Home ستاروں کےدرمیاں رمزؔ یہ چہرۂ بے داغ و شکن کس کا ہے ـ ضیاؔ فاروقی

رمزؔ یہ چہرۂ بے داغ و شکن کس کا ہے ـ ضیاؔ فاروقی

by قندیل

 

اردو زبان و ادب کے بسیط منظرنامے میں یوں تو پوری بیسویں صدی ہی اہمیت کی حامل ہے کہ میرؔ اور غالبؔ کی بازیافت یا یوں کہیں کہ ازسرِ نو مطالعہ نے نگارخانۂ غزل کو ایک نئی تابندگی عطا کی لیکن آخری چند دہائیوں میں شاعری خصوصاً غزل جن وسعتوں سے ہمکنار ہوئی ہے اُس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت تک غزل بھی تغیرات و تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکی تھی اور منچندا بانی، زیب غوری، عرفان صدیقی، احمدفراز اور شہریار جیسے شعراء کی فکر نے غزل کو واقعی ہزارشیوہ بنادیا تھا۔ جہاں تک کانپور کی شعری فضا کا تعلق ہے تو یہاں آزادی کے فوراً بعد بھی ایسے شعرأ موجود تھے جو لسانی اور فکری سطح پر اپنی اہمیت کا سکہ جما چکے تھے اور ان کے تتبع میں ایک نئی نسل خوب سے خوب تر کی تلاش میں گامزن تھی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو محمد احمد رمزؔ اُس نئی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے تھے جس نے قدیم کلاسیکی روایات کو نہ صرف اسلوبیاتی سطح پر نیا پیرہن عطا کیا بلکہ داخلی اور خارجی بنیادوں پر بھی غزل کو خوش رنگ بنانے میں اپنا لہو پانی ایک کیا۔
محمد احمد رمزؔ ١٩٢٣ میں ضلع سیتاپور کے ایک مہذب اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، وہ غالباً اوائل عمری میں ہی کانپور آگئے تھے،یہاں انھوں نے ایک طویل عرصہ اس طرح گزارا کہ یہ ان کا وطن ثانی بن گیا۔ البتہ اپنی زندگی کے آخری آٹھ دس سال سے انہوں نے اپنے بچوں کے پاس دہلی کے نزدیک لونی (غازی آباد) میں خاموش اور کسی حد تک گمنام رہ کر گزار دیئے اور پھر یہیں سے ۲/ اپریل ٢٠٠٨ء کو سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔
محمد احمد رمزؔ کانپور کے ادبی حلقوں میں بہت معزز اور مکرم تھے۔ انھوں نے یہاں کے شب وروز میں اپنے وجود کی جو خوشبو بکھیری ہے اسے کانپور کی ادبی فضا سے لگ کرپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی قلندر مزاجی اور درویش صفتی نے انھیں نام و نمود سے ہمیشہ بیگانہ رکھا۔ کسادبازاری کے اس دور میں جب ہر کس و ناکس کامیابی کی دو ایک سیڑھیاں چڑھتے ہی انا من الغالب کا نعرہ لگانے لگتا ہے ، وہ تمامتر فنی اور فکری صلاحتیں رکھنے کے باوجود اس تماشے سے کوسوں دور تھے۔انھوں نے نہ تو اپنے فن کی جانب ارباب قلم اور صاحبانِ نقدونظر کو متوجہ کرنے کی شعوری کوشش کی اور نہ ہی اپنے کلام کے رکھ رکھاؤ کی طرف سنجیدگی سے دھیان دیا۔ غالباً ستر کی دہائی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا تھا جو ان کی اسی قلندرمزاجی کے سبب بے شناخت ہوگیا، پھر ۱۹۹۶ء میں چند دوستوں کی تگ ودو سے ان کا دوسرا مجموعہ ”سواد رنگ“ کے نام سے منظر عام پر آیا لیکن ان کی بیگانہ روی کی بدولت یہ مجموعہ بھی چند ادب دوستوں کی الماریوں میں دب کر رہ گیا اور نہ تو اِس پر کوئی مکالمہ قائم ہوسکا اور نہ ہی یہ صاحبانِ نقدونظر کی توجہ حاصل کرسکا۔ اس کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ متذکرہ مجموعہ عہدحاضر کے شعری رویوں کا نہ صرف بسیط منظرنامہ ہے بلکہ پروفیسر سید ابوالحسنات حقی کے وقیع پیش لفظ کی بنا پر اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔اپنے انتقال سے چند ماہ پیشتر جب وہ کانپور آئے تھے تو یہ اطلاع بھی دی تھی کہ انہوں نے اپنا نیا مجموعہ ترتیب دے دیا ہے، جسے عنقریب شائع کریں گے۔ اب ان کے انتقال کے بعد معلوم نہیں کہ اُس کا کیا حشر ہوا؟۔ بہرکیف اُن کا معلوم شعری اثاثہ بھی اتنا وقیع ہے کہ اُسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
محمد احمد رمزؔ جدید تحریک کے ہراول دستے کے اہم رکن تھے۔ انھوں نے ”شب خون“ کے اجراء کے وقت سے ہی اپنی فکر کو نئے شعری رجحانات کے لئے وقف کردیا تھا۔ خصوصاً اُس وقت جب شمس الرحمان فاروقی چند سال کے لئے کانپور آئے، ”سوغات“ اور ”شب خون“ جیسے رسائل کی ریڈرشپ اور فاروقی صاحب کی روزانہ کی رفاقت نے یہاں کے کئی شاعروں کو اپنا طرزِ سخن بدلنے پر مجبور کردیا اور وہ شعرأ جو اِس سے پہلے کم ازکم حسرتؔ، جگرؔ، اصغرؔ اور کسی حد تک یگانہؔ سے متاثر تھے، اُنہوں نے بھی اپنی بیاضیں دریابرد کرکے ”سوغات“ اور ”شب خون“ کی پیروی کرنا شروع کردی۔
مجھے نہیں معلوم کہ محمد احمد رمزؔ ’شب خون‘یا فاروقی صاحب سے کس حد تک متاثر تھے یا اس سے قبل وہ کس مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن ”سوادِرنگ“ کے حوالے سے جو کلام میرے پیشِ نظر ہے اور اُس میں داخلیت کے جو مختلف رنگ یا پیکر تراشی اور منظرنگاری کے جو عکس نظر آتے ہیں، وہ یقینا نئی غزل سے مستعار ہیں۔انہوں نے جہاں صحت مند اور روشن کلاسیکی روایات کو پوری فنکاری سے برتا ہے، وہیں الفاظ کے انتخاب میں بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جدیدیت اور تجربہ کے نام پر غیرفصیح اور نامانوس لفظوں کو برتنے سے بھی اجتناب کیا۔ان کے شعری ڈکشن میں انھیں الفاظ کو جگہ ملی جو غزل آشنا تھے:
میں اپنا آپ اُجالا ہوں دامنِ شب پر
میں آپ اپنی دعائے سحر میں روشن ہوں

