Home تجزیہ راکیش سنہا اور مسلمانوں کی داڑھی ٹوپی-سہیل انجم

راکیش سنہا اور مسلمانوں کی داڑھی ٹوپی-سہیل انجم

by قندیل

اس وقت سوشل میڈیا پر آر ایس ایس کے نظریہ ساز اور بی جے پی کے سابق ایم پی راکیش سنہا کی ایک تقریر وائرل ہے جس پر ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ بی بی سی جیسے عالمی میڈیا ادارے کی ہندی سروس نے بھی اس پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ سنہا نے یہ تقریر ’نئی دنیا نیشنل فورم‘ کے زیر اہتمام 16 جنوری کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ہونے والے ایک پرہجوم سمینار میں کی جس کا عنوان تھا ’آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل‘۔ مذکورہ فورم کا قیام ہفت روزہ نئی دنیا کے ایڈیٹر اور سابق ممبر آف پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کیا ہے۔ سمینار سے ملک کے چوٹی کے سیاست دانوں اور دانشوروں نے خطاب کیا۔ شاہد صدیقی نے ’بہتر، جامع اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کے لیے گفت و شنید‘ پر زور دیا اور اس پر اظہار افسوس کیا کہ ’ہمارے اکابرین نے بات چیت کا راستہ بند کر دیا ہے۔‘ اگر دیکھا جائے تو یہی خیال اس سمینار کا حاصل تھا۔ اس فورم کا یہ پہلا بڑا پروگرام تھا اور یقیناً یہ ایک اچھی پہل تھی۔ راکیش سنہا اور خواجہ افتخار احمد کی شمولیت نے پروگرام کو تیکھا مگر دلچسپ اور قابل بحث بنا دیا۔ راکیش سنہا نے اپنی تقریرمیں ایک نیشنل نیوز چینل کی ڈبیٹ کے بارے میں جو انکشاف کیا وہ اگر چہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے لیکن چونکہ یہ بات آر ایس ایس کے ایک نظریہ ساز کی زبانی سننے کو ملی اس لیے وائرل ہو گئی۔ ان کے مطابق ’چینل نے فرمائش کی تھی کہ آپ کو ڈبیٹ میں مسلمانوں کی داڑھی اور ٹوپی کے بارے میں غیر مہذب باتیں کرنی ہیں۔میں نے جواب دیا کہ میں کسی کی داڑھی اور ٹوپی اتارنے کے لیے نہیں بلکہ اتارنے والوں سے لڑنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔‘ ان کے اس بیان پر مثبت اورمنفی دونوں طرح کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر جہاں اس کی روشنی میں نیوز چینلوں پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں ان کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ردعمل کا نچوڑ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ مسلمانوں میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کا اندرون زہر سے بھرا ہوتا ہے۔ خود راکیش سنہا کے بارے میں کہا گیا کہ وہ راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں۔ ان کے زہریلے مضامین انڈین ایکسپریس میں بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ بہرحال ہمیں یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے کسی نیوز چینل کے بارے میں ایسی رائے کیوں دی لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ اردو میڈیا پر بھی الزام لگاتے رہے ہیں۔ بلکہ انھوں نے اس کے لیے ایک کتاب ہی لکھ دی جس کا نام ہے ’آتنک واد اور بھارتیہ میڈیا‘۔
یہ کتاب 156 صفحات پر مشتمل ہے او ریہ 2009 میں منظر عام پر آئی تھی۔ اسے ’بھارت نیتی پرتشٹھان حوض خاص، نئی دہلی‘ نے شائع کیا ہے۔ اس کے منظر عام پر آتے ہی میں نے اسے قیمتاً منگوایا اور اس کا جائزہ لیا۔ میں نے اس حوالے سے دو مضامین لکھے۔ ایک میں ان کی کتاب کا جائزہ ہے اور دوسرے میں میں نے ان کو جواب دیا ہے۔ کتاب میں دہشت گردی کے تناظر میں ملکی میڈیا کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔اس میں تین ایشوز اٹھائے گئے ہیں اور ان پر انگریزی، ہندی اور اردو میڈیا کی رپورٹنگ کے نمونوں کی روشنی میں تینوں زبانوں کی صحافت کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دو ایشوز بٹلہ ہاوس انکاونٹر اور ممبئی پر دہشت گردانہ حملے ہیں۔ تیسرا غیر متعلق ایشو ہے۔ کہنے کو تو اس میںتینوں زبانوں کے میڈیا کا جائزہ لیا گیا ہے لیکن در حقیقت اس کا واحد اور اصل مقصد اردو میڈیا اور مسلمانوں کو بدنام کرنا اور ان کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ اس میں انگریزی میڈیا پر 52، ہندی میڈیا پر 21 اور اردو میڈیا پر 61 صفحات خرچ کیے گئے ہیں۔تینوں زبانوں کے معروف اخبارات کی خبروں اور تجزیوں کے نمونے پیش کرکے ان کی روشنی میں نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اردو میڈیا کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ’اردو ملک کی 17 ریاستوں میں بولی جاتی ہے اور اردو اخباروں کی ہر جگہ پہنچ ہے۔