( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
راہل گاندھی نے کیا واقعی برطانیہ میں اپنے بیانات کے ذریعے بھارت کی ایسی توہین کی ہے کہ ، ساری بی جے پی اور بی جے پی کی مرکزی و ریاستی سرکاروں کا ، ان سے معافی کا مطالبہ برحق مان لیا جائے ؟ کیا واقعی راہل گاندھی نے اتنا بڑا قصور کر دیا ہے کہ ، ان کے خلاف ’ حکمراں ‘ جماعت کاپارلیمنٹ میں ہنگامہ اور لوک سبھا و راجیہ سبھا کی کارروائیوں کو ٹھپ کرانا ، جائز گردانا جائے ؟ یہ انتہائی اہم سوالات ہیں ۔ اہم اس لیے کہ ملک پہلی بار یہ دیکھ رہا ہے کہ حزبِ اختلاف نہیں ، برسرِاقتدار جماعت پارلیمنٹ کی کارروائیوں کو ٹھپ کرا رہی ہے ، اس کے ارکان ’ راہل گاندھی معافی مانگو ‘ کے نعرے لگا کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہنگامہ کیے ہوئے ہیں ! اور لوک سبھا کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین پر جانبداری کے الزامات لگ رہے ہیں ۔ حزبِ اختلاف متحد ہوکر حکومت پر جمہوری حقوق کوکچلنے کا الزام لگا رہا ہے ۔ اپوزیشن کا یہ ماننا ہے کہ ، مودی کی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ، اس کی زباں بندی کر رہی ہے ۔ حزبِ اختلاف کا یہ مطالبہ ہے کہ اڈانی کی مبینہ بدعنوانیوں کی جانچ کے لیے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی ( جے پی سی ) تشکیل دی جائے ، لیکن مودی سرکار یہ مطالبہ ماننے کے لیے راضی نہیں ہے ۔ اپوزیشن اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ مودی اور اڈانی نے دیش کو لوٹ لیا ہے ۔ اور ایل آئی سی اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا ( ایس بی آئی ) میں عوام کی جمع رقم اڈانی کو دے کر حکومت نے عوام کو بربادی کی کگار پر لے جا کر کھڑا کر دیا ہے ۔ ایک بڑا الزام سرکاری تفتیشی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کا ہے ۔ اپوزیشن نے پوری طاقت کے ساتھ ای ڈی ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے خلاف مہم چھیڑ دی ہے ۔ بدھ کے روز اپوزیشن کے دوسو ممبران پارلیمینٹ نے ای ڈی آفس تک مارچ نکالنے کی کوشش کی تھی ،لیکن حکومت نے یہ مارچ درمیان ہی میں روک دیا ۔ دوسو ممبران پارلیمینٹ کے مارچ کو روکنے کے لیے دوہزار سے زائد پولیس والے لگائے گیے تھے ۔ کیا کسی جمہوریت میں ،عومی نمائندوں کی آوازیں روکنے کی ،ایسی کوئی کوشش جائز قرار دی جا سکتی ہے ؟ کیا یہی وہ باتیں نہیں ہیں ،جن کو بنیاد بنا کر ، راہل گاندھی نے برطانیہ میں ،یہ کہنے کی ہمت کی ہے کہ ،مودی حکومت میں جمہوریت کو خطرہ ہے ؟ تین دن سے پارلیمینٹ ٹھپ ہو رہی ہے ۔ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت میں ، یہ پارلیمینٹ کو ٹھپ کرنے کا ، وہ بھی حکمراں جماعت کے ذریعے ، عمل شرم ناک نہیں ہے ؟ مودی سرکار گلے گلے تک مشکلات میں گھری ہوئی ہے ،اس کے پاس نہ ہی اڈانی معاملہ میں کوئی جواب ہے، اور نہ ہی وہ ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی پر، اٹھتے سوالوں کا جواب دے پا رہی ہے ۔اس کے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں ہے کہ ،کیسے اور کیوں وہ سیاست داں ، ای ڈای اور سی بی آئی و انکم ٹیکس نے جن پر چھاپے مارے ہیں ، اور جن پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے ہیں ، بی جے پی میں شامل ہوتے ہی دودھ کے دھلے ہو جاتے ہیں ۔ بجٹ سیشن کے اس دوسرے دور میں حزبِ اختلاف، اڈانی اور مودی کے رشتے کو پوری شدت کے ساتھ اٹھانے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا ۔ وہ سوالات ، جو اڈانی کے حوالے سے راہل گاندھی نے بجٹ سیشن کے پہلے دور میں ، پارلیمینٹ کے اندر پی ایم مودی سے دریافت کیے تھے ، اور جن کے جواب پی ایم نے نہیں دیے تھے ، وہ بھی اٹھائے جا سکتے تھے ۔ سوالات مہنگائی اور بیروزگاری پر بھی اٹھتے ۔ ایک اہم ، بلکہ سنگین معاملہ اڈانی کی اس کمپنی کے حوالے سے آیا ہے جو دفاع سے متعلق ہے ، کہ اس کو ماریشش کی ایک مشتبہ کمپنی سے روپیے ملے ہیں ۔معاملہ چونکہ ملک کے دفاع کا ہے اس لیے اس معاملے کی گونج بھی پارلیمینٹ میں ہوتی ۔ لیکن بی جے پی نے راہل گاندھی کے ایک ایسے بیان کو ، جو غلط بھی نہیں ہے ، اپنے بچاؤ کا اور اپوزیشن کے سوالوں سے بچنے کا بہانہ بنا لیا ہے ۔ ویسے یہ جو رویہ ہے اس سے تو ثابت یہی ہوتا ہے کہ راہل گاندھی نے برطانیہ جا کر کوئی غلط بات نہیں کہی ہے ۔ مودی سرکار کو اپنی انا کو طاق پر رکھنا ہوگا ورنہ راہل گاندھی کی بات ساری دنیا میں ’ سچ ‘ مانی جائے گی ۔ جمہوریت میں اپوزیشن کو بولنے اور احتجاج کرنے کا حق ہوتا ہے ، اسے بولنے دیا جائے ۔ اور اگر واقعی راہل گاندھی نے ایسا بیان دیا ہے ، جس سے ملک کی توہین ہوئی ہے تو اسے دلیلوں سے ثابت کیا جائے نہ کہ یہ دباؤ ڈالا جائے کہ راہل گاندھی معافی مانگیں ۔ راہل گاندھی تو کہہ ہی چکے ہیں کہ ان کا نام ’ راہل ساورکر ‘ نہیں ہے ، راہل گاندھی ہے ، وہ معافی نہیں مانگیں گے ، معافی مودی مانگیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)