Home تجزیہ رام اور ایودھیا کو بھول گئے!-شکیل رشید

رام اور ایودھیا کو بھول گئے!-شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 

کیا یہ بات تعجب میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ ۴؍ جون کو لوک سبھا کے نتائج آنے کے بعد سے، وزیراعظم نے نہ بھگوان رام کا ذکر کیا ہے اور نہ ہی ایودھیا کا ! نتائج کے بعد انہو ں نے جو تقریر کی اس میں بھی بجائے ’ جے شری رام‘ کے ’ جئے جگناّتھ‘ کا نعرہ لگایا!وجہ یہ تھی یا وجہ یہ ہے کہ اڈیشہ میں انہیں 22 میں سے 21لوک سبھا نشستوں پر کامیابی ملی اور ریاست اڈیشہ میں بھی بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ، لہٰذا اڈیشہ میں پوجے جانے والے بھگوان جگناتھ کا نعرہ ان کی زبان سے نکلا ، اور فیض آباد کی سیٹ چونکہ بی جے پی ہار گئی ، اس لیے رام اور ایودھیا سب وہ بھول گیے! وہی کیوں فیض آباد میں بی جے پی کے امیدوار للن سنگھ کی شکست اور سماج وادی پارٹی کے امیدوار اودھیش پرساد کی ، جو کہ ایک دلت ہیں ، جیت سے ساری بھارتیہ جنتا پارٹی اور سارے سنگھ پریوار کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔ لوک سبھا کے الیکشن سے قبل اور الیکشن کے دوران نعرہ لگ رہا تھا’ جوبھگوان رام کو لائے ہیں ، ہم انہیں لائیں گے ‘۔ سیدھا اشارہ 22جنوری کے روز ’پران پرتسٹھا‘ اور رام مندر کے افتتاح کی طرف تھا۔ نریندر مودی نے یہ الیکشن لڑا ہی تھا رام مندر کے نام پر ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بڑی ہی بے شرمی اور بے عزتی کے ساتھ اور الیکشن کمیشن کے سارے اصولوں کو طاق پر رکھ کر یہ الیکشن لڑا تھا ، تو غلط نہیں ہوگا ۔ جنوری میں ایودھیا میں اس جگہ جہاں6دسمبر 1992ء تک بابری مسجد کھڑی تھی، رام مندر کا افتتاح ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میںاس کا فائدہ پہنچے ۔ لیکن ہوا یہ کہ للن سنگھ ہار گیے، اور اودھیش پرساد جیت گیے۔ اس ہار جیت کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ایودھیا کے لوگوں نے مندر ۔ مسجد کی سیاست کو مسترد کردیا ، انہوں نے بی جے پی کے بڑی ذات کے امیدوار پر ایک دلت کو اپنا نمائندہ بناکر لوک سبھا بھیجا اور بی جے پی کے چہرے پر ، بلکہ اگر کہا جائے کہ نریندر مودی سمیت سارے بھاجپائیوں اور سارے سنگھیوں کے چہرے پر تھپڑ جما ہے تو بالکل درست ہوگا ۔ اور اب سارا سوشل میڈیا ’ اندھ بھکتوں‘ کے ذریعے ایودھیا واسیوں کو دی جانے والی گالیو ںسے اٹا پڑا ہے ۔ ایودھیا کے پولیس اسٹیشن میں سوشل میڈیا پر دی جانے والی گالیوں کے خلاف شکایتوں کا ایک انبار لگ گیا ہے ۔ ’ اندھ بھکتوں‘ کا سارا ٹولہ مغلظات بک رہا ہے لیکن وزیراعظم مودی نے اپنے لب سی لیے ہیں ! یہ وہی نریندر مودی ہیں جو ایودھیا واسیوں کو خواب دکھارہے تھے کہ اب اسے ’ ٹورازم‘ کے لیے ایک منتخب شہر بنایا جائے گا ۔ اور ’ٹورازم‘ بھی ’دھارمک‘ ۔ لیکن اب وہ ایودھیا اور ایودھیا واسیوں کو فراموش کیے ہوئے ہیں ، بلکہ اب تو انہیں نہ ’بھگوان رام‘ یاد ہیں اور نہ ایودھیا کا رام مندر ! سوشل میڈیا پر پوسٹیں ڈالی جارہی ہیں کہ اب ایودھیا والوں کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے ، ان سے کوئی چیز نہ خریدی جائے اور نہ ہی انہیں بیچی جائے ۔ گالیاں دینے کے الزام میں ’ ہندورکشادل‘ نامی ایک کٹّر وادی تنظیم کے دو کارکنان دکش چودھری اور انوچودھری کو گرفتار کیا گیا ہے ، ان میں سے دکش چودھری وہ شخص ہے جس نے دہلی میں انتخابی مہم کے دوران کنہیا کمار پر حملہ کیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر دیپ دویدی نامی ایک صارف نے ایودھیا والوں کو ’ دوغلا‘ قرار دیا ہے ۔ امیت پنڈت نامی ایک صارف نے جی بھر کر گالیاں دی ہیں ۔ ساکشی مہاراج نے بُرا بھلا کہا ہے ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایودھیا والوں کو بی جے پی نے جو دیا تھا وہی ایودھیا والوں نے واپس لوٹایا ہے ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر کے دوران غریبوں کے گھروں اور چھوٹے موٹے مندروں کو اجاڑدیاگیا تھا، اتنا ہی نہیں ایودھیا کے رہنے والوں کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ایودھیا نے ووٹ سے جواب دیا ۔ ایودھیا کی ہار اور مودی کی زبان سے ’بھگوان رام‘ کا نام نہ نکلنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ’ بی جے پی اپنے مفاد کے لیے دھرم کی سیاست کررہی تھی، اسے نہ ’بھگوان رام‘ سے محبت تھی اور نہ ہی ہندو مذہب اس کے لیے کوئی معنیٰ رکھتا ہے ۔ اچھا ہی ہوا کہ ایودھیا والوں نے بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو پہچان لیا ۔ اب ہندوستان کے تمام ووٹروں کو چاہیئے کہ وہ بی جے پی کی حقیقت کو پہچان لیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like