہ کریں توشاید رمضان میں مخیرحضرات اپنی زکوٰۃ نہ نکال سکیں،لیکن یہ جو گندم نماجو فروش سفراء اپنی چرب زبانی ، بے ایمانی سے لوگوں کو دھوکہ دے کر رقمیں اینٹھتے ہیں توچندے دینے والے بھی یہ طے کرلیتے ہیں کہ اب مدارس کو چندہ نہیں دینا ہے ۔ اس سے جو حقیقی کام کرنے والے مدارس ہیں ان کو نقصان پہنچتا ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ کوئی نظام بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ آج تک مدرسوں کی کوئی فہرست تک تیارنہیں ہوسکی ، نہ ہی کمیشن خوری کے مفاسدات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کم ازکم اس بار تو کوئی نظام بنا لیا جائے ، اور کوشش کی جائے کہ زکوۃ کی رقم واقعی ان مدرسوں ہی کو پہنچے جہاں واقعی دینی تعلیم دی جاتی ہے ، اور اچھی خاصی تعداد میں بچے ہیں ۔ مزید یہ کہ مدارس کے علاوہ بھی زکوۃ کامصارف ہیں، قرآن پاک میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔ کیوں ان مصارف کے لیے زکوۃ نہیں دی جاتی ہے؟