شمیم اکرم رحمانی
مشاعرے کی دنیا کے بے تاج بادشاہ منفرد لب و لہجے کے مالک، پرواز تخیل کو نئی جہت عطاکرنے والے شاعر راحت اندوری صاحب تقریباً نصف صدی تک شعر و سخن کی زینت بنے رہے اور زبان و ادب کو مالامال کرنے کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی فتح کرتے رہے طاقتور انداز سخن کی وجہ سے کسی کو اندازہ نہ تھا کہ اتنی جلدی راحت صاحب دنیائے رنگ و بو کو خیرباد کہہ دیں گے لیکن خدائے بزرگ کے فیصلے کے سامنے کوئی کیاکرسکتاہے؛ چنانچہ وہی ہوا جس کاانداَزہ کسی کو نہیں تھا اور مورخہ 11/اگست 2020 روز منگل کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
رحمان فارس
راحت صاحب کی وفات کی خبر جیسے ہی وائرل ہوئی ایک کہرام سا مچ گیا۔ ملک کے متعدد سیاستدانوں، شعرا اور سوشل میڈیا صارفین نے اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا تاہم کچھ شرپسندوں نے غم و اندوہ کے اس موقعے پر بھی شرانگیزی کی اورراحت صاحب کی وفات پر جشن منانے کی کوششیں کیں، جن سے ان کی تربیت اور غلط پرورش و پرداخت کااندازہ لگانامشکل نہیں تھا، بقولِ شہنواز فاروقی:
ایسے بھٹک رہا ہے خرابے میں آدمی
جیسے اسے کبھی بھی ہدایت نہیں ملی
بلاشبہ راحت صاحب نے حسن و عشق کو بھی موضوع سخن بنایا، معاشرے کی بدتمیزیاں بھی شمار کرائیں ،سماجی الجھنوں کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی کی پریشانیوں پر بھی گفتگو کیں اور خوبصورتی کے ساتھ مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی؛ لیکن سیاسی جبر ،انارکی اور بدنظمی کے خلاف جتنے اشعار کہے ،وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ مذکورہ موضوع پر اشعار کہتے ہوئے ان کے چہرے کے نشیب و فراز نہ صرف قابل توجہ ہوتے تھے بلکہ جرات رندانہ کی پرعزم تصویر پیش کرتےتھے ،جس کااحساس ہر سننے والے کو ہوتاتھا اور مشاعرے میں غضب کی جان اجاتی تھی، ان کے بعض اشعار اور اشعار کے بعض مصرعوں نے تو انقلابی نعرے کی شکل اختیار کرلی تھی؛ بلکہ کرلئے ہیں جو ہمیشہ احتجاجی ریلیوں میں دہرائےجاتے رہیں گے اور عزم و حوصلے کے اسباق پڑھاتے رہیں گے ۔ مھے عوامی مشاعروں کے اسٹیج سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں جہاں شعرا کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر اور زبردستی کے شعرا کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر رہتی ہے ،جس کے نتیجے میں مشاعرے کھانے پینے اور نالائق ترین شخصیتوں کو چمکانے کے اڈے بن گئے ہیں؛ لیکن راحت صاحب ان گنے چنے شعرا میں سے تھے جن سے مشاعرے کو مشاعرہ کہلانے کا حق حاصل ہوجاتاتھا۔
اب راحت صاحب نہیں رہے اسلئے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ ’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘ تاہم ان کے کہے ہوئے اشعار صدیوں یاد رکھے جائیں گے۔ ذیل میں ان کے کلام سے کچھ منتخب اشعار قلمبند کئے جارہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں
1-نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
2-نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
3-مجھ کورونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
4-آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
5-سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے