(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
ملک کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ہے ۔ 2014 کے بعد سے اب جاکر لوک سبھا میں اپوزیشن کے کسی رکن کو قائدِحزب اختلاف (اپوزیشن لیڈر) کی کرسی ملی ہے ۔ کانگریسی رہنما راہل گاندھی اس بار اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر متمکن ہوئے ہیں ۔ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی کا اپوزیشن لیڈر بننا کیسے ملک کی سیاست میں ایک نئی کروٹ ہے ؟ اس کا ایک ہی جواب ہے ، بی جے پی کی یا کہہ لیں نریندر مودی کی حکومت اب تک جس طرح کام اور قوانین آنکھیں بند کرکے کرتی اور بناتی رہی ہے ، اب ایک اپوزیشن لیڈر کی موجودگی میں آسان نہیں ہوگا ۔ وزیراعظم جن کمیٹیوں میں ہوں گے ان کمیٹیوں کا ایک رکن اپوزیشن لیڈر بھی ہوگا ۔ یہ کمیٹیاں سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں میں تقرریوں سے متعلق بھی ہیں ، اور دیگر سرکاری محکموں سے بھی ۔اس طرح تقرریوں میں راہل گاندھی کے عمل دخل سے وزیراعظم نریندر مودی آسانی سے اپنے من چاہے افسران واہلکاران کو من چاہی پوسٹیں نہیں دے پائیں گے ۔ یہ پہلا موقع ہے جب راہل گاندھی کو ایم پی کی حیثیت سے ایک آئینی عہدہ ملا ہے ۔ عہدہ جو تقریباً ایک دہائی سے خالی پڑا ہوا تھا ! کانگریس پارٹی نے اور خود راہل گاندھی نے یہ واضح کردیا ہے کہ حکومت سے اس کے ہر کام کے لیے سوالات پوچھے جائیں گے ‘ وہ جواب دہی سے نہیں بچ سکے گی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس بار پارلیمنٹ پہلے کے مقابلے زیادہ ہنگامہ خیز ہوگا ، اور اپوزیشن پہلی بار حکومت کو کٹگھڑے میں کھڑا کرنے کے لیے آزاد ہوگی ۔ یہ عہدہ راہل گاندھی کی قیادت کا امتحان بھی ہوگا ، انہیں ایک سمجھدار قائد کی طرح آگے بڑھ کر رہنمائی بھی کرنا ہوگی اور یہ خیال بھی رکھنا ہوگا کہ ’ انڈیا‘ اتحاد میں ان کے کسی عمل یا فیصلے سے بے چینی نہ پھیلے ۔ ظاہر ہے یہ کام اس قدرآسان بھی نہیں ہے کیونکہ ’ انڈیا‘ اتحاد میں مختلف نظریات اور سوچ کی پارٹیاں اور سیاست داں شامل ہیں ۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی ، جن کی پارٹی ترنمول کانگریس ایک دن ’انڈیا‘ اتحاد کی حمایت کرتی ہے اور دوسرے دن مخالفت، راہل گاندھی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہیں ۔راہل گاندھی کو ’اچھے‘ اور ’ بُرے‘ دونوں طرح کے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرناہوگی ۔ راہل گاندھی کا اپوزیشن لیڈر بننا اس لیے بھی اہم ہے کہ انہیں لوک سبھا میں اوم برلا کا سامنا کرنا ہوگا ، جو اسپیکر کے عہدے کے لیے دوسری بارمنتخب کرلیے گئے ہیں ۔ راہل گاندھی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے جب پارلیمنٹ پہنچے تو انہوں نے دوٹوک لفظوں میں یہ پیغام دے دیا کہ اپوزیشن حکومت کے ساتھ پارلیمانی کام کاج میں پوری طرح سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایوان کے اندر اپوزیشن کی آواز سنی جائے ۔ یہ ایک طرح سے اوم برلا کو ایک طرح کا انتباہ ہے ۔ یہ اوم برلا ہی تھے جنہوں نے اسپیکر کی حیثیت سے کئی اراکین پارلیمنٹ کی معطلی کے فیصلے کیے تھے ، راہل گاندھی کی معطلی کا بھی ‘ ایک با رتویک مشت انہوں نے 143اراکین کو معطل کردیا تھا جس کے نتیجے میں سارا ایوان خالی پڑا تھا اور حکومت نے من مانے ڈھنگ سے کسی بحث کے بغیر کئی بل منظور کرکے قانون بنادیے تھے ۔ راہل گاندھی نے اگر اپوزیشن لیڈر کے طور پرسمجھ داری سے کام لیا اور حکومت کے دباؤ میں آئے بغیر اپنا فرض نبھایا تو من مانے ڈھنگ سے نہ بل منظور کرائے جاسکیں گے اور نہ ہی من مانے ڈھنگ سے سی بی آئی ، ای ڈی اور محکمۂ انکم ٹیکس لوگوں کو گرفتار کرسکے گا ۔ ممکن ہے راہل گاندھی کے سامنے پہلا چیلنج ایم آئی ایم کے سربراہ اور ایم پی اسدالدین اویسی کی شکل میں آئے ۔ حلف برداری کے دوران ’ جئے فلسطین‘ کہنے کے لیے ان کے خلاف کئی شکایتیں درج کرادی گئی ہیں ، مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ سے ان کی رکنیت رد کی جائے ۔ اگر یہ معاملہ اسپیکر کے پاس پہنچا تو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے راہل گاندھی کو پوری طاقت کے ساتھ اسدالدین اویسی کا ساتھ دینا ہوگا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)