Home ستاروں کےدرمیاں راماسوامی پیریار کے بارے میں کچھ باتیں – پروفیسر محمد سجاد

راماسوامی پیریار کے بارے میں کچھ باتیں – پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

 

ای وی راماسوامی نائیکر پیریار (1879-1973) کا جنم ایک امیر تاجر کے گھر ہوا۔ یہ لوگ کنڑ بلیجا نائیڈو فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ پانچ برس کی عمر میں ان کو ایک غریب بیوہ نے گود لے لیا۔ وہ اپنے مہمانوں سے سوالات بہت پوچھتے تھے۔ بالآخر انہیں ایک اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ ان کے ایک استاد اونچی جات کے شیو تھے اور گھر سے اسکول کے راستے میں ونیا چیٹی اور مسلمانوں کے مکانات تھے، لیکن ان میں سے کسی کے یہاں پانی تک پینا منع تھا۔ اس کی خلاف ورزی کے بعد پیریار کو اس بیوہ کے یہاں سے واپس لایا گیا اور وہ والد کے گودام کا مال بیچنے لگے۔ اپنے گردو نواح میں پجاریوں اور نجومیوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ناستک کے طور پر بدنام ہو چکے تھے۔ حاضر جواب اور یارباش قسم کے پیریار دوستوں کی دعوتوں پر خوب خرچ کرتے۔ والدین نے تنگ آ کر ان کی شادی کر دی۔ پانچ برسوں کے بعد پچیس برس کی عمر میں بھاگ کر کاشی چلے گئے۔ وہاں مذہبی کرم کانڈوں سے ان کی بیزاری میں مزید اضافہ ہوا اور واپس گھر آ گئے۔ تجارت اور عوامی فلاح میں سرگرم رہتے ہوئے سنہ 1910ء میں ایروڈ میونسپل کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے۔ ناستک ہوتے ہوئے بھی مندر بورڈ کے چئیر مین کی حیثیت سے بہت ہی عمدہ انتظامی اور مالیاتی مینجمنٹ کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ سنہ 1918ء میں ایروڈ میونسپل کونسل کے چیئرمین بن گئے۔ اس حیثیت سے ایروڈ میں پینے کے پانی کی سپلائی کا بہترین انتظام کروانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر پڑوس کے شہر سیلم کی میونسپلٹی کو بھی بہتر بنوانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسی دوران کانگریس سے منسلک ہو گئے، کیوں کہ کانگریس کو جسٹس پارٹی کے خلاف ایک برہمن مخالف لیڈر کی ضرورت تھی۔

 

چکرورتی راجہ گوپالاچاری کے رابطے میں آ گئے۔ وی نائیڈو نے بھی پیریار کو کانگریس سے منسلک کروانے میں کامیاب رول ادا کیا۔ تحریک عدم تعاون اور کھادی پروموشن پروگرام میں پیش پیش رہنے لگے۔ تاڑی کے خلاف بھی تحریک چلائی۔

 

سنہ 1924ء کے ویکوم ستیاگرہ (ٹریوینکور ریاست) میں اچھوتوں کی حمایت میں تحریک چلائی۔ مندر میں داخلہ اور مندر سے منسلک سڑکوں کے استعمال کا حق انہیں چاہیے تھا۔ ریاست کی رانی سے معاہدہ ہوا، اچھوتوں کو اختیارات ملے اور پیریار ہیرو بن کر ابھرے۔ لیکن کانگریس میں برہمنوں کے غلبہ کی وجہ سے کانگریس سے ان کی بیزاری بڑھتی گئی۔ نومبر 1925ء میں وہ کانگریس سے الگ ہو گئے اور سیلف ریسپکٹ موومنٹ کا آغاز کیا۔ یہ بنیادی طور سے سیاسی کم اور سماجی اصلاح کی تحریک زیادہ تھی۔ اس تحریک کے مقاصد تھے: تعقل پسندی کی حمایت، اوہام پرستی کی مخالفت، جات پات کا خاتمہ۔ اب انتخابی سیاست سے ان کی دوری شروع ہوئی۔ غیر برہمنوں کے لئے جداگانہ انتخابی نشستیں اور تعلیم و سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کی مانگ پر زور ڈالنے لگے۔ ودھوا وواہ اور جات کے باہر کی شادیوں پر بھی زور ڈالنے لگے۔ شادیوں کی رسومات میں بے جا اخراجات یعنی فضول خرچی کے خلاف بھی مہم چلائی۔  جنسی مساوات کی حلف والی شادیوں کو ہی سیلف ریسپکٹ شادی کا درجہ عطا کیا گیا۔ والدین کی جائیداد کی وراثت میں عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق کی وکالت بھی کی۔ کانگریس بھی جنوبی ہند میں جنسی مساوات کی تحریک چلا رہی تھی، لیکن کانگریس اور سیلف رسپکٹ کی تحریکوں میں ایک نمایاں فرق یہ تھا کہ کانگریس میں یہ مہم روشن خیال مرد چلا رہے تھے، جب کہ سیلف رسپکٹ والوں میں یہ مہم خود عورتیں چلا رہی تھیں۔ عورتوں کے حقوق کے لئے پیریار نے ایک پرچہ بھی سنہ 1928ء میں شائع کیا تھا جو بڑے پیمانے پر مقبول ہوا۔ دیوداسی پرتھا کے خلاف بھی آوازیں اٹھائیں۔ اسی وقت آدی دروڑ دلتوں کو اسلام قبول کرنے کے لئے اکسایا، جس سے وہ کافی تنازعہ کا شکار ہوئے۔ پیریار کے اسلام کے تئیں خیالات پر ایک خصوصی کتاب ’پیریار آن اسلام (2004)‘ بھی شائع شدہ ہے ۔ اس کے مصنف ہیں جی الوئشئس۔ اب وہ بیرونی ممالک بھی تقریر کے لئے بلائے جانے لگے۔