دریا، سبزہ، پھول، ستارے اچھی خواہش ہے
پتھر، کانٹے دھوپ، گرد سے نفرت مت کرنا
میں تو سب کچھ دیکھ رہا ہوں کیا کیا ہے اُس پار
میں جو کہوں شیشے کا فلک ہے، حیرت مت کرنا

کماں بدوش چلا تھا مگر عجیب تھا میں
سواد رنگ میں پہونچا تو عندلیب تھا میں
٭
خام اشیاء کی طرح بکھرا پڑا ہے سر راہ
زیر تعمیر تماشا ہے عمارت اس کی

آج چلو کچھ دم ہی لے لیں اپنے اپنے پیکر میں
تم بھی نہیں ہو آج افق پر میں بھی نہیں ہوں منظر میں

خلائے جاں کا سفر اور پھر تن تنہا
یہ راستہ بھی بڑے جبر و اختیار کا ہے

مقام بے خبری ہے یہاں سے کتنی دور
کہ شہر دل میں بڑا شور شہریار کا ہے

نہیں دل کوئی اور پہلو میں ہے
عجب سی چمک بائیں بازو میں ہے

ہم بھی کس درجہ معتبر نکلے
نقشِ بے رنگِ رہگزر نکلے

مندرجہ بالا اشعار میں جو استعاراتی نظام ہے اس میں ابہام کے مقابلہ میں پُراسراریت زیادہ ہے اور یہی پُراسراریت ان کے شعروں کو جاوداں بنا دیتی ہے۔ جیسا کہ صاحبانِ نقدونظر کا خیال ہے کہ عہد حاضر کے پیشتر شعرأ کے یہاں ابہام کا عمل دخل اتنا زیادہ ہے کہ شعر کی تفہیم ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ محمد احمد رمز نے ابہام سے اجتناب کرتے ہوئے استعاروں کی مدد سے وہ شعری پیکر تراشے ہیں جو اپنے اندر محسوسات کا ایک وسیع جہاں رکھتے ہیں۔ انھوں نے واقعات کے بجائے محسوسات کو استعارہ بناکر پیش کیا ہے۔ ”سواد رنگ“ کے پیش لفظ میں پروفیسر سیدابوالحسنات حقی نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:
”رمز کے یہاں جو سریت ہے وہ بھی چونکا دینے والی ہے۔ داستانوی اسرار سے جو لوگ واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں پر اسرار امیجری کے کتنے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ شہزادی اور سپاہ دونوں بیک لمحہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور شہزادہ اپنے آپ کو دشت بے کنار میں پاتا ہے۔رمزؔ خون کے چھینٹوں سے بھی امیجری بناسکتے ہیں اور شفق رنگ گلابوں سے بھی“۔
واقعہ یہ ہے کہ رمزؔ کے یہاں جو پیکر تراشی اور استعارہ سازی کی فضا ہے وہ اُن کے ہم عصر زیب غوری، محمد علوی اور منچندا بانی سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔اپنے ہمعصروں کی طرح اُن کے شعری ڈکشن میں بھی نئی نئی تراکیب اور لفظوں کا خلاقانہ استعمال ہوا ہے۔ انھوں نے مشکل بحروں کو بھی بڑی خوش اسلوبی اور پوری غنائیت کے ساتھ برتا ہے۔ رمزؔ صوفی نہیں تھے لیکن اُن کی غزلوں میں تصوف کی چاشنی موجود ہے۔ مشاہدۂ فطرت میں اُن کا انداز ایک صوفی جیسا ہی ہے۔ وہ اربابِ تصوف کے روایتی انداز میں بھلے ہی گفتگو نہ کرتے ہوں مگر ایک اَن دیکھے منظر سے وہ بہرحال کلام کرتے نظر آتے ہیں:

ایک نیا ان دیکھا منظر مجھ سے کرے کلام
ایک نئی انجانی خوشبو مجھ سے لپٹی جائے

اِس کے علاوہ مندرجہ ذیل اشعار بقول شخصے صرف سرّیت سے ہی عبارت نہیں ہے بلکہ شعور و لاشعور میں بکھری کائنات کا ایک اشاریہ بھی ہیں :

مجھے خبر ہے یہ کوششِ رائیگاں بھی کتنی
چڑھا چکا تیر اب میں کھینچوں کماں بھی کتنی
نئی رفاقت کا میری راہوں میں بیج بویا
عیاں تھیں اُس شخص پر مری خامیاں بھی کتنی

تھکی تھکی آنکھوں میں پریشاں اُس کا خوابِ وصال
ہجر کی لمبی رات کٹی بس ایک کہانی میں

بات تو جب ہے فریبِ ہمنوائی کچھ مزا دے
میں کہیں بھی ہوں خبر دوں تو جہاں بھی ہے صدا دے

الفاظ کی گرفت سے ہے ماورا ہنوز
اِک بات کہہ گیا وہ مگر کتنے کام کی

اک ذرا بولئے گونجنے لگتی ہیں وادیاں
کچھ تو ہے سخت بے جان پتھر میں کوئی تو ہے

خود تمہارے اپنے زد پر آرہے ہیں اتنی سفاکی بھی چھوڑو
کچھ زیادہ ہوگیا ہے تیغ ارشادات سے جوہر نکالو

جدید شاعری کے تعلق سے خود محمداحمد رمزؔ کا کہنا ہے کہ:
”میرے نزدیک لب و لہجہ کی بساطِ رنگ پر لفظ ومعنی کا حسین اتصال ہی شاعری ہے۔ شعر وہی ہے جسے آسانی کے ساتھ سماعت قبول کرلے اور سامع پر اُس کا خوشگوار اثر مرتب ہو“۔
بہرحال محمد احمد رمزؔ کی موت ایک ایسے سپاہی کی موت ہے جس نے زندگی کی جنگ لڑی ہی نہیں اُس قلعہ کو فتح بھی کیا ہے جس میں فشارذات بھی ہے اور شعور کائنات بھی۔

You may also like

Leave a Comment