Home مقبول ترین راہل کی سزا نے سیاسی منظرنامہ بدل دیا – سہیل انجم

راہل کی سزا نے سیاسی منظرنامہ بدل دیا – سہیل انجم

by قندیل
اس وقت اگر ہندوستانی سیاست کا کوئی گرما گرم موضوع ہے تو وہ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کو ہتک عزت کے معاملے میں دو سال کی سزا اور ان کی پارلیمانی رکنیت کی منسوخی ہے۔ کیا سیاست داں کیا افسران، کیا دانشور کیا عام لوگ۔ سب کی زبان پر بس یہی ایک موضوع ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ اور جرمنی نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔ اس کی معقول وجہ بھی ہے۔ راہل گاندھی ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس کے قائد ہیں۔ کانگریس 138 سال پرانی پارٹی ہے۔ جنگ آزادی میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ وہ آزاد ہندوستان پر سب سے طویل عرصے تک حکمراں رہی ہے۔ ملک کوسب سے زیادہ وزرائے اعظم دینے کا اس کا ریکارڈ ہے۔ اس کے سات رہنما پنڈت جواہر لعل نہرو، گلزاری لال نندہ، لال بہادر شاسرتی، اندراگاندھی، راجیو گاندھی، پی وی نرسمہا راؤ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ ان میں سے تین وزرائے اعظم نہرو گاندھی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب کانگریس تقریباً مردہ ہونے کو آئی تھی تو راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی نے اس کی باگ ڈور سنبھال کر پارٹی کو اقتدار کے ایوان تک پہنچا دیا تھا اور وہ دس سال تک برسراقتدار رہی۔ ان کے بیٹے راہل گاندھی 2004 سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ پہلے انھوں نے لوک سبھا میں امیٹھی اترپردیش کی نمائندگی کی اور اب وہ کیرالہ کے وایناڈ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے بائیو ڈیٹا میں ایک ایسا مائنس پوائنٹ جڑ گیا جو ابھی تک کسی بھی کانگریسی ایم پی کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ قارئین جانتے ہیں کہ انھیں 2019 میں ایک تقریر کی پاداش میں گجرات کی ایک عدالت نے ہتک عزت کا مجرم قرار دیا اور انھیں دو سال کی جیل کی سزا سنا دی۔ ہتک عزت کے کسی معاملے میں کسی سیاست داں کو سنائی جانے والی یہ اب تک سب سے لمبی سزا ہے۔ سزا سنائے جانے کے اگلے ہی روز لوک سبھا سکریٹریٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی رکنیت منسوخ کر دی اور اب ان کو سرکاری بنگلہ خالی کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ عدالت نے سزا کو تیس دن کے لیے معطل کرکے راہل کو اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا موقع دیا ہے۔ سیاسی، صحافتی و قانونی حلقوں میں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا عدالت نے جان بوجھ کر یا حکومت کے اشارے پر دو سال کی سزا سنائی ہے تاکہ ان کی رکنیت ختم ہو جائے یا مجسٹریٹ نے ان کے جرم کو اتنا سنگین پایا کہ اسے اتنی لمبی سزا سنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس معاملے کا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی آئندہ سیاست پر اس کا کوئی اثر پڑے گا یا یہ معاملہ اپنے آپ سرد خانے میں چلا جائے گا۔
آئیے پہلے فیصلے اور رکنیت کی منسوخی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 2013 میں عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اگر کسی ایم پی، ایم ایل اے یا ایم ایل سی کو کسی معاملے میں دو سال یا اس سے زیادہ کی سزا سنائی جاتی ہے تواس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ اس قانون کے تحت لالو یادو، اعظم خاں، محمد فیصل اور وکرم سینی کی رکنیت جا چکی ہے۔ (محمد فیصل کی رکنیت بحال ہو گئی ہے)۔ کانگریس نے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کے مطابق ایسا مجرم سزا کاٹنے کے بعد مزید چھ سال تک انتخاب لڑنے کا نااہل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اعلیٰ عدالت راہل کی سزا کو معطل یا منسوخ نہیں کرتی تو وہ 2031 تک انتخاب لڑنے کے نااہل رہیں گے۔ بیشتر تجزیہ کار یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ معاملہ سورت کے مذکورہ مجسٹریٹ کے دائرہئ کار میں آتا تھا یہ نہیں اور یہ کہ انھوں نے دو سال کی ہی سزا کیوں سنائی۔ اس سے کم کیوں نہیں سنائی۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے فیصلے میں کئی خامیاں گناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں تقریر کی تھی لیکن مقدمہ درج کیا گیا گجرات کے سورت میں۔ انھوں نے جن تین افراد نیرو مودی، للت مودی اور نریندر مودی کے نام لیے تھے مقدمہ ان میں سے کسی کو درج کرانا چاہیے تھا۔ لیکن درج کرایا ایک غیر متعلق شخص نے۔ مجسٹریٹ کو سمن جاری کرنے سے قبل معاملے کی جانچ کرانی چاہیے تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا مجسٹریٹ کو معلوم تھا کہ اگر دو سال کی سزا سنائی گئی تو رکنیت ختم ہو جائے گی۔ ان کے بقول ایسے کئی سوالات ہیں جو فیصلے کو مشکوک بناتے ہیں۔ جہاں تک لوک سبھا سکریٹریٹ کا عجلت میں رکنیت خارج کرنے کا نوٹی فکیشن کاری کرنے کا معاملہ ہے تو لوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل پی ڈی ٹی آچاریہ نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے لوک سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے عجلت میں رکنیت منسوخ کرنے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ آٹھ کی شق تین کے مطابق کسی قانون ساز کو دو سال یا دو سال سے اوپر سزا ہوتی ہے تو سزا سنائے جانے کی تاریخ سے ہی وہ رکنیت کا نااہل ہو جائے گا۔ لیکن اس بارے میں کنفیوژن پیدا کیا گیا۔ کیونکہ مذکورہ دفعہ میں جو جملہ استعمال کیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے شخص کو نااہل قرار دیا جائے گا یہ نہیں کہ نااہل ہو جائے گا۔ ان کے مطابق عدالت تو صرف سزا سنائے گی رکنیت کوئی اور اتھارٹی ختم کرے گی۔ لیکن وہ اتھارٹی کون ہے اس کی وضاحت اس قانون میں نہیں ہے بلکہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 130 میں وضاحت کی گئی ہے۔ جس کے مطابق وہ اتھارٹی ہے صدر کی نہ کہ لوک سبھا کے سکریٹری جنرل کی اور نہ ہی اسپیکر کی۔ ضابطے کے مطابق لوک سبھا سکریٹریٹ کو اس معاملے کو صدر کے پاس بھیجنا ہوتا ہے۔ صدر اس پر فیصلہ کرتا ہے اور لوک سبھاسکریٹریٹ کو اپنے فیصلے سے مطلع کرتا ہے۔ اس کے بعد سکریٹریٹ یہ کہتے ہوئے رکنیت کی منسوخی کا نوٹی فکیشن جاری کرتا ہے کہ صدر نے فلاں رکن کی رکنیت ختم کر دی ہے۔ لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ تاہم انھوں نے غالباً مصلحتاً یہ کہنے سے انکار کر دیا کہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے بے ضابطہ کارروائی کی ہے یا عجلت میں رکنیت منسوخ کی ہے۔ انھوں نے یہی بات انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں اپنے مضمون میں بھی کہی ہے۔ غالباً فیصلے کی مبینہ خامیوں اور لوک سبھا سکریٹریٹ کی عجلت پسندی کے پیش نظر سنجے ہیگڑے کا خیال ہے کہ یہ معاملہ اعلیٰ عدالت ٹھہر نہیں پائے گا۔ یعنی اسے منسوخ کر دیا جائے گا۔
جہاں تک ہندوستانی سیاست پر اس فیصلے کے مرتب ہونے والے اثرات کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے نے ملکی سیاست کا منظر نامہ یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ بعض مبصرین اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سے کانگریس کو فائدہ اور بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ حالانکہ بی جے پی کسی نقصان سے بچنے کے لیے اس معاملے کو راہل بنام او بی سی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے مطابق راہل نے مودی برادری کی جو کہ او بی سی یعنی دیگر پسماندہ ذاتوں میں آتی ہے، توہین کی ہے۔ حالانکہ متعدد مبصرین کئی شخصیات کے نام گنا کر بتاتے ہیں کہ ان کی بھی کنیت مودی تھی لیکن وہ او بی سی نہیں تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت کانگریس پارٹی کو اپنے وجود کی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے اور راہل گاندھی نریند رمودی کی مقبولیت کے آگے بے بس ہیں۔ ان کے سامنے مودی حامی ہندو اکثریت کا مقابلہ کرنے کا چیلنج ہے۔ اگر چہ مذکورہ فیصلے نے راہل اور کانگریس کی سیاست کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے تاہم اس سے کانگریس کو سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔وہ اس صورت حال کو اپنے حق میں موڑ سکتی ہے۔ اگر اعلیٰ عدالت سے راہل کو راحت مل جاتی ہے تو وہ فاتح کی حیثیت سے ابھریں گے، بصورت دیگر وہ شہید کہلائیں گے۔ ان کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کار سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی مثال پیش کرتے ہیں جن کی رکنیت عدالت کے حکم سے ختم ہو گئی تھی اور ان کی حکومت چلی گئی تھی۔ لیکن پھر انھوں نے ملک گیر دورے کیے اور دوبارہ جیت کر برسراقتدار آئیں۔ گو کہ ابھی اس کی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی کہ راہل گاندھی 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے پائیں گے یا نہیں لیکن اگر وہ حصہ نہیں لے سکے تو انتخابی مہم کے دوران ان کی بہن پرینکا گاندھی ان کی جگہ لے سکتی ہیں۔ اس فیصلے کا فوری نتیجہ اس شکل میں برآمد ہوا ہے کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو تی نظر آرہی ہیں۔ کانگریس کے حریف کیجری وال، ممتا بنرجی، اکھلیش یادو اور کے سی آر سب راہل کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس نئی صورت حال کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہو گئیں اور بی جے پی کے ہر امیدوار کے مقابلے میں ان کا ایک متحدہ امیدوار اترا تو بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ اپوزیشن رہنماؤں کے سیسای عزائم کے پیش نظر اس امکان کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عارضی اتحاد ہے۔ جب ان کی انائیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی تو پھر سب تتر بتر ہو جائیں گے۔ بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس فیصلے نے سیاست کے سمندر میں زبردست موجیں اٹھا دی ہیں جو طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر ان موجوں نے طوفان کی شکل اختیار کی تو وہ مودی حکومت کو خس و خاشاک کی مانند اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔

You may also like

Leave a Comment