Home تجزیہ رام‌‌مندر بھومی پوجن یوم محاسبہ -مسعود جاوید

رام‌‌مندر بھومی پوجن یوم محاسبہ -مسعود جاوید

by قندیل

 

اور اس طرح آج ٥ اگست ٢٠٢٠ کو ستر سالہ نفاقی دور کا خاتمہ ہو گیا۔ اب یہ کہنے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی کہ کانگریس اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں میٹھی چھری ہیں اور بی جے پی تیکھی چھری۔ کانگریس ہندوستان میں سیکولرازم کی علامت ہے کانگریس اقلیتی طبقوں اور اکثریتی طبقہ میں تفریق نہیں کرتی کانگریس ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب اور دستور ہند کی محافظ ہے کانگریس ایک آئیڈیالوجی بیسڈ پارٹی ہے وہ اقلیت نواز یا اکثریت مخالف پارٹی نہیں ہے۔
ہر سیاسی پارٹی کے مطمح نظر کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہے اور بس ! مسلمانوں کو لولی پوپ دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنا سیاسی لائحہ عمل کا حصہ تھا۔ متشدد ہندوؤں کا ڈر دکھا کر مسلمانوں کو اپنے سے قریب کرنا یہ بہت سوچی سمجھی سیاست تھی۔ آنجہانی پنڈت نہرو کے وقت سے ہی کانگریس اس پالیسی پر عمل کرتی رہی ہے۔ کانگریس ہمیشہ اپنی مسلم دوست شبیہ کے مقابل ایک خطرناک دشمن کی شبیہ ہندو مہاسبھا ، جن سنگھ اور اس کے بعد بی جے پی کی شکل میں مسلمانوں کے دل و دماغ میں پیوست کرتی رہی۔ کانگریس میں موجود نمایاں مسلم چہرے بھی کانگریس کے پھیلاۓ اس ‘ڈر’ کی آبیاری کرتے رہے اور مسلم عوام متبادل تلاش کرنے کے بجائے صبح دوپہر شام اس بیانیہ کا ورد کرتی رہی کہ سیفٹی اور سیکورٹی فرسٹ۔ جب جب اس بیانیہ کی تاثیر کم ہوتی اور مسلمان متبادل کی بات شروع کرتے معاشی پسماندگی، تعلیم ، سرکاری ملازمتوں میں حسب تناسب نمائندگی، مسلم محلوں میں سڑک بجلی پانی صفائی, اردو، مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار کی بات کرتے جب جب ڈاکٹر فریدی مرحوم اور ان جیسی شخصیات اپنے کیریئر کو پس پشت ڈال کر امت کے لئے فکر مند ہوۓ تحریک لے کر کھڑے ہوئے کانگریسی مسلم قائدین – قائدین لکھتے ہوئے بہت جبر ہوتا ہے اس لئے احتراز کرتا ہوں – مسلم چہرے کانگریسی علماء و غیر علماء ایسی ہر کوشش کو سبوتاژ کرتے رہے۔ یہ کام بآسانی کرنے میں وہ اس لئے کامیاب ہو جاتے تھے اور ہیں کہ مسلم عوام میں ان کے کاموں کی وجہ سے کم تقدس کی وجہ سے زیادہ پکڑ ہے۔ حضرت کی رائے سے اختلاف نعوذباللہ کیا تم نے جہنم کا راستہ اختیار کرنا ہے؟
مثال کے طور پر اسدالدین اویسی صاحب اور ان کی پارٹی کے متعدد تصرفات سے میں اتفاق نہیں رکھتا لیکن کیا محمود مدنی صاحب کا یہ کہنا درست تھا کہ وہ مجلس کو تلنگانہ سے باہر سیاست کرنے نہیں دیں گے اسی کے ساتھ یہ کہنا کہ چلیں وہ آندھرا تک اپنی سیاسی سرگرمی محدود کر لیں اس سے آگے کی اجازت نہیں۔یہ خیرات بانٹنے والے کون ہیں جو کل ہند سطح پر اپنے آپ کو زبردستی حاتم طائی ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔ یا چیف الیکشن کمشنر کے لہجے میں بات کر رہے تھے؟ کس پارٹی کی حیثیت مقامی پارٹی کی ہے اور کس پارٹی کی حیثیت کل ہند کی ہے یہ الیکشن کمیشن اپنے قواعد و ضوابط کے تحت طے کرتا ہے۔
٢٠١٤ انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کا صفایا ہوا تو کانگریس کے بعض لیڈروں نے کہا کہ اس شکست فاش کی وجہ کانگریس کا اپنے آپ کو بہت زیادہ سیکولر بنا کر سامنے لانا تھا۔ کانگریس لیڈر شپ نے بھی محسوس کیا کہ ہر طرف ہندوتوا لہر ہے۔ چنانچہ اس نے بھی اکثریتی طبقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھگوا، تلک، جنیو مندروں کی زیارت شروع کی۔ ذاتی زندگی میں ہر شخص کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادتگاہ جانا مذہبی شعائر اپنانا سیکولرازم کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے راہل گاندھی کا عمل قابل اعتراض نہیں تھا وہ اپنے آپ کو برہمن ونش کا فرد بتائیں تلک لگائیں جینیو پہنیں پوجا پاٹ کریں مندروں کی زیارت کریں یا آج دوسرے کانگریسی لیڈر کمل ناتھ اور اس سے قبل کیجریوال کا ہنومان چالیسہ پڑھنا بھجن گانا رام بھکت کا جے شری رام کہنا ہنومان بھکت کا جے ہنومان کہنا قابل اعتراض نہیں ہے اس لئے کہ اس ملک کا دستور ہر شہری کو ذاتی زندگی میں اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کرنے کا حق دیتا ہے۔۔ قابل اعتراض جب ہوگا جب کوئی حکمران – صدر سے لے کر چپراسی تک – بحیثیت سرکاری اہلکار سرکاری دفاتر میں یا سرکاری حیثیت سے اپنے مذہب کے فروغ یا کسی مذہب کے خلاف کام کرے اس لئے کہ سیکولر ملک کا مفہوم ہے کہ ریاست اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
آج بھی اگر غیر مسلم لیڈر و عوام کسی بھی پارٹی کے ہوں وہ بھومی پوجن پر ہون کریں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں خوشی کا اظہار کریں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے دھارمک ہونے اور سںنکھ بجانے پر اعتراض نہیں ہے ہمیں عدالتی فیصلے میں جو صاف لفظوں میں لکھا گیا ہے انصاف پسند غیر مسلموں کا ان حقائق سے چشم پوشی پر دکھ ہے۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی اپنے فیصلے میں جو حقائق لکھ کر گئے کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی، رام للا پرکٹ نہیں ہوئے بلکہ رات کے اندھیرے میں مجرمانہ طور پر مسجد کے اندر رکھے گئے تھے، وہاں اس وقت نماز ادا کی جاتی تھی۔ یہ سب جانتے اور سمجھتے ہوۓ بھی ؟

لیکن بات صرف کانگریس پارٹی کی نہیں ہے ، تقریباً ہر سیاسی جماعت ثقافتی تنظیم مذہبی رواداری کے علمبرداروں نے بھی اس تضاد پر خاموشی اختیار کی اس لئے کہ اصول آئیڈیالوجی اور سدھانت پر اقتدار کی ہوس غالب ہے۔ لیکن دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ فرد ہو یا جماعت دوسروں کے ساتھ ہوئے حادثات سے سبق لے، عبرت حاصل کرے۔ شیو سینا کٹر ہندوتوا سمجھی جانے والی پارٹی کی اوریجنل ہندوتوا بی جے پی کے سامنے زمینی پکڑ ختم نہیں تو کمزور ضرور ہوئی ہے۔ تو یہ کانگریس اور راہل ، جن کے دادا کے بارے میں مسلم اور مسلم نہیں تو متشدد مسلم کلچر کا دلدادہ اور مسلم دوست کا بھرم پھیلا جاتا رہا ہے، وہ جتنے بھی تلک لگائیں اوریجنل ہندوتوا کے سامنے نہیں ٹکیں گے۔ اور جب ڈیڑھ سو سالہ کانگریس نہیں ٹکے گی تو نتیش ملائم اکھلیش مایاوتی وغیرہ کس کھیت کی مولی ہیں۔
اس لئے آج بھی ہندوستان کی انصاف پسند عوام متشدد ہندوتوا کے مقابل حقیقی سیکولرازم پر مبنی سیاسی پارٹی کی متمنی ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment