رام چندر گوہا کی یہ تازہ ترین کتاب بنیادی طور سے ایک غیر معمولی ایڈیٹر، روکن آڈوانی کی بایوگرافی کا ایک حصہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اہل قلم لوگوں کی زندگی میں ان کے رومانٹک پارٹنر کے بعد اہم ترین شخص جو ہوتا ہے وہ ایڈیٹر (مدیر) ہوتا ہے۔ جن لکھنے والوں کو گاڈ فادر کی تربیت سے محرومی کی شکایت ہے انہیں اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ نورمین پودھوریتز کے حوالے سے رام گوہا بتاتے ہیں کہ اچھے مدیر کا ملنا نہایت مشکل کام ہے۔ کیوں کہ ایڈیٹر کی شخصیت کے اندر بہ یک وقت دو متضاد خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔ ایڈیٹر کے اندر arrogance یعنی اکڑ ہونی چاہیے اور بے نفسی یعنی selflessness بھی ہونی چاہئے۔ اکڑ اس لیے کہ اسے یہ اعتماد ہو کہ وہ ماہرعلوم مضمون نگار سے زیادہ علمیت کا حامل ہے اور انکساری اس لیے کہ اس کی تمام امداد و اصلاح کے باوجود وہ گمنام ہی رہے ہوگا۔ بہت پہلے گوہا نے دو اہم مضامین لکھے تھے، ایک میں یہ شکایت تھی کہ بھارتی لٹریری اور سوشل سائنس کی دنیا میں دو لسانی یا ذو لسانی دانشوروں کی سخت کمی ہو گئی ہے۔ روکن نے رام گوہا سے کہا کہ تم سرسید اور مولانا آزاد جیسے عظیم ذو لسانی دانشوروں کو بھول رہے ہو، جن کی تحریروں نے ملک کے مسلمانوں کی جدید کاری اور سیکولرائزیشن میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔
دوسرا مضمون ایکونومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ایڈیٹر کے این راج (1924-2010) کا خاکہ ہے جس نے صرف ایڈیٹنگ کی ذمہ داریاں نبھا کر "گمنامی” کو ہی اپنا نصب العین اور انعام سمجھا۔
بہر کیف، رام گوہا کی یہ کتاب روکن آڈوانی اور رام گوہا کے درمیان کی دانشورانہ دوستی کی شاندار اور دلچسپ کہانی ہے۔ رام گوہا کی تمام چھوٹی اور طویل تحریروں کو پالش کرنے میں روکن آڈوانی نے جو کردار نبھایا، اس کی داستان ہے۔ ایک ایک لفظ، ایک ایک جملے، اور مزید مطالعات سے ان تحریروں کو مزید بہتر بنوانا، اور کئی بصیرت افروز نکتے اجاگر کر کے تحریر کو مربوط، مبسوط، منضبط، سہل بنانے میں انھوں نے جو امداد فراہم کی، اس کی داستان ہے۔ روکن آڈوانی اور ان کی بیگم ایک لمبی مدت تک دہلی کے آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کے ایڈیٹر رہے۔ تاریخ، سوشل سائنس اور لٹریچر کی کئی معروف ترین کتابوں کی ایڈیٹنگ میں نمایاں رول ادا کیا۔
او۔یو۔پی چھوڑنے کے بعد اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقے رانی کھیت میں انہوں نے نہایت ہی معیاری پبلیکیشن ہاؤس پرماننٹ بلیک قائم کیا اور اب بھارت سے بہترین ایڈیٹنگ (زبان و بیان سے لے کر تحقیقی معیار تک کے اعتبار سے) والی کتابیں یہی لوگ چھاپتے ہیں۔
بھارت میں (1912 میں قائم شدہ) او۔ یو۔ پی۔ کا تیزی سے زوال ہوتا چلا گیا، جب روکن آڈوانی اور ان کی بیگم نے اسے چھوڑ کر اپنی پبلشنگ ہاؤس پرماننٹ بلیک قائم کر لی۔ لکھنؤ والے ان کے والد رام آڈوانی کی کتاب کی دوکان سے زیادہ واقف رہے ہیں۔
روکن آڈوانی کم سخن اور تنہائی پسند قسم کے انسان ہیں۔ ان کے عزیز ترین دوستوں میں امیتابھ گھوش اور مکل کیسون ہیں۔ یہ سبھی اسٹیفنس کالج دہلی میں ہم جماعت یا ہم عصر تھے۔
اردو میں ایڈیٹنگ، حوالہ سازی، تحقیق وغیرہ کی روایت کمزور ترین ہو گئی ہے اور بھارت کی اردو کی دنیا میں پبلشر، ایڈیٹر اور مصنف کے درمیان ایسا یادگار علمی رشتہ قائم ہی نہیں ہو پا رہا ہے۔ اردو زبان کی دنیا میں مصنف خود ہی قابل ترین شخص ہے ، مواد کے تعلق سے بھی اور اسلوب کے تعلق سے بھی۔ پبلشر تو پروف ریڈنگ تک کی ذمہ داری سے بھاگتا ہے، اسے صرف مفت خوری کی بری لت لگ کر رہ گئی ہے۔ مصنف ہی کے روپیوں سے کتابیں چھاپ کر پبلشر اپنی کمائی کر رہا ہے اور اخیر میں پبلشر بھی کنگال ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔ قارئین کی تحفہ خوری، مفت خوری تو ایک مسئلہ ہے ہی!