لہٰذا ایک خاص مذہب کی صحافت کرنا اس زبان کے تنگ نظر ہونے کا ثبوت ہے۔ ایسی صحافت آزادی اور غیرجانبداری کے نام پر من مانی اور فرقہ پرست ہو جاتی ہے۔ اردو اخباروں نے بٹلہ ہاوس انکاونٹر کو فرضی مانا۔ ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کو جہاں مین اسٹریم کے اخبارات نے جہادی سازش کے طور پر دیکھا وہیں اردو اخباروں نے اسے یہودیوں، موساد، امریکہ اور سی آئی اے کی سازش قرار دیا۔ وہ اپنے اس نظریے پر اس وقت بھی قائم رہے جب ممبئی پولیس نے تمام پہلووں کو سامنے رکھ کر گیارہ ہزار صفحات کی چارج شیٹ دائر کردی۔‘اس جائزے میں اردو اخباروں پر فرضی اور بے بنیاد جائزوں کی روشنی میں سنسنی خیزی کا الزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اردو صحافت افواہوں کا گھوڑا دوڑانے والی صحافت ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’بٹلہ ہاوس انکاونٹر کو فرضی قرار دینے کا مقصد فرقہ وارانہ ذہنیت کو پروان چڑھانا ہے۔ اس معاملے کو مسلم سیاست کا مرکز و محور بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور دہشت گردی سے زیادہ دہشت گرد کے مذہب کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ پولیس کی کارروائی پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور انکاونٹر میں مارے گئے دونوں دہشت گردوں کو معصوم اور بے قصور بتایا جا رہا ہے۔‘ اردو اخباروں کی جانب سے ان بیانات کو شائع کرنے پر بھی ان پر لعن طعن کی گئی ہے جن میں انکاونٹر کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مسلم سیاست کا مرکز اب جامع مسجد سے جامعہ نگر میں منتقل ہو گیا ہے اور اسی روشنی میںمذکورہ تینوں معاملات کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اردو کے جن اخباروں کی رپورٹوں کو نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہ ہیں: ہفت روزہ نئی دنیا، انقلاب، راشٹریہ سہارا، اردو ٹائمز، سیاست، آزاد ہند، منصف، اخبار مشرق، ہندوستان ایکسپریس، رہنمائے ملت، جدید مرکز، نشیمن اور عالمی سہارا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تینوں زبانوں کے اخباروں سے صرف ان خبروں کے تراشے شامل کیے گئے ہیں جو ان کے مقصد کی تکمیل کرتی ہوں۔ ان خبروں اور جائزوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جو پہلے سے طے شدہ ان کے نظریے کے خلاف ہوں۔ اردو اخباروں کی ان خبروں کو چھوا تک نہیں گیا جن میں دہشت گردی کی مخالفت کی گئی یا دہشت گردی کے خلاف کانفرنسوں اور پروگراموں کی رپورٹنگ کی گئی تھی۔ اردو اخباروں سے صرف ان خبروں کو چنا گیا جن میں سوالات کھڑے کیے گئے اور پولیس کے بیانات کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی گئی۔اسی طرح انگریزی اور ہندی کی صرف انہی خبروں کو لیا گیا جن میں بٹلہ ہاوس انکاونٹر میں پولیس کے بیانات کو شائع کیا گیا، مسلمانوں کو دہشت گرد کہا گیا، جہادی دہشت گردی کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور جن میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف رپورٹنگ ہوتی ہے اور مسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ وہ بعض اوقات حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی کرتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی نا انصافی پر آواز بھی اٹھاتا ہے۔ ایسے کئی اخبارات ہیں جو فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کھل کر لکھتے ہیں۔ انہوں نے بٹلہ ہاوس انکاونٹر معاملے پر بھی بہت سے سوالات اٹھائے اور چند لوگوں کی حرکتوں کی آڑ میں پوری مسلم قوم کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ایک طبقے کاپوسٹ مارٹم کیا ہے۔ میں نے آٹھ صفحات پر ان کی کتاب کا خلاصہ پیش کیا اور آٹھ صفحات میں ہندی اور انگریزی کی ان خبروں کی روشنی میں ان کو جواب دیا ہے جن میں راکیش سنہا جیسے لوگوں کے نظریات کی نفی کی گئی ہے۔ میں نے ہندی اور انگریزی کے انہی اخباروں کی خبروں کے نمونے لیے ہیں جن کی خبروں کے نمونے راکیش سنہا نے پیش کیے تھے۔ میرے یہ دونوں مضامین 2010ءمیں شائع ہونے والی میری کتاب ’میڈیا اردو اور جدید رجحانات‘ میں شامل ہیں۔ راکیش سنہا کا ایک چہرہ یہ بھی ہے۔ کیا وہ اپنی اس کتاب کی روشنی میں اپنے نظریات کی وضاحت کریں گے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like