جے پور:کسانوں کے معاملہ پر آج کل راہل گاندھی انتہائی بیدار نظر آتے ہیں ، ایوان سے لے کر سڑکوں تک مرکزی سرکار کو للکاررہے ہیں ۔اسی کڑی میں کل راجستھان کے دو روزہ دورے پر پہنچے راہل گاندھی نے جمعہ کے روز پیلی گنگا میں کسان مہاپنچایت کا انعقاد کیا۔ چارپائیوں کو اسٹیج پر تبدیل کیا گیا۔انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا ،تو انہوں نے زرعی قوانین سے متعلق زیادہ تر وہی باتیں کہی ، جو ایک دن پہلے لوک سبھا میں کہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تین زرعی قوانین پر عمل درآمد کیا گیا، تو ملک کے 40فیصد لوگ بے روزگارہوکررہ ہوجائیں گے۔انہوںنے کہا کہ کل میں نے پارلیمنٹ میں کسانوں کے معاملہ پر تقریر کی تھی۔میں نے نریندر مودی سرکار کے لائے ہوئے تینوں قوانین کے پس پردہ مقاصد اور اس کے پیچھے کی بد نیت ’سوچ‘ کی تشریح کی تھی ۔ آج بھی میں آپ کو ان تینوں قوانین کے پس پردہ مقاصدکی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا سچ تو یہ ہے کہ زراعت صرف ہندوستان میں ہی نہیں ،بلکہ دنیا کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔ آج اس کاروبارکو کوئی ایک شخص نہیں چلاتا ہے۔ ہندوستان کے 40 فیصد لوگ اس کاروبار میںاپنی شراکت ادا کرتے ہیں۔ ان میں کسان ، مزدور ، آڑھتی، دکاندار ، تاجر ، نوکر شامل ہیں۔کانگریس پارٹی حتی المقدور کوشش کر رہی ہے کہ اس کاروبار کو کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہ جانے دیا جائے۔یوم آزادی سے لے کر آج تک ہمارا یہ مقصد رہا ہے کہ یہ کاروبا ہندوستان کے 40فیصد لوگوں کا کاروباربن کر رہے۔راہل گاندھی نے کہا کہ یاد رہے کہ :’پہلا قانون مارکیٹ ختم کرے گا ، دوسرا ذخیرہ اندوزی میں اضافہ کا باعث ہوگا، جبکہ تیسرا انصاف کی اجازت نہیں دے گا۔ راہل گاندھی کے مطابق یہ ہندوستان کے 40 فیصد لوگوں پر حملہ ہے۔ کسان سب سے زیادہ بیدار ہیں ، انہیں یہ بات پہلے ہی سمجھ میں آگئی ۔ کسانوںنے اندھیرے میں چراغ جلایا ہے ، وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تینوں قانون نافذ ہوگیا، تو کسان تو گیا ، اس کی زمین بھی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی چھوٹے دکاندار بھی زد میں آگئے۔ تاجر مزدور بھی گئے۔ ہندوستان کے 40 فیصد لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ پی ایم کہتے ہیں کہ ہم نے کسانوں کے لئے یہ کیا۔ اگر یہ کسانوں کے لئے ہے تو پھر کیوں پورے ملک کا کسان مایوں کیوں ہے۔ لاکھوں کسان دہلی کی سرحدوں پر کیوں کھڑے ہیں؟ 200 کسان کیوں اس تحریک کے باعث ہلا ک ہوئے؟ جان لیجئے یہ سب 4 لوگوں کے لئے ہو رہا ہے۔40 فیصدلوگوں پر پہلا حملہ نوٹ بندی کے وقت ہوا غریبوں کے گھر سے پیسہ نکالاگیا۔ میں نے اُس وقت کہا تھا کہ یہ کالے دھن کے خلاف لڑائی نہیں ہے،بلکہ ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑی جارہی ہے۔ اس کے بعد جی ایس ٹی نے چھوٹے دکانداروں کو بھی ختم کردیا۔ پی ایم مودی اپنے دوستوں کے لئے راستہ ہموار کررہے ہیں۔ آج تک ، چھوٹے دکاندار آج تک جی ایس ٹی کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔ یہ الجھن باقی ہی تھی کہ کرونا آگیا۔ پی ایم مودی نے کسی سے مشورہ لئے بغیر کسی اطلاع اور اشارہ کے بغیر ہی اٹ پٹے طریقہ سے لاک ڈاؤن لگادیا۔ ہندوستان کے مزدور گھروں کی طرف چل پڑے۔ مزدور جوڑے ہاتھوں بس-ریل کا ٹکٹ مانگتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ میں دینے والا نہیں ہوں۔مزدور بھوکے مر گئے۔ پھر اسی وقت 1.50 لاکھ کروڑ کا قرض معاف کردیا گیا۔ اس ملک میں روزگار کون دیتا ہے؟ دو تین صنعتکار نہیں دیتے ، کسان ، چھوٹے دکاندار ، تاجردیتے ہیں۔بے روزگاری پھیلتی ہی جارہی ہے۔ نریندر مودی ہر دن کوئی نہ کوئی نیا بہانہ تراش ہی لیتے ہیں ۔ آپ نے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کا چہرہ دیکھا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں ہم کسانوں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ کس چیز کی بات کریں گے،اس سیاہ زرعی قوانین ختم کریں ، کسان آپ سے بات کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم کسانوں ، مزدوروں ، چھوٹے تاجروں کے ساتھ کھڑے ہوکر اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ منسوخ کرواکر ہی دم لیں گے۔راہل گاندھی نے کہا کہ چین ہندوستانی زمین پر آیا۔ چینی فوج نے ہزاروں کلو میٹر کی زمین کو ہندوستان سے چھین لیا۔ ہمارے فوجی شہید ہوئے تھے اور کل ایوان میں وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدہ کس بات پر ہوا ہے ؟ مودی سرکار نے چین کو ہندوستان کی مقدس سرزمین تھمادی ۔
راجستھان:راہل گاندھی نئے تیو رمیں آئے نظر،زرعی قانون کےخلاف جم کر بولا
previous post