خریدتا تو وہ ہے ہی نہیں، اور تحفہ دو تو اسے پڑھنے کی فرصت نہیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی اردو آبادی کو مسلکیات و ادبیات تک محدود رہنے میں ہی لطف آتا ہے۔ تاریخ اور سوشل سائنس میں ہندو، امریکہ، یہودی، عیسائی کی مذمت نہ ہو اور وکٹم ہوڈ کی افیون نہ دی گئی ہو اور خود احتسابی کی دعوت یا تلخ تاریخی حقائق سے سامنا کرنے کی بات کی گئی ہو تو پھر متعلقہ مصنف/محقق/کالم نگار کو ملعون و مطعون اور موقع پرست قرار دینے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کی جاتی۔ دنیا کی کوئی مذہبی قوم تھیوکریٹک ریاست قائم نہ کرے، لیکن مسلمانوں کو مکمل حق ہے کہ وہ تھیوکریٹک ریاست ضرور قائم کریں، تبھی عاقبت سنور پائے گی اور تبھی وہ قوم کے ہمدرد کہلائیں گے۔ قوم کی غلطیوں اور قوم کے ڈھائے ظلم کو بے نقاب کرنے والا دانشور تو لازمی طور پر غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔
پبلشر و ایڈیٹر کو گمنام رکھنے کی روایت تو انگریزی کے تعلق سے بھی مضبوط ہی ہے۔
(اردو کے تعلق سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی خود کو مرکز کہہ سکتی ہے۔ لیکن علی گڑھ والوں کی اردو کی آپ بیتیوں میں شاید ہی کوئی تصنیف ہے جو مسلم یونیورسٹی پر جارحانہ تنقیدیں پیش کرتی ہو، تاکہ اصلاح ہو سکے۔ اس کے برعکس نندن نیلیکنی نے اپنی کتاب، امیجینینگ انڈیا (2008) میں اپنی مادر علمی، آئی آئی ٹی، دہلی کو متزلزل اور کمزور بنیادوں پر کھڑا ادارہ "انسٹیٹیوشن آف سینڈ” قرار دیا ہے۔ کسی آئی آئی ٹی کے جذباتی طالب علم یا استاد یا ابنائے قدیم نے نیلیکنی کے خلاف کوئی فتوی صادر نہیں کیا۔)
رام گوہا نے ایڈیٹروں کو گمنام رکھنے کی اس روش اور روایت سے انحراف کرتے ہوئے روکن آڈوانی (پ 1955) کی غیر معمولی صلاحیتوں اور لیاقتوں کو بروئے کار لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ راولپنڈی میں معروف کتب فروش سندھی ریفیوجی فیملی سے تعلق رکھنے والے مظلوم رام آڈوانی اور ان کے بیٹے روکن آڈوانی فرقہ پرستانہ نفرت پالنے کی بجائے گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار بن گئے۔ لکھنؤ میں بہترین اسکول اور یونیورسٹی تھی۔ سینٹ اسٹیفنس کالج سے انگریزی ادب میں آنرز کرنے والوں میں فرسٹ کلاس حاصل کرنے کا شرف صرف ربندر رے عرف للو (1948-2019) اور ان کے جونیئر، روکن آڈوانی کو حاصل ہے۔ دہلی اسکول آف ایکونومکس میں سوشیولوجی کے پروفیسر ربندر رے کی 1988 کی کتاب ‘ نکسلائٹس اینڈ دیئر آئیڈیالوجی’ بہت مشہور کتاب ہے۔