 

یوروپ کی مسافرت سے واپس لوٹنے( 1932) کے بعد مارکسی سوشلزم سے کافی متاثر ہو گئے تھے۔ اب تک جو سرمایہ دار ان کی تحریک کو مالی امداد دے رہے تھے، وہ اب پیریار کی تحریک سے لا تعلق ہونے لگے۔ لیکن پیریار کسانوں اور دیہی زراعتی مزدوروں کی حمایت میں ڈٹے رہے۔ ان کے ان مطالبات یا موقف کو "ایروڈ پروگرام” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مزدور تحریکوں سے بھی منسلک ہوئے۔ برطانوی حکومت کا عتاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے اخبارات پر پابندیاں اور جرمانے عائد کئے جانے لگے۔ اب یہ کمیونزم سے دور جانے لگے۔ سی این انادورائی ( 1909-1969) سے قریب آئے، لیکن جلد ہی ان سے بھی نا اتفاقی بڑھ گئی۔ پھر جسٹس پارٹی سے قریب آئے، لیکن جسٹس پارٹی کا اب (1934) زوال ہو رہا تھا۔ سنہ 1937ء میں کانگریس کی وزارت راجہ جی کی راہ نمائی میں قائم ہونے کے بعد، جب ہندی زبان کو لازمی قرار دیا گیا، تب سیلف رسپکٹ والوں نے تمل زبان کی حمایت اور ہندی کی مخالفت میں ایسی تحریک چلائی کہ پیریار کی مقبولیت پھر بڑھنے لگی۔ اس تحریک میں تمل مسلمان بھی پیریار کی حمایت میں آ گئے، مثلا مسلم لیگ کے پی خلیف اللہ۔ گرچہ اردو بولنے والے کچھ تمل مسلمان ہندی کی حمایت میں رہے۔ ہندی مخالف تحریک کو برہمن مخالف تحریک بھی بنا دیا۔ اس میں عورتوں کی شرکت میں شدید اضافہ دیکھا گیا۔ پیریار کو جیل بھیج دیا گیا۔ تب یہ تحریک مزید شدت اور مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ گورنر ایرسکن بھی غالبا پیریار کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ اکتوبر 1939ء میں راجہ جی وزارت کے استعفی کے بعد فروری 1940ء میں ہندی کو لازمی کے بجائے اختیاری زبان قرار دے دیا گیا۔ یہ پیریار کی بڑی سیاسی فتح تھی۔

 

تمل تحریک اب ہندی مخالف تحریک سے آگے بڑھ کر علیحدگی پسند تحریک کی شکل اختیار کرنے لگی۔ پیریار جناح اور امبیڈکر سے دراوڈ ناڈو ملک کے مطالبے کے لیے حمایت مانگنے بمبئی چلے گئے۔ یہاں تک کہ بھارت چھوڑو تحریک کے زمانے میں آریوں کو تمل ناڈو سے بھگانے کی تحریک شروع کرنے پر غور کرنے لگے۔ رامائن کی کہانی میں اب رام کے بجائے راون کو ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ سنہ 1944ء میں جسٹس پارٹی کو دراوڈ کزگھم کا نام دیا۔ سنہ 1946ء میں نیا جھنڈا بھی اپنایا۔ جھنڈے کا کالا رنگ دراوڈ کے استحصال کی غمازی کرتا ہوا اور اس کے مرکز میں لال رنگ، اس استحصال کے خلاف بغاوت کی غمازی کرتا ہوا۔ اسی مسئلے پر انادورائی اور پیریار کے بیچ دوری بڑھنے لگی۔

 

انھوں نے ہندوستان کے یوم آزادی کو خوشی کے بجائے، غم کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ انادورائی اور پیریار مکمل طور پر علیحدہ بھی جانا نہیں چاہتے تھے۔ گاندھی جی سے نظریاتی تفرقہ اور علیحدگی کے باوجود ان کے قتل پر پیریار کو بہت غم و غصہ تھا۔ اپنے تعزیتی مضمون میں جذبات کو ظاہر کرتے ہوئے دراوڈ ناڈو کا نام گاندھی ناڈو رکھنے کی تجویز تک دے دی۔ آزادی کے بعد نشیب و فراز کے ساتھ پیریار برہمن مخالف اور ہندی مخالف سیاسی تحریکیں چلاتے رہے۔ کانگریس حکومت بھی اس کا موقع وقت بہ وقت فراہم کرتی رہی۔

