رمضان کا مبارک مہینہ ہے، اس ماہ مبارک میں برکتوں کے نزول کی خبر خود رب کریم نے دی، اسی میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ*تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا) (لیلۃ القدر ہزار راتوں سے بہتر ہے، اس میں ملائکہ اور روح اترتے ہیں)
اجر میں اضافہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان نے دی، "نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا اجر 70 فرائض کے برابر ہوجاتا ہے” یہ ہر طرح کی طاعات و عبادات پر اجرو ثواب کا مسئلہ ہے لیکن ماہ مبارک کو قرآن کریم کے ساتھ بڑی خصوصیت حاصل ہے، قرآن کریم کا نزول اسی مبارک مہینہ میں ہوا،شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ، (رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، )
اور جبرئیل امین سردار دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس ماہ میں قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے، أنَّ جِبْرِيلَ كانَ يُعَارِضُهُ بالقُرْآنِ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً)(حضرت جبرئیل ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور فرماتے تھے)
(الصِّيامُ والقرآنُ يشفَعانِ للعبدِ يومَ القيامةِ يقولُ الصِّيامُ أي ربِّ منعتُهُ الطَّعامَ والشَّهواتِ بالنَّهارِ فشفِّعني فيهِ ويقولُ القرآنُ منعتُهُ النَّومَ باللَّيلِ فشفِّعني فيهِ قالَ فَيشفَّعانِ)
قرآن اور روزہ دونوں بروز قیامت بندہ کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ میں نے کھانے پینے، اور خواہشات نفسانی کی تکمیل سے اسے دن بھر روکے رکھا، قرآن کہے گا میری وجہ سے یہ رات میں سونے سے رکا رہا، اسلئے میری سفارش قبول کی جائے، پھر دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔
قرآن کریم کی تلاوت پر اجر کا وعدہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں، ” قرآن کا ایک حرف پڑھنے والے کو ایک نیکی ملتی ہے، اور ایک نیکی کرنے والے کو اس کا دس گنا ملتا ہے، اور الم ایک حرف نہیں ہے، بلکہ "ا” ایک حرف ہے، "ل” ایک حرف اور "م” ایک حرف ہے، (چناں چہ ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیوں کا اجر ملتا ہے) مَن قرأَ حرفًا من كتابِ اللهِ فلَهُ بِهِ حسنةٌ والحسنةُ بعشرِ أمثالِها لا أقول الم حرفٌ ولَكن ألفٌ حرفٌ ولامٌ حرفٌ وميمٌ حرفٌ)
پھر اس میں تراویح کی سنت جاری کی گئی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جذبہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہارا شوق دیکھ کر ڈر ہوا کہ کہیں یہ فرض نہ کردی جائے،، نماز تراویح میں قرآن کریم سننے سنانے کو سنت قرار دیا گیا، بزرگوں کے احوال دیکھیں تو وہ اس ماہ مبارک میں تلاوت کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے، اعمال صالحہ پر ملنے والے اجر کا ایک عمومی حساب لگائیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے بعض علماء نے تشویق کیلئے حساب لگاکر اسے جمع بھی کیا ہے کہ رمضان کریم میں نیکیوں میں ستر گنے کا اضافہ ہوجاتا ہے، گویا ایک حرف کی تلاوت پر ستر نیکیاں، پھر ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے، تو گویا یہ حساب سات سو نیکیوں تک پہونچ جاتا ہے، یعنی ایک حرف کی تلاوت پر سات سو نیکیاں، گویا اجر و ثواب کی ذخیرہ اندوزی کا سب سے زیادہ امکان تلاوت میں ہے، شاید اسی لئے اسلاف کا طریقہ رہا ہے کہ رمضان میں دیگر طاعات کے مقابلے تلاوت پر زور دیتے تھے، حتی کہ فقہاء و محدثین بھی دیگر سرگرمیوں سے بھی کٹ کر قرآن کریم کی تلاوت کے لئے خود کو وقف کر دیتے تھے۔
بات حیرت انگیز ہے، لیکن رب کریم و رحیم ہے اس کے کرم کا کیا ٹھکانہ وہ کیسے بخشے، کس کو بخشے، کون جانتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ذہن سوال بھی کرتا ہے کہ آخر اجر و ثواب کی اتنی بوچھار کیوں، اتنی اجرت قرآن کی تلاوت پر کیوں؟ اجر میں اضافے کی حکمت کیا ہے، یوں تو حکمت ربانی کی حقیقت تک پہونچنا محال ہے لیکن مجموعی طور پر ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا آغاز اسی ماہ مبارک سے ہوا، جدید تعبیر میں نزول قرآن کی "سال گرہ” کہدیں تو شاید کوئی حرج نہیں، اور قرآن کریم چوں کہ انسانیت کے لئے خدا کی آخری ہدایت ہے، وہ گائڈ ہے، رہنما ہے، رہبر ہے، تاریخ نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اپنی زندگی اس کتاب حکمت کی رہنمائی میں گذارنے والے اس کرہ ارض کے سب سے بہتر انسان بن کر ابھرے، تجربہ ہو چکا ہے کہ دنیا کی سب سے اجڈ قوم نے قرآن پڑھا تو سب سے مہذب بن گئے، جاہلوں نے پڑھا تو دنیا کے امام بن گئے، غیر منظم اور غیر مرتب انسانی جتھے نے خود کو قرآن کے حوالہ کیا تو وہ تنظیم و ترتیب کے اساتذہ بن گئے، بے مہار و بے لگام انسانی گروہ نے اس کتاب کو پڑھا تو اطاعت و فرمانبرداری میں ان کا ثانی کوئی نہیں رہا، تشتت و تشرد کی زندگی گذارنے والوں پر اس کی روشنی پڑی تو اتحاد و اتفاق کا سورج بن کر نمودار ہوئے، خود غرضی کے اسیروں اور موقع پرستوں پر اس کی کرنیں پڑیں تو وہ ایثار و قربانی کے منارے بن گئے، تکبر، گھمنڈ اور ریاء کاری کے نمائندوں پر اس کا سایہ پڑا تو وہ تواضع اور حلم و بردباری کی چلتی پھرتی تصویر بن گئے، یہ محض الفاظ نہیں، تاریخ کی دیکھی ہوئی باتیں ہیں، قرآن کی ہدایات زندگی گذارنے کے ثابت شدہ اصول ہیں، صرف ایسی "تھیوری” نہیں، جسے کسی انسانی گروہ پر آزمایا نہیں گیا، بلکہ اس کی تعلیمات کا تجربہ ہوچکا ہے، کسی دوا کا تجربہ بیمار پر ہوتا ہے، مریض شفاء یاب ہو جائے تو دنیا اسے تسلیم کرتی ہے، قرآن کے نسخہ کیمیاء کو کرہ ارض کے سب سے بیمار طبقہ پر آزمایا گیا، وہ سب نہ صرف شفاء یاب ہوئے بلکہ روحانی تندرستی کے کمال پر پہونچ گئے، اور رہتی دنیا تک روحانی صحت کے متلاشیوں کے لئے "ٹرینر” اور "گائڈ” بن گئے، اور جب قرآن کریم ایسا نسخہ کیمیاء ہے تو رب رحیم و کریم چاہتا ہے کہ اس کا ہر بندہ اس نور سے فیض یاب ہو، ہر کوئی روحانی توانائی پیدا کرے، تاکہ اس زندگی کے امتحان سے بسہولت گذر سکے، انسان اپنے رب کی ہدایات پڑھے ، غور کرے، اور دیکھے کہ جسم انسانی کے ساتھ روح کی حفاظت ،اس کی تربیت، اس کی تحسین و تطویر اور نشو و نما کے اصول کیا ہیں، زندگی کی ابتداء سے انتہاء تک، کن خطوط پر چل کر جسم و روح کو شیطانی فریب، اور دنیوی آلائشوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، اس نے زندگی گذار نے کے جو رہنما اصول دئے ہیں وہ کیا ہیں؟ ان سے واقفیت کتاب حکمت کی تلاوت اور اس میں فکر و تدبر کے بغیر تو ناممکن ہے۔
نزول قرآن کی مناسبت سے رحمت و برکت اور اجر و ثواب میں اضافہ کرکے شاید بندوں کو قرآن سے ربط و ضبط بڑھانے کی ترغیب مقصود ہو، کہ بندہ پورے سال اپنی روز مرہ کی زندگی میں مشغول ہوتا ہے، تو جس ماہ میں حکمت الٰہی کے نزول کا آغاز ہوا اس میں اجر و ثواب میں اضافہ کردیا جاتا ہے تاکہ زیادتی اجر کے شوق میں بندہ قرآن سے اپنا ٹوٹا ہوا یا کمزور ہوتا ہوا رشتہ مضبوط کر سکے، کیوں کہ اگر مسلسل تیس دنوں تک کسی عمل کا اہتمام کیا جائے تو اس کے منافع سامنے آجاتے ہیں پھر اس طرح دل میں اس کی چاہت بڑھ جاتی ہے، وہ ایک عادت بن جاتی ہے، بشرطیکہ دلجمعی اور لگن سے وہ کام کیا جائے۔
دراصل انسان اپنی زندگی کے جن شعبوں سے متعلق رہنما خطوط خالص عقل و حواس اور تجربات کی روشنی میں وضع کرنے سے قاصر ہے، بالخصوص عقائد و عبادات، اخلاقیات، معاشرت و معاملات ، ان میں قرآن رہنمائی کرتا ہے، ان مسائل کو جب جب انسان نے عقل کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی اسے ہر موڑ پر ٹھوکر لگی ہے، وہ افراط و تفریط کا شکار ہوا ہے، یا تو اس نے اپنی انسانیت کو رسوا کیا اور رب کے عطا کردہ اعلی و ارفع مکان سے خود کو گرادیا، یا خود کو ہی رب کے مقام پر لا کھڑا کیا، انسانی فطرت کسی ذات کی متلاشی تھی جس کے سامنے سجدہ کر سکے، جو حالت اضطراب میں اس کیلئے سکون بخش، مصائب و مشکلات میں حامی و ناصر، اور حالت خوف میں امید کا سر چشمہ ہو اور وہ اس کی حاجت بھی پوری کر سکے، انسان عقل کی روشنی میں ڈھونڈنے نکلا، عقل نے اسے ایک معیار دیا کہ خدا وہی ہو سکتا ہے جس میں "حاجت روائی” کی قوت ہو، جس میں”اس دنیا کو نقصانات سے محفوظ رکھنے” کی قوت ہو، یا فلاں "کوالیٹی” ہو، تو جس کی عقل نے جس "کوالیٹی” کو معیار بنایا، وہ اسے جہاں ملی، کائنات کی جس شئی میں نظر آئی، اسے خدا بناکر بیٹھ گیا، کسی کو پتھر میں وہ خاصیت نظر آئی، کسی کو درخت، پہاڑ، ندی نالہ، حتی کہ بعضوں کو تو جانور میں بھی خدا والی خاصیت نظر اگئی، "نعوذ باللہ من ذالک)، جسے کہیں وہ خصوصیات نظر نہیں آئیں، اس نے خدا کے وجود کا انکار کردیا، اسی طرح عبادت کیلئے عقل نے معیار طے کیا کہ جس عمل سے تعظیم جھلکے، وہ عمل عبادت کےلئے اختیار کیا جا سکتا ہے، تو یہاں بھی جتنی عقل اتنے طریقے وجود میں آگئے، اسی طرح اخلاقیات و معاملات اور معاشرت کا مسئلہ ہے، اخلاقیات میں اس قدر بہکا کہ "مہمان” میں "بھگوان” نظر آنے لگا، معاملات میں تو آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ "گراہک” "بھگوان” کا روپ سمجھا جاتا ہے، معاشرت میں خاتون کو "داسی” بناکر اسے "پتی دیو” کی پوجا کرنے پر مجبور کرنے لگا، عقل نے ہی اشارہ دیا کہ شوہر کی وفات کے بعد عورت مختلف برائیوں میں پڑ سکتی ہے اس لئے اسے "ستی” کردو، یہی حال دنیا کی دوسری اقوام کا ہے، اسلئے خداء وحدہ لاشریک نے رسولوں کا سلسلہ شروع کیا، اس سلسۃ الذہب کی آخری کڑی حبیب کبریاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ان پر کتاب حکمت نازل فرمائی، اور اس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ایسی ہدایات عطاء فرمائی، جو فطرت پر مبنی ہیں، درست عقائد، صحیح طریق عبادت، متوازن اخلاقی اصول، باہمی نزاع کی آلائش سے پاک معاشرت و معاملات کے قوانین عطا کئے، انسانی فطرت جن اصول و ضوابط کا تقاضا کرتی ہیں وہی عطا کئے گئے ہیں، جن پر عمل آسان بھی ہے اور مفید بھی، اگر ان کے مطابق زندگی گذاری جائے، ان تمام شعبوں میں خدا کے عطاء کردہ ہدایات کی پیروی کی جائے تو انسان ایک طرف دنیا اور دنیا والوں کیلئے مفید ترین ہوگا تو دوسری طرف آخرت میں کامیاب و کامران ہوگا، دنیا تجربہ کر چکی ہے کہ ان ہدایات کے علاؤہ جس نے بھی اپنے خود ساختہ اصول پر زندگی گزارنے کی کوشش کی وہ کسی نہ کسی ناحیہ سے اپنے لئے اور دنیا والوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
ہمارا خالق چاہتا ہے کہ ہم اس کی ہدایات کو پڑھیں، اس میں غور کریں، اور اس پر عمل کا جذبہ پیدا کریں، اپنے مالک سے قریب ہو جائیں، اپنے اندر خشیت اور تقوی پیدا کرسکیں، کام جتنا اہم ہوتا ہے، اس کی تکمیل کے انتظامات اتنے پختہ ہوتے ہیں، شاید اسی لئے، اس نے ماہ مبارک میں چو طرفہ انتظام کیا ہے، سب سے پہلے "ایک مخصوص عبادت” کا حکم دیا، ربانی ہدایت نامہ (قرآن کریم) کی تلاوت کی ترغیب کیلئے اجر میں بے انتہاء اضافہ کیا، نیز ان ہدایات پر عمل کی پریکٹس کیلئے ہر عمل پر اجر میں اضافہ کا اعلان کیا، اور بہکانے والے شیطان مردود کو بھی قید کردیا، کہ خدائی احکامات کے مطابق زندگی گذارنے کی پریکٹس کے دوران وہ بندوں کو اس عظیم مقصد سے منحرف کرنے کی کوشش بھی نہ کرسکے،
یعنی سب سے پہلے روزہ کا حکم دے کر ایک روحانی ماحول تیار کیا گیا، اس روحانی ماحول میں رب کے حکم نامہ (قرآن کریم )کو پڑھنے کی تلقین کی گئی، اور ساتھ ساتھ اس پر عمل کی پریکٹس کا شوق پیدا کیا گیا ، نیز مخالف ماحول پیدا کرنے والے (شیطان) کو قید کرکے، اس کے اختیارات سلب کرکے، وسوسہ کی قوت سے محروم کرکے، اسے بے دست و پا کردیا گیا۔
عمل کی عظمت کا اندازہ مقصد سے ہوتا ہے، روزہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا "لعلكم تتقون” (تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے،) اور تقوی کی منزل تک پہونچے کا آسان ترین طریقہ ہے کہ کتاب حکمت میں نازل شدہ ہدایات و تعلیمات کی پیروی کی جائے، اور اس پورے مہینہ اس کی مشق و تمرین کی جائے۔
رمضان، قرآن اور اجر میں اضافہ – محمد اللہ قیصر قاسمی
previous post