Home متفرقاتمراسلہ راحت اندوری:شخصیت کا قابلِ رشک پہلو ـ سلیم احمد اعظمی

راحت اندوری:شخصیت کا قابلِ رشک پہلو ـ سلیم احمد اعظمی

by قندیل

ہر گنہ کے بعد توبہ بعد توبہ پھر گناہ
ہنس پڑی رحمت انوکھی فرد عصیاں دیکھ کر

راحت بھائی سے میرے تقریباً 35 برس سے مراسم تھے، بے پناہ شفقت فرماتے تھے، جب تک میں مشاعروں سے وابستہ تھا،صرف ایک فون پر یہ پوچھے بغیر کی کیا پیش کروں گا، تشریف لاتے اور بعد مشاعرہ کے کبھی لفافہ میرے سامنے نہیں کھولتےـ دوسری اہم بات یہ کہ میرے مشاعرے میں نہ تو شراب کی فرمایش کرتے اور نہ ہی پی کر آتے، میری درخواست پر کٸی بار کم ہی مدت کے لیے ہی لیکن توبہ کرلی ـ ١٢ ۔ ١٠ سفر یا اس سے زائد جدہ کا ہوا ہوگا،عمرہ اور مدینہ کی حاضری بھی نصیب ہوتی تھی، اہتمام کرتے تھے کی حاضری سے قبل اور واپسی کے بعد بھی کچھ عرصہ کے لیے چھوڑ دیتے تھے،ادھر کٸی برس سے مستقل توبہ پر قائم تھےـ ان کی عجیب محبت تھی کی اعظم گڈھ کے اطراف کے اضلاع میں بھی جب آتے تھے،تو قیام اعظم گڈھ کے کسی ہوٹل میں ہی کرتے تھے، کہتے تھے کہ تم سے ملاقات مقصود تھی، مشاعرہ ایک بہانہ ہے،رات کو کھانا ساتھ کھا کر کبھی ساتھ میں اور کبھی تنہا مشاعرہ میں جاتے،دو سال قبل بھی مشاعرہ بنارس کا اور قیام اعظم گڈھ میں رہاـ
غریب شعرا کی مدد اور مرحوم شعرا کے گھر والوں خبر گیری خاموشی سے کرتے تھےـ ایک بار غالباً طویٰ کے مشاعرہ میں کمیٹی بغیر پیمنٹ دیے غائب ہو گٸی تھی، کٸی شعراکو کرایہ دیا اور کچھ رقم خاموشی سے ان کی جیب میں ڈال دی، مجھے مشاعرہ کی دنیا میں اس سے اچھا انسان نہیں ملا ـ
مجھے لکھنا نہیں آتا ورنہ یادوں پر مشتمل ایک طویل مضمون ہو جاتا۔
ہائے کیا کیا یاد آ رہا ہے ـ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کی وہ بھوپال یا اندور میں اردو کے لکچرر بھی تھے؛ لیکن انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا،میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ پیشۂ مدرسی سے انصاف نہیں ہو پارہا تھا، مہینہ میں پندرہ بیس دن تو باہر رہتا ہوں اور تنخواہ پوری ملتی ہے، جس کو میں جائز نہیں سمجھتا، وہ چاہتے تو پوری تنخواہ بھی ملتی اور مشاعرہ بھی پڑھتے، لیکن حرام نوش حلال کھانا چاہتا تھا۔احباب بھی سوچیں گے کہ راحت بھائی کے انتقال کے بعد بھی میں ان کی مے نوشی کا تذکرہ بار بار کر رہا ہوں ـ
ایک واقعہ یاد آ رہا ہے سید صباح الدین صاحب کا دور تھا،زبیر رضوی جو اس وقت غالب یا اردو اکیڈ می سے وابستہ تھے، خیرآباد کے ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے آئے اور شبلی منزل میں قیام کیا،میں نے اسی کمرہ میں راحت بھائی کو ٹھہرا دیا، میرے ذمے ان لوگوں کو شام کو خیرآباد لے کر جانا تھاـ سورج غروب ہونے کے بعد زبیر رضوی نے شراب کی فرمایش کردی، راحت بگڑ کر کہنے لگے کہ آپ کو احساس نہیں کہ آپ کہاں پر ٹھہرے ہیں؟ دس قدم پر سیرت النبیﷺ کا خالق سویا ہوا ہے، میں نے اس احاطے میں قدم رکھنے سے قبل اپنے بیگ میں رکھی بوتل پھینک دی اور آپ یہاں سلیم سے شراب مانگ رہے ہیں، یہ تو ویسے بھی نہیں لانے کا! زبیر رضوی کی وہ شام خشک گزری،موڈ بھی خراب تھا اور مشاعرہ میں عمر قریشی مرحوم سے جھگڑ پڑے وہ ایک الگ واقعہ ہے۔
راحت بھائی کی شاعری ان کے انداز، ان کی جرأت پر تبصرے تو پوری دنیا میں ہو رہے ہیں،لیکن مجھے ان کی شخصیت کے وہ پہلو یاد آ رہے ہیں، جو اسٹیج پر نظر نہیں آتے تھے،اس رند کی پارسائی بھی یاد آ رہی ہے، جسے ہر شخص نہیں جانتا تھا،
میں زندگی میں اتنا دکھی کم ہوا ہوں جتنا آج ہوں ـ
راحت بھائی کے جانے سے لاکھوں لوگ غمزدہ ہوں گے لیکن یہ میرا ذاتی غم بھی ہےـ مولاۓ کریم اس قلندر کی مغفرت فرمائےـ آمین

You may also like

Leave a Comment