 

راجہ جی اور کانگریس کے کامراج سے پیریار کے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤجاری رہا۔ سیاسی و نظریاتی اور ذاتی نہج پر اتحاد و اختلاف کا معاملہ چلتا رہا۔ اکتوبر 1953ء میں آندھرا صوبہ بن گیا اور اپریل 1954ء میں کامراج جب کانگریس وزیر اعلی بنے، تب پیریار نے کانگریس کی جس تعلیمی پالیسی کی مخالفت کر رکھی تھی، اسے نافذ نہ کرنے کا فیصلہ لیا اور اس طرح کامراج اور پیریار کے تعلقات اب بہتر رہنے لگے۔ لہذا انادورائی کی ڈی ایم کے اب حزب مخالف کے طور پر ابھرنے لگی۔ سنہ 1953ء سے سنہ 1967ء تک انادورائی کو پیریار کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سنہ 1962ء کے چناؤ میں انادورائی کی ڈی ایم کے ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھری۔ سنہ 1967ء کے چناؤ میں انادورائی راجہ جی کا اتحاد کامیاب ہوا، جب کہ کانگریس اور پیریار کا اتحاد کامراج کو کامیاب نہ کر سکا۔
لیکن انادورائی کی ڈی ایم کے اب بھی پیریار ہی کو اپنی پارٹی کا صدر مانتی رہی۔ انادورائی پہلے غیر کانگریسی وزیر اعلی بن گئے۔ پیریار اس حکومت کے مشیر اور سرپرست بن گئے۔ انادورائی کی حکومت کی حمایت و مخالفت چلتی رہی۔ پیریار چاہتے تھے کہ یہ حکومت اوہام پرستی کے خلاف ریڈیکل اقدام کرے۔ انادورائی اس سے پرہیز کر رہے تھے۔ فروری 1969ء میں راجہ جی کی سوتنتر پارٹی نے انادورائی سے حمایت واپس لے لی اور کرونانیدھی (1924-2018) نے ایم جی رام چندرن (1917-1987) کی حمایت سے حکومت بنا لی۔ پیریار کا نرم گوشہ بھی کرونانیدھی کے ساتھ تھا، کیوں کہ کرونانیدھی اوہام پرستی کے خلاف اقدام کرنے کو تیار تھے۔ سنہ 1970ء میں پیریار نے غیر برہمنوں کو مندر کے پجاری بنوانے کی تحریک چلائی۔ سنہ 1971ء میں کرونانیدھی نے پھر سے الیکشن کرا کر نیا مضبوط مینڈیٹ حاصل کیا۔ پیریار اب ضعیف ہو چکے تھے، لیکن تعقل پسندی کی تحریک کا جوش اب بھی ان میں باقی تھا۔ راجہ جی کا انتقال دسمبر 1972ء میں ہوا اور اس میں پیریار کی آنکھوں سے آنسو بھی نکلے۔ دسمبر 1973ء میں پیریار کی موت ہو گئی۔

 

بہ حیثیت مجموعی پیریار کے بایوگرافر بالاجیارمن کا ماننا ہے کہ پیریار کے نظریات شاید انتخابی سیاست کے لئے ناموزوں تھے۔ لیکن پیریار کی سماجی اصلاحات کی تحریکیں بہت کامیاب رہیں۔ آج بھی تمل ناڈو میں نام کے ساتھ جات والے سرنیم لگانے کی روایت بہت کمزور ہے۔ تمام دراوڈ پارٹیاں اور تحریکیں آج بھی پیریار کی وراثت پر اپنا حق اور اختیار جمانے کی لڑائیاں لڑتی ہیں۔ پیریار کی تمل ناڈو کو علیحدہ ملک بنانے کی سیاست کمزور تو ہے، مگر جمہوریہ ہند کے اندر صوبائی اختیارات کے سوال پر آج بھی تمل ناڈو کی سیاست بہت مضبوط ہے۔ ہندی مخالف اور برہمن مخالف جذبہ آج بھی وہاں بہت مضبوط ہے۔ بھگوائی طاقتوں کے لئے پیریار آج بھی ایک کھلنائک ہیں۔ پیریار کی تحریروں کا ذخیرہ آج بھی دراوڈ تحریکوں کے لئے مضبوط حوالے کا کام کرتا ہے ۔

نوٹ: محض سو صفحات پر مشتمل یہ بایوگرافی بنیادی طور پر سکنڈری ریڈنگ کا نتیجہ ہے۔ نہایت سلیس انگریزی نثر میں لکھی یہ بایوگرافی پڑھنے لائق ہے۔ کامراج اور راجہ جی کی بایوگرافی بھی اسی کتاب کے ساتھ پڑھی جائے تو جنوبی ہند کی سیاسی، معاشرتی، تعلیمی و اقتصادی تحریکوں اور پالیسیوں کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔ شمالی ہند کو جنوبی ہند سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔

 

You may also like