ایک زمانے میں ممبئی میں ایک سیاسی لطیفہ خوب چلتا تھا ؛ کوئی کسی سے پوچھتا کہ فلاں مسلم پارٹی نے فلاں فلاں مسلمان کو ٹکٹ دے کر میونسپل کا الیکشن کیوں جتوا دیا ؟ جواب ملتا تاکہ اسے کروڑ پتی بنوا دے ۔ یہ کہنے کو ایک لطیفہ ہے لیکن یہ سیاسی پارٹیوں پر بھی اور مسلم قیادت پر بھی ایک گہرا طنز ہے ۔ اگر ہم مڑ کر پیچھے نظر ڈالیں تو غلام محمود بنات والا اور ایسے ہی چند مسلم قائدین کے سوا کوئی بھی مسلم قائد ایسا نہیں ملے گا جس پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے ۔ بنات والا جیسے سیاست داں وہ لوگ تھے جن کی ساری سیاسی زندگی سادگی سے گزری ہے ، جن کے تعلق سے کبھی کسی کی زبان سے نہیں نکلا کہ یہ نوٹ چھاپ رہا ہے ۔ زیادہ تر مسلم قائدین کو ، انہیں ووٹ دینے والے افراد نے اپنی آنکھوں کے سامنے پھلتے پھولتے دیکھا ہے ، ایک الیکشن جیتے اور ساری آسائشیں فراہم ہو گئیں ۔ آسائشوں کا ملنا یا کرّوفر سے زندگی گزارنا کوئی خراب بات نہیں ہے ، لیکن جب ووٹروں کو ، اپنے زمینی آقاؤں کے ہاتھوں بیچ کر آسائشیں حاصل کی جائیں تو بات صرف خراب نہیں ازحد خراب ہے ۔ یہ اپنے ووٹروں کو دھوکہ دینا ، ان کے مسائل پر اپنی روٹی سینکنا اور ان کی پریشانیوں پر بے حِس رہنا ہے ۔ مسلم قیادت کا ذکر لوک سبھا کے حالیہ انتخابات کے ضمن میں ہے ۔ مہاراشٹر سے ایک بھی مسلمان لوک سبھا نہیں پہنچا ہے ! اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ میں تعلیمی ، سماجی اور ثقافتی منصوبے بنائے جائیں گے اور جب مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کی ترقی کے لیے فنڈ مختص کیا جائے گا تب وہاں مہاراشٹر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ۔ بھیک کی طرح مسلمانوں کی جھولی میں چند سکّے پھینک دیے جائیں گے اور مسلمان روتے گاتے رہ جائیں گے ۔ کون ہے اس کا ذمے دار ؟ کیا عام مسلمان؟ نہیں ، اس کے ذمے دار عام مسلمان نہیں ہیں ، انہوں نے تو نہ جانے کتنی بار کتنے ہی مسلم قائدین کو پارلیمنٹ تک پہنچایا ہے ، اور ہر بار ان سے دھوکہ کھایا ہے ۔ مسلم قائدین نے ایم پی اور ایم ایل اے بننے کے بعد ممبئی کے عام مسلمانوں کا کیا بھلا کیا ہے؟ کیا کوئی اسکول اور کالج بنوایا؟ کوئی اسپتال بنوایا؟ کوئی مسلم کالونی بسائی؟ کیا کوڑیوں کے مول بکنے والی وقف کی جائیدادوں کی بازیابی کی کوئی کوشش کی؟ کیا سرکاری ملازمتوں میں ، چند ہی سہی ، مسلمانوں کی تقرریوں کو ممکن بنایا؟ کیا کبھی اپنے زمینی آقاؤں سے سوال کیا کہ یہ اتنے مسلم نوجوانوں کو کیوں گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال رکھا گیا ہے؟ کیا کبھی مسلم ووٹ پانے والی سیاسی پارٹیوں سے کہا کہ مسلمانوں کے ووٹ اس شرط پر ملیں گے کہ انہیں نوکریاں دی جائیں ، ان کے لیے اعلیٰ تعلیم ممکن بنائی جائے اور انہیں بہتر زندگی گزارنے کی سہولت دی جائے؟ یہ سب مسلم قیادت نے ، مسلم ایم پی مسلم ایم ایل اے اور کسی مسلم وزیر نے نہیں کیا ، اور اگر کیا بھی تو اپنے گھر والوں اور عزیزوں کے لیے کیا ، اپنے ووٹروں کے لیے نہیں کیا ۔ تو سوال ہے کہ اب آنے والے اسمبلی کے الیکشن میں اور ممبئی کے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں آپ کو کیوں ووٹ دیا جائے؟ آج مسلم قیادت تہنیتی جلسے کر رہی ہے اور فخر سے سر اٹھا کر کہہ رہی ہے کہ یہ ہماری محنت تھی جس کے سبب ’ انڈیا ‘ الائنس کے امیدواروں کو مسلمانوں کے ووٹ ملے ۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے ۔ یہ تو مسلمانوں کو فراموش کیے بیٹھے تھے ، ’ انڈیا ‘ الائنس کے امیدواروں کی کامیابیوں میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ، مسلمانوں نے اپنی فہم اور فراست سے انہیں کامیاب بنانے میں اپنا کردار نبھایا ہے ۔ لہذا کانگریس ، این سی پی اور ’ انڈیا ‘ الائنس میں شامل دیگر پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ اب کی بار اس جھوٹی اور عام مسلمانوں کے تئیں بے حِس مسلم قیادت کو قطعی انتخابات میں امیدواری نہ دے ۔ اور نہ ہی انہیں پارٹی میں کوئی عہدہ یا کوئی اہم ذمے داری سونپے ۔ یہ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور سماجی و تعلیمی تنزلی کے ذمے دار ہیں ۔ انہوں نے اپنی اور اپنے گھر والوں کے عیش و عشرت کے لیے مسلمانوں کو بیچا ہے ، انہوں نے تو کبھی کسی غریب مسلمان کی تعلیمی مدد تک نہیں کی ہے جبکہ لال باغ چا راجہ اور سدھی ونائک مندر ٹرسٹ سے مسلمانوں کو تعلیمی مَد میں امداد دی گئی ہے ! اب یہ ، ایک الیکشن جیت کر کروڑ پتی بننے والی مسلم قیادت ، مسلمانوں کو منظور نہیں ہے ، لہذا راہل گاندھی جی ، شرد پوار جی ، کھڑگے جی اور ادھو ٹھاکرے جی اب اس قیادت کو برائے مہربانی مسلمانوں پر نہ تھوپیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)