روکن آڈوانی نے اپنی تحریروں میں لکھنؤ کے اپنے بہترین اسکول کی کمیوں اور کوتاہیوں کا بھرپور ذکر کیا ہے؛ اسٹیفنس کالج کی خوبیوں اور خامیوں، بذلہ سنجی اور بت شکنی پر بھی بیباکی سے لکھا ہے۔ کلائیو لائیڈ اور ویوین رچرڈس کی کرکٹ (فیروز،شاہ کوٹلہ، دہلی جس میں بشن سنگھ بیدی کی گیندوں پر چھکے پہ چھکے لگانے والے دونوں بلے بازوں کے آرٹ کا فرق واضح کیا ہے) پر بھی خوبصورت مضمون تحریر (رام گوہا کے مضمون کی ایڈیٹنگ) کی ہے، روکن آڈوانی کے اس پورے پیراگراف کو رام گوہا نے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔ رام گوہا نے موجودہ وزیر اعظم کے نفسیاتی جائزے پر مبنی جو مضمون لکھا اس میں روکن آڈوانی نے جو بصیرت افروز مشورے دیے اور نثر کی پالشنگ کی، ان طویل اقتباسات کو بھی پیش کیا ہے۔ روکن نے کیمبرج سے ای ایم فارسٹر (1879-1970) پر پی ایچ ڈی حاصل کی (1978)۔ وہی ای ایم فارسٹر جن کی کتاب اے پیسیج ٹو انڈیا (1924) کافی مقبول ہے اور جس کا تعلق سر سید کے پوتے راس مسعود سے بھی ہے۔
رام گوہا نے رنجیت گوہا کی مشہور زمانہ سیریز ‘سب الٹرن اسٹڈیز’ کی اشاعت کی کہانی بھی دلچسپ انداز میں پیش کی ہے اور تاریخ نگاری کے اس اسکول کے زوال اور اس کی کمیوں پر آڈوانی کے ایک طویل مضمون کا مفصل ذکر کیا ہے۔
رام گوہا کو ماحولیاتی تاریخ نگاری اور کرکٹ کی سوشیالوجی کا اسکالر اور پھر بایوگرافر بنوانے میں نہایت اہم کردار نبھایا، اس کا تفصیلی اعتراف گوہا نے نہایت فراخ دلی سے کیا ہے۔ آڈوانی نے گوہا کو ای پی ٹامپسن اور کرسٹوفر ہل جیسے دانشوروں کی تصنیفات پڑھنے پر کئی دلیلوں کے ذریعے آمادہ کیا۔ میوزک اور بایوگرافی لکھنے کے بہترین طریقوں پر گراں قدر مشورے دیے۔ انہیں بتایا کہ بایوگرافی کو ناول کی صنف کے قریب پہنچا دیا جانا چاہئے؛ کہ اکادمک شخصیات کے یہاں authoritative بیانیہ کے بجائے باریک(subtle) قسم کی tentative قطعیت یا certitude ہونی چاہئے۔ جارگن باز اسکالروں سے آڈوانی کو سخت پرہیز ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اکادمک دنیا کے بڑے لوگ نئے ابھرتے ہوئے برائٹ اسکالرس سے خائف اور غیر محفوظ رہتے ہیں کیوں کہ ایسے نوجوان مزاحمت کرتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں، اور غیر سائنٹفک و نیم سائنٹفک جارگن سازی کی ہوا نکالتے ہیں۔ روکن آڈوانی کے نجی تحریری مشوروں اور تبصروں میں تیزابی طنز کی بھرمار ہوتی ہے۔
روکن نے رام گوہا سے کہا کہ فاشسٹ قسم کے رہنماؤں کی تقریروں کی auditory effect پر سوشل سائنٹسٹس نے مطالعہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے نیشنلزم کو نسل کشی کی طرف دھکیلنے والے آلہ کار کے طور پر بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اچن ونائک کی طرح انڈین ریاست کو نہایت ظالم ریاست کی طرح ہی روکن دیکھتے ہیں۔
روکن آڈوانی جیسے عالم اور با صلاحیت ایڈیٹروں کا فقدان ہے۔ ایسے وقت میں رام گوہا کی یہ کتاب ہمارے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، حالانکہ رام گوہا نے پچھلے ہفتے مجھے از راہ خاکساری یہ کہا کہ "تم نے خواہ مخواہ ہماری idiosyncratic کتاب پڑھنی شروع کر دی ہے